اشتہائے محبت (افسانہ)
وہ بہت اداس تھی، ہر غم کے بعد ایک نیا غم اس پر نازل ہو رہا تھا، کیونکہ اسے تیسرے شوہر نے چند سال کے بعد اچانک طلاق دے کر فارغ کردیا تھا۔ بتاؤیہ بھی کوئی زندگی ہوئی۔ وہ کوئی شادیوں کی لیبارٹری یعنی تجربہ گاہ ہے۔ شادی کی اور چھوڑ دیا، شادی کی اور چھوڑ دیا۔ اور یہ آخری شادی تو بڑی ہی منظم چاہتوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ بندے کی یعنی دلہا کی پہلی بیوی نے خود اجازت دے کر اپنے ہاتھوں شوہر کو پھر سے دلہا بنایا تھا۔ شاید وہ اپنے شوہر کی جبلت سے تنگ تھی، شاید اس لیے خود سے دور رکھنے کے لیے یہ کارنامہ انجام دیا۔
بقول پروین شاکر:
میں اپنے صبر کو خود بھی تو آزماؤں گی |
خود اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی |
صبر کیا آزمانہ تھا، وہ آہستہ
آہستہ نئی دلہن کو بھی اپنے ٹریک پر لے آئی، جو کبھی کھلے بالوں، ننگے سر، کبھی بغیر
دوپٹے، نیم بازو آستینوں رہتی تھی۔ اب سوتن کے ساتھ ساتھ عبایا پہنے، باہر گھر کے کبھی
بھی بغیر مکمل بھرپور لباس بلکہ ہمیشہ برقعہ پہنے نظر آتی تھی۔ میں اس کی انقلابی تبدیلی
دیکھ کر ورطہ حیرت میں غرق تھا۔ اب تو وہ بالکل ہی ہر امکان اور پہنچ سے ماورا تھی۔
مگر وہ آج کیوں اُداس تھی،
کیا وہ اس زندگی سے نکل آنے کا تازہ غم تھا؟ میں نے اُس سے آنکھیں ملانے کی کوشش کی
مگر وہ اپنی ڈبڈباتی آنکھیں دوسری طرف کیے رہی۔ شاید مجھ سے ناراض تھی۔
مجھے یاد آیا اس کی پہلی
شادی بھی ایک شادی شدہ آرٹسٹ سے ہوئی تھی۔ جب وہ دونوں قومی طائفے کے ممبر تھے اور
اکثر غیر ملکی وفود کی شکل میں مختلف ممالک میں ثقافتی نمایندگی کے لیے جاتے رہتے تھے۔
اچھی خاصی گزر رہی تھی مگر ایک وقت وہ آیا کہ پہلا شوہر دونوں بیویوں کے درمیان انصاف
کرنے کے قابل نہیں رہا۔ دوسری بیوی کے گھر فاقے پڑنے لگے۔ پھر ظلم یہ ہوا کہ پہلے شوہر
کی پہلی بیوی نے اسے دھوکے سے گھر بلایا اور اس کے اپنے دروازے پر پہنچنے پر ہاتھوں
پیروں پر ڈنڈوں سے تواضع کی اور نوچ کھسوٹ کرکے کپڑے ہی نہیں پھاڑے بلکہ کھرونچیں ڈال
کر لہولہان کر دیا۔ وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر گھر آئی تو مگر ”مرے پر سو دُرّے“ دوسرے
دن شوہر نے اسے طلاق نامہ بھجوا دیا۔ بے چاری سوچتی رہی کہ کس گناہ اور غلطی کا شکار
ہوئی۔
خیر اللہ اللہ کرکے ایک کرنسی
ایکسچینج میں اسے نوکری مل گئی، کیونکہ وہ بارہ کلاسیں تک پڑھی ہوئی تھی، اور طائفہ
وفود کے دوروں سے انگریزی زبان سے اچھی شدبد تھی۔ اب گزارا ٹھیک ٹھاک ہو رہا تھا۔ ایک
صاحب جو شاید کبھی طائفہ وفود میں اس کے ساتھ رہے تھے، اس کی ہمدردی میں ٹسوے بہانے
اس کے گھر آنے جانے لگے۔ وہ گھنٹوں بیٹھے اس سے ہمدردی کے بول بولتے رہتے۔ آخر انسان
کب تک متاثر نہ ہوتا، وہ بھی انھیں اپنا سچا ہمدرد سمجھنے لگی۔ پھر ایک دن اچانک وہ
روتے دھوتے آئے اور اپنی بیٹی کی شادی میں رکاوٹ کا ایسا منظرنامہ پیش کیا کہ بے چاری
جھانسے میں آگئی اور لڑکی کے رشتے اور شادی برقرار رکھنے کے لیے اپنے سارے زیور ان
کے حوالے کر ڈالے اور پھر یوں ہوا کہ یہ بغیر کسی رسید اور کاغذی کارروائی کے شاخسانے
نے اسے پھر زندگی میں اس محرومی کا صدمہ آہیں بھرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
ادھر کرنسی ایکسچینج میں
ایک نوجوان دفتری ساتھی اس میں دلچسپی لیتا نظر آیا۔ رفتہ رفتہ قربتیں اتنی بڑھیں کہ
آخر ایک دن نکاح کی نوبت آگئی۔ یہ اس کی دوسری اچھی اور کامیاب شادی تھی۔ دن اور رات
عید اور شب برات کی مانند تھے۔ بس نوجوان کو امریکا جانے کی لگن تھی۔ جس کے لیے وہ
بین السطور تیاری کر رہا تھا۔ ایک دن انکشاف ہوا کہ وہ کرنسی ایکسچینج کی معقول رقم
لے کر فلائی کر گیا۔ اس بے چاری کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ اس افتاد کا اختتام دونوں
کی ٹیبلز اور فائلوں کی تلاشی پر ہوا، جس میں ایک تازہ طلاق نامہ بمع ایک معذرتی خط
کے برآمد ہوا، تو اس کی جان کی خلاصی ہوئی۔
جان کی خلاصی تو ہوئی مگر
ساتھ ہی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گیا۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ مجھے ہاتھ خالی ہونے
پر اکثر یاد کرتی رہتی۔ میں سمجھتا تھا شاید میں اس کی آخری امید ہوں۔ مگر وہ صرف یہ
اطلاع دیتی گھر کے خالی بھانڈے ٹکرا ٹکرا کر نیا راگ الاپ رہے ہیں، دوسری طرف پیٹ میں
چوہے ڈانس کر رہے ہیں۔ میں اور میرا کردار ان کے جشن میں کام و دہن کا بھرپور بندوبست
کرنا ہوتا تھا۔ چلو میں بھانڈوں کی بھوک مٹانے پر خوش ہوں باقی اللہ اللہ خیر صلہ۔
پھر ایک بار ایک نہایت نیک
بی بی سے ملاقات ہوئی، کسی دینی تقریب میں۔ انھوں نے اسے بھی دنیا پرستی کے عیب لگا
کر مذہب کے حوالے سے وہ درس پڑھائے کہ یہ ان کی مریدنی ہوگئی، وہ جو اسٹیج کی شو بازیاں
تھیں ختم ہوئیں۔ اب عبایا اور برقعے نے زینت کو پردہ میں مستور کردیا۔ کوئی سال سوا
سال کے بعد انھوں نے شادی کا مشورہ بھی دیا۔ جب کوئی امیدوار سامنے نہیں آیا تو انھوں
نے اپنے ہی شوہر کی دوسری شادی رچا دی، شاید وہ شوہر کی وحشت انگیز تشنگی کو لگام دینا
چاہتی تھیں۔ اور پھر ایک بار دن عید اور راتیں شب برات بن گئیں۔ وہ مجھے برقعے میں منہ پر نقاب کھینچے ملی، میں نہیں
پہچانا۔ جب نقاب ہٹائی میں حیران رہ گیا، بڑی دین داری کی باتیں کر رہی تھی، مجھے اپنے
نئے پستہ قد شوہر سے تعارف کرایا۔ میں نے تعریف کی، چلو زندگی ڈھب پر چلنے لگی۔ اس
کے نام پر ایک ہائی روف گاڑی بھی تھی۔ آنے جانے کی سہولت اور زندگی بڑی ہموار گزر رہی
تھی۔ مگر زندگی ہمیشہ ہموار نہیں رہتی۔ یہ دریا کے دو پاٹوں کی طرح ہوتی ہے جس میں
پانی کبھی پرسکون اور کبھی متلاطم بھی ہوتا ہے اور وہ مجھے کچھ عرصے کے بعد ملی، معلوم
ہوا اب وہ پھر مطلقہ تھی۔ کیونکہ اس کی جگہ ایک نئی خاتون نے لے لی تھی۔ میں نے اس
کی آنکھوں میں جھانکا محبت کی اشتہا اب بھی اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔ مگر نہ جانے
کیوں وہ مجھے مقدس گائے سمجھ کر نظرانداز کر رہی تھی، جانے کیوں؟
بہت خوب
جواب دیںحذف کریں