ہم معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے حق میں اتنے سفاک اور بے رحم کیوں ہیں؟شاہدہ تبسم

شاہدہ تبسم

انٹرویو: محمد بخش

تخلیق اس کائنات کا وہ عمل ہے جس کی تکمیل روز و شب کو دوام اور مناظر عالم کو رعنائیوں کے وہ موسم گل رنگ عطا کرتی ہے جس کی مہکار سے نس نس معطر اور قریہ قریہ خوش رنگ ہو جاتا ہے۔ تخلیق کا یہی عمل ڈالی کو پھول اور پھول کو خوشبو کی جاودانی تو کبھی شاعر کو حرف اور حرف کو وہ ردھم عطا کرتا ہے جسے ہم گیت ،غزل اور نظم کے حوالوں سے یاد کرتے ہیں۔ یہ حوالے کبھی ہمارے دلوں پہ یوں دستک دیتے ہیں کہ جیسے ان کی برسوں کی شناسائی ہو اور کبھی یوں روح کی پنہائیوں میں پیوست ہو ئے جاتے ہیں کہ یہی ان کا مدفن ہو۔

شعور اور شاعری ایک دوسرے کا پرتو ہیں۔ حرفوں کو خوش سلیقگی سے پرونے اور قرینے سے برتنے والوں میں ایک نام شاہدہ تبسم کا بھی ہے۔ وہ لفظوں کی تقدیس اور ان کی حرمت سے جس قدر آشنا ہیں اس کا اعتراف ہر وہ شخص کرے گا جس نے شاہدہ کو کبھی سنا یا پڑھا ہو۔

خوش آواز، خوش لباس، خوش جمال اور خوش مزاج شاہدہ کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ باطنی اور ظاہری ہر اعتبار سے پیکر حسن ہیں۔

شاہدہ سے ہونے والی گفتگو کا احوال نذر قارئین ہے۔

 سوال۔ شعر و سخن سے کب آشنائی ہوئی؟

جواب جب سے چیزوں کو برتنے، پرکھنے اور سمجھنے کا احساس پیدا ہوا اسی وقت سے شعر کہنا شروع کیے۔ شعور کی پہلی آہٹ پر اندر کے طوفان کو ایک ردھم ملا۔ اس ہم آہنگی نے شعر کا روپ دھارا۔ یوں مسافتوں کا جنوں ہوا۔

 سوال۔ پہلا شعر کون سا تھا؟

جواب:۔

کیوں لباس شعور پہنا تھا

آئیں گے ہر طرف سے اب پتھر

 سوال۔ کیا شاعری کوئی الہامی فن ہے؟

جواب:۔ دراصل تمام فنون لطیفہ کا منبع ایک ہی ہے اور وہ ہے وجدان۔ وجدان تخلیقی اپج کا جوہر ہے، اسی کے تحت ہر تخلیق کا ظہور ہوتا ہے جسے الہام بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسی داخلی اضطرابی کیفیت ہوتی ہے کہ ہر تخلیق کار اس کی گرفت میں آنے پر مجبور ہے اور اس کے لیے تخلیقی صلاحیت کے اظہار کو روکنا ناممکن ہے۔ کسی تخلیق کو جب شخصیت کا اظہار یا ذات کی شناخت کی کوشش کہا جاتا ہے تو وہ دراصل تخلیق کار کی خودی کا ایک الہامی پرتو ہوتا ہے۔ تخلیق کار کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ تخلیقی لمحہ یا جذبہ اس پر کہاں سے وارد ہوتا ہے۔ اس کی ماہیت اور اس کا اظہار مشکل ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے خواب دیکھنا۔ خواب دیکھنا ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کب، کس وقت اور کون سی نیند میں ہم پر خواب وارد ہوں گے۔ تخلیق بھی اپنی مرضی سے وارد اور ظاہر ہوتی ہے۔ تخلیقی جوہر کہہ لیجیے یا الہامی جوہر، یہ تخلیق میں بڑے پراسرار طور پر موجود ہوتا ہے۔ اس کی خوشبو براہ راست دوسرے ذہن کو اسے تخلیق قرار دینے پر مجبور کرتی ہے۔ مثلاً ادبی کاوش کے سلسلے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہر ادبی فن پارہ تحریری شکل رکھتا ہے لیکن ہر تحریر فن پارہ یا تخلیق نہیں ہو سکتی۔

سوال۔ بنیادی طور پر آپ رومانوی شاعری ہیں۔ رومانٹسزم اور رئیلزم کے فرق قالی بحث کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں۔

جواب۔ ادب یا کوئی بھی فن زندگی کی محض عکاسی نہیں ہے۔ ادبی فن پارہ انسانی ذہن کو اس کے علاوہ بھی کوئی ایسی مسرت یا تسکین فراہم کرتا ہے جو نہ صرف ایک اچھے ذوق کی آبیاری کرتا ہے، بلکہ اعلیٰ ذوق بنانے میں مدد دیتا ہے اور زندگی کی نزاکتیں، پراسراریت اور انسانی ذہن اور نفسیات کو سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ یہ کام محض Realism سرانجام نہیں دے سکتا۔

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

 سوال۔ کیا اعلیٰ شاعری (ادب) کی تخلیق کے لیے اعلیٰ کردار لازم ہے؟

جواب۔ میں سمجھتی ہوں کہ جینوئن آرٹسٹ (اس میں فائن آرٹس کا ہر شعبہ شامل ہے) ہمیشہ اعلیٰ انسانی اقدار کا حامل اور علمبردار ہوتا ہے اور وہ لوگ جن میں انسانی خصوصیات کے مثبت صفات نہیں وہ بنیادی طور پر فن کار ہی نہیں ہاں انھوں نے خود پر ادیب، شاعر، مصور ہونے کا خول ضرور چڑھا رکھا ہے۔ یہ لوگ سچے آرٹس سے خوف زدہ اور اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں، چنانچہ یہ اپنے کھوکھلے پن کے خلا کو حسد، بغض، دروغ گوئی اور الزام تراشی جیسی سفلہ صفات سے پر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ان ہی حرکتوں سے ان کا کھوکھلا پن اور احساس کمتری بے نقاب ہوتا ہے۔ ان کی ایک اور خاص پہچان یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتماد ہوتے ہیں۔ (ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی احساس کمتری ہی کی ایک شکل ہے) اور اپنے بارے میں انتہائی خوش فہم اور دوسروں سے بے انتہا بدگمان رہتے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن میں فنون لطیفہ کا اعلیٰ جوہر، وجدانی باریکیاں اور گہرائی نہیں ہوتی۔ ان کا فن صرف مشق کا اظہار ہوتا ہے اورسطحی۔

 سوال۔ آپ اپنی ابتدائی زندگی اور تعلیمی کیریئر کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب۔ بچپن ہی سے میرا ذہن اپنے ہم عمروں سے خاص میچور اور سنجیدہ رہا ہے۔ اسکول کی ابتدائی جماعتیں میں نے نہیں پڑھیں۔ آٹھویں کلاس سے مجھے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ اس وقت میری عمر کے بچے،میرے کزنز اور محلے کے بچے تیسری اور چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے۔ گھر کا ماحول مذہبی بھی تھا اور ادبی بھی۔ میری سب سے بڑی خوش نصیبی یہ رہی کہ میں نے دوسرے بچوں کی طرح کلام پاک ناظرہ نہیں پڑھا بلکہ شروع سے ترجمے کے ساتھ پڑھا۔ اس نے میرے ذہن میں اعلیٰ انسانی اور اخلاقی اقدار راسخ کیں اور زندگی اور کردار کی ایک راہ متعین کی۔ والدین کی اچھی تربیت نے مزاج میں سب سے ضروری اخلاقی قدر ایمان داری پیدا کی۔ لیکن شعور کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ چاروں طرف ایسی بے ایمانی کا راج ہے جو اپنے شیطان لیے انسان کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ جنوں اور پریوں کی کہانیوں کے ساتھ نقوش، سویرا اور سیپ جیسے ادبی پرچے بھی پڑھنے شروع کردیے۔ گھر میں والد صاحب اور بڑے بھائی کی وجہ سے بہت سی کتابیں آتی رہتی تھیں۔ ان سے بھی استفادہ کرنے کی کوشش کی اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی شریک رہی۔ فینسی ڈریس شو، اسٹیج ڈرامے، قومی نغموں کے مقابلے، شاعری، افسانہ، مضامین، ہر صنف میں ہر پروگرام میں ہمیشہ پہلا یا دوسرا انعام ملتا رہا۔ حتیٰ کہ کالج میں میلاد میں نعت پڑھنے پر بھی پرنسپل صاحب اور مہمان خصوصی نے ذاتی طور پر انعامات سے نوازا۔ میں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو ادب اور لسانیات میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فلسفہ، تاریخ اور نفسیات بھی میرے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ مطالعے سے دلچسپی ہے۔ دراصل علم اور تعلیم سے انسان کو مرتے دم تک فراغت نہیں ملنی چاہیے۔

 سوال۔ دوران گفتگو آپ نے ذکر کیا کہ آپ نے اسکول اور کالج سطح پر نعت خوانی کے مقابلوں میں انعامات حاصل کیے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کا ترنم خوب صورت ہے پھر مشاعروں میں آپ ترنم سے کلام کیوں نہیں سناتیں؟

جواب۔ ممکن ہے کبھی مشاعرے میں ترنم سے پڑھ لوں۔ میں سمجھتی ہوں خوش گلوئی بھی قدرت کا ایک تحفہ ہے۔ ہمارے چند خوش گلو شعراءاور شاعرات مشاعروں میں ترنم سے پڑھتے ہی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

 سوال۔ پرائیویٹ پروڈکشن کے حوالے سے آپ نے جو منفرد کام کیے ہیں۔ ان کی تفصیل بتائیں؟

جواب۔ پرائیویٹ پروڈکشن کے حوالے سے یہ سمجھ لیجیے کہ اب تک صرف قومی یکجہتی پر نغمے لکھے جاتے رہے تھے۔ میں نے پہلی بار پبلک سروس اور Awareness کے سلسلے میں خاصا کام کیا۔

ایسے موضوعات پر گیت اور نغمے لکھے اور پروڈیوس کیے کہ ان موضوعات پر نغمہ لکھنا ایک مضحکہ خیز بات سمجھی جاتی تھی۔ مثلاً ماحولیات (Environment) کے حوالے سے آلودگی (Polution) پر ایک نغمہ بنایا جو گلوکارہ مہناز نے گایا تھا یہ گویا انسانوں سے زمین کی فریاد تھی۔ اس کا مکھڑا تھا ”مجھے زندہ رہنے دو، مجھے ہنستا رہنے دو“ یہ بے انتہا مقبول ہوا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ حتیٰ کہ انگریزی ڈبنگ کے ساتھ اسے منیلا میں منعقدہ ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں بھیجا گیا۔ تین روز تک یہ کانفرنس جاری رہی اور تینوں دن مسلسل یہ نغمہ وہاں بڑی اسکرین پر دکھایا جاتا رہا۔ ماحولیات کے حوالے سے یہ دنیا کا پہلا آڈیو وژیول نغمہ تھا۔ اس کانفرنس میں اس نغمے کو ایک خصوصی ایوارڈ بھی دیا گیا۔ پاکستان میں بھی اسے کئی ایوارڈ ملے۔ آج بھی متعدد اسکولز اور کالجوں میں ماحولیات کے حوالے سے اس پر ٹیبلو پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد نارکوٹکس، چائلڈ لیبر اور دہشت گردی پر نغمے بنائے۔ یہ اولین چراغ تھے۔ ہمارے سلگتے ہوئے موضوعات پر۔ اس کے بعد اب تک ان موضوعات پر چراغ جلائے جاتے رہے۔ اس کے علاوہ میں نے T.V کی صبح کی نشریات میں کئی ماہ تک باقاعدہ ایک ڈاکیومنٹری پروگرام ”نایاب“ کے نام سے کیا۔ جس کا اسکرپٹ خود لکھا۔ اس کی کمپیئرنگ کی اور کنٹری بھی خود پڑھی۔ پاکستان میں یہ پہلا پروگرام تھا جس کی اسکرپٹ رائٹنگ کمپیئرنگ اور کمنٹری تینوں شعبوں میں بیک وقت ایک ہی آرٹسٹ نے کام کیا۔

 سوال۔ کیا آپ کی تخلیقات کے پس منظر میں شہرت کی جستجو ہے؟

جواب۔ نفسیاتی سطح پر شہرت کی خواہش گمنامی اور بے توجہی سے دوچار کردیے جانے کے خوف کا دوسرا روپ ہے۔ نارمل حد تک یہ ایک فطری خواہش ہے۔ دراصل یہ خواہش، خواہش بقاءکی ایک شکل ہے جو زندگی کے جدلیاتی حقائق کی نشاندہی کرتی ہے۔ عمومی طور پر حصول شہرت لکھنے یا تخلیق کے دوسرے مقاصد سے متصل ضرور ہے، مشروط نہیں۔ بعض اوقات شہرت کی صورت حال بڑی عجیب ہوتی ہے۔ مغل ملکہ تہذیب و ثقافت اور مرقع حسن و نفاست نور جہاں کے ویران مزار پر پھول لے جانا منع ہے۔ ایک مرتبہ ایک چھوٹی سے بچی مزار کی عمارت کے احاطے میں سے ایک پھول توڑ کر اندر لے گئی۔ پھر بڑی معصومیت اور پیار سے اسے لحد پر رکھ دیا۔ چند ہی لمحوں بعد ایک محافظ دوڑتا ہوا اندر آیا۔ وہ مکمل وردی میں تھا۔ چونکہ اس نے جوتے پہن رکھے تھے اور لحد سے جلد از جلد اس پھول کا بوجھ اٹھانا مقصود تھا، چنانچہ باہر کھڑے کھڑے اس نے اپنی بیلٹ اتار کر دور سے اس پھول کو اپنی جانب سرکایا اور لپک کر پھول اٹھالیا۔ اس نے پھول باہر پھینک کر لوگوں کو ڈانٹا ڈپٹا اور رخصت ہو گیا۔ گلاب کا عطر کشید کرنے کا طریقہ ایجاد کرنے والی ہستی کے پاس اب پھول کی ایک پتی کا تحفہ اور خوشبو کا ایک جھونکا لے جانا بھی جرم ہے۔ شہرت کا معاملہ مجھے کچھ اسی سے ملتا جلتا محسوس ہوتا ہے۔ تخلق کار اپنے اندر ایک نامعلوم اکساہٹ کو محسوس کرکے اپنے خیالات اور ذہنی عرق ریزی سے ایک ایسا عطر کشید کرتا ہے جس کی خوشبو خود اس کے مشام جاں کو تو معطر کرتی ہے، دوسروں تک پہنچ کر ان کے بھی ذوق کی تسکین کا سامان کرتی ہے۔ بعض اوقات یہ خوشبو تخلیق کار کی پہچان سے معمور ہو کر پلٹ کر اسی تک پہنچ جاتی ہے اور اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ دنیا اسے جانتی ہے۔ کبھی وقت کے فیصلے کے انتظار میں فضا میں کہیں چھپ کر تھم جاتی ہے۔ کبھی بے صلہ رہ کر برمزار ماغریباں نے چراغ نے گلے کی تفسیر بن جاتی ہے۔ کبھی چہار سو اس طرح بکھرتی ہے کہ نازک مزاجوں کے لیے بارگراں ہو جاتی ہے اور اس جرم پر لکھنے والے کو سزا دینے کے لیے قانون کو اپنی بیلٹ اتارنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات حالات اس سے بھی زیادہ بدتر ہو سکتے ہیں۔

 سوال۔ کیا شاعرات میں نمبر ون بننے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے؟

جواب۔ چند جعلی شاعرات نے یہ کام شروع تو کر رکھا ہے اور اس حد تک اس میں آگے چلی گئی ہیں کہ انھیں بعض شعراءازراہ شفقت لکھ کر دے رہے ہیں یا وہ ان کی معاشی مجبوری خرید رہی ہیں۔ لیکن ایسا کلام اپنی لفظیات اور اپنے رنگ کی وجہ سے فوراً ان کا پول کھول دیتا ہے۔ مگر یہ بڑی فضول سی بات ہے۔ فنون لطیفہ کی دنیا بڑی عجیب دنیا ہے۔ یہ شہرت کا ایوارڈ فوراً ہاتھ میں تھما تو سکتی ہے لیکن ادب میں مقام یا اہمیت کا سوال جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے پیمانے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہ شہرت مٹی ہو جاتی ہے۔

 سوال۔ موجودہ دور کی خواتین شاعرات میں سے پروین شاکر ایک سمبل بن کر ابھریں۔ آپ ان کی شاعری کو کس لحاظ سے اہمیت دیتی ہیں۔ نیز آج کل ہر دوسری شاعرہ ثانی پروین شاکر بننے پر تلی ہوئی ہے یا قرار دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب۔ پروین شاکر کی خوبصورت اور ترو تازہ شاعری کے بارے میں انھی کا مصرعہ کہا جاسکتا ہے کہ:

خود آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

ان کی بھرپور اور توانا آواز گونجی تو جہاں ان کے شعر سے پیار کرنے والے اور ان کی عزت کرنے والے ظاہر ہوئے وہیں یہ آواز بعض طبع نازک پر گراں بھی گزری جن کے خیال میں ان کی اجازت اور آشیرباد کے بغیر ادبی دنیا میں کسی کا داخلہ مشکل ہے۔ چونکہ ان کا کہا ہوا سنا جاتا ہے اس لیے ہر طرح سے اس نئی کونپل کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے کلام کو نظرانداز یا نقائص تلاش کرکے (اس میں ایک اور کردار ادبی گروہ بندی بھی ادا کرتی ہے) کمزور ثابت کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ نیا شاعر، شاعرہ ہو تو پھر یہ زہر اس کے کردار سے متعلق افواہوں کی صورت میں دوآتشہ کیا جاتا ہے۔ اس کی نفسیاتی وجوہ ذاتی محرومیاں بھی ہوتی ہیں اور یہ کہ چونکہ ہمیں لفٹ کرائے بغیر شعر و ادب کی دنیا میں شہرت و کامیابی حاصل کرتی چلی جاتی ہے لہٰذا ہماری زبان کو کون روک سکتا ہے:

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا

منافقوں کا یہ حال ہے کہ کلام اور کردار میں نقائص تلاش کرنے والے پھر ان جواں مرگ ہستیوں کے سوگ کی محفلوں میں اپنے خیالات میں ان کی شعری عظمت کا اعتراف اور ان کی شائستگی کو تسلیم کرتے نظر آتے ہیں۔ دراصل خواتین کے لیے شہرت کی دنیا میں قدم رکھنا بڑا مشکل مرحلہ ہے۔ ہمارے یہاں صدیوں سے جبر اور گھٹن میں پستی عورت کو زبان کھولتے دیکھنے کے لیے ابھی تک مرد اذہان کیا خود صنف نازک بھی تیار نہیں بلکہ بعض دفعہ تو عورت کے جائز حقوق کے حصول کی کوشش میں عورت خود مخالف پارٹی کی صورت میں نظر آتی ہے۔ اور بقول پروین شاکر ”بعض خواتین (خصوصاً اہل قلم) اپنا رول اس طرح ادا کرتی ہیں کہ مرد بھی شرماجائیں۔“ اس ضمن میں مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ پروین شاکر مرحومہ کے انتقال کی خبر جس وقت آئی ہے۔ پہلے تو اس خبر پہ یقین ہی نہ آیا اور جب یقین آیا تو ویسا ہی دکھ اور رنج محسوس ہوا جیسے اپنے پیاروں کے بچھڑنے پر ہوتا ہے شدید دل گرفتگی کے عالم میں جی چاہا کہ کسی سے یہ دکھ بٹایا جائے چنانچہ میں نے ایک دوست شاعرہ کو فون کیا۔ چھوٹتے ہی لہک کر بولیں ”دیکھا ایک منٹ میں خبر آجاتی ہے انسان کو اتنا مغرور نہیں ہونا چاہیے۔“ حالانکہ ان کا کبھی پروین شاکر سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔ البتہ ان مشاعروں میں ضرور کلام پڑھا ہے جن میں پروین موجود تھیں۔ لیکن اتنی سخت بات کہنا یہ بات کہنے میں انھیں اللہ سے ڈر نہیں لگا! ایسی نماز روزہ اور حج کس کام کا۔ عبادت تو انسان کی اپنی ذات کی اصلاح کے لیے فرض کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب انسان، انسانی اقدار نہ خود پر فرض سمجھتا ہے اور نہ دوسرے کا حق تو پھر وہ خود کو سب سے برتر کیوں سمجھنا چاہتا ہے ہم اتنے سفاک اور بے رحم کیوں ہیں۔ ہم کیوں چاہتے ہیں کہ ہمارے سوا خدا کی زمین پر کوئی دوسرا سانس تک نہ لے چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں اور عزتوں سے نوازے ہم دوسروں کو ان نعمتوں سے متمتع ہوتے کیوں نہیں دیکھ سکتے جنھیں اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں ادیب شاعر تو معاشرے کا سب سے حساس طبقہ ہے۔ ہم میں دوسروں کو برداشت کرنے کی ہمت اور جرات کیوں نہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ جس معاشرے میں مرد کو ہر قسم کی آزادی حاصل ہے وہاں عورت کو اس احترام سے بھی محروم رکھا جائے جو اس کی نسوانیت کا حق ہے بلکہ اسے انسان ہونے کی سطح سے بھی گرا ہوا سمجھا جائے ہمارے معاشرے میں عورت کی جرات اظہار جرم اور اس کی سچائی مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ چنانچہ ادب کے حوالے سے خواتین بڑی مشکل سے اس معاشرے میں اپنی جگہ بنا پاتی ہیں۔

پروین شاکر کا جو شعری پوٹینشل تھا ویسا پوٹینشل ابھی تک آج کی شاعرات میں ہمارے سامنے نہیں آیا۔ ایک عجیب صورت حال یہ ہے کہ کچھ شعراءحضرات زبردستی شاعرات کو پروین شاکر بنانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ ان کے حال پر رحم کرکے ان کو اپنی شاعری پر چھوڑ دیں تو شاید وہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ ویسے ہی جیسے پروین شاکر کی شہرت اور کارکردگی کے سامنے کوئی رول ماڈل نہیں تھا۔

 سوال۔ آپ بہت خوبصورت نثر بھی لکھتی ہیں۔ پھر آپ اس طرف کیوں نہیں آئیں؟

جواب۔ ہاں نثر کی طرف بھی مجھے توجہ دینی چاہیے کیونکہ شاعری، افسانہ یا مضامین میں نے تینوں اصناف تقریباً ایک ساتھ شروع کیں۔ لیکن اس کے بعد نثر کی طرف توجہ رہی نہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس طرف بھی سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔

(یہ انٹرویوماہنامہ "ٹیلنٹ" کے شمارہ جنوری 2001 میں شایع ہوا)

کوئی تبصرے نہیں