آزاد نظم
ثمین نقوی
قفس کو چھوڑ دینے سے
رہائی موڑ دینے سے
محبت کی کہانی کو نیا اک جوڑ دینے سے
قضائیں ٹل نہیں جاتیں
ہوائیں بل نہیں کھاتیں
اگر جو راز رکھنے سے
محبت منجمد ہوتی
تو نہ تاراج ہوتے ہم
نہ سیاہی دل میں گھر کرتی
نہ ہی حشر بپا ہوتا
کوئی طوفان کی صورت
دھرے ارماں رہتے ہیں
اس پیمان کی صورت
جسے شاید نبھانا ہو
کوئی پر بھول جاتا ہو
تو اس کو یاد دلانے سے
محبت پھر نہیں اگتی
وہیں پہ سوکھ جاتی ہے
وہ ڈالی ٹوٹ جاتی ہے
محبت کی کتابوں میں
کہیں رونا نہیں لکھا
مگر سب کو ہنسانے سے
بہت خود مسکرانے سے
محبت جی نہیں پاتی
وہیں پہ روٹھ جاتی ہے
محبت ٹوٹ جاتی ہے
کوئی تبصرے نہیں