شعرا کرام کاامام عالی مقام حضرت امامِ حسینؓ کو نذرانہ عقیدت

Muharram, Sadam Sagar, Talent92

تحریر:صدام ساگر

محرم الحرام کا مہینہ رمضان المبارک کی طرح بہت اہمیت کا حامل ہے۔عاشورہ محرم میں کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے جانثاروں کی شہادت کو تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔واقعہ کربلا صبرواستقامت ،بھائی چارہ،دین سے محبت اور نبی کریم ﷺ سے وفا کا ایسا معرکہ ہے جس کی مثال دنیا کے کسی بھی معرکہ میں نہیں ملتی۔کئی صدیاں گزر نے کے بعد آج بھی کربلا کا قصہ اور مولا حسینؓ کے نانا اورہم سب کے نبی حضرت محمد ﷺ کا دین زندہ ہے اور رہے گا۔ مولانا محمد علی جوہرکے اس شعر کی مانند:

قتل حسین ؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

محرم الحرام کے اس مہینے میں یوم عاشورہ کے موقعہ پر محفل مسالمہ کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔جہاں شعرا کرام امام علی مقام کو خراج عقیدت پیش کرتے چلے آ رہے ہیں۔ایک دور تھا جب ہمارے سنیئر اُستاد شعراءکرام منقبت، سلام لکھتے تو بڑی محبت اور عقیدت سے بارگاہِ امام عالی مقام میں ہدیہ عقیدت پیش کرتے ۔شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کا ایک خیال!

غریب وسادہ ورنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ

اور جوش ملیح آبادی کہتے ہیں:

انساں کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ

شہید کربلا امام عالی مقام کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کیلئے مرزا غالب،مرزا دبیر،میر انیس، ابوالاثر حفیظ جالندھری، حضرت احسان دانش، اکبر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب، یزدانی جالندھری، طفیل ہوشیار پوری،واصف علی واصف، مظفر وارثی، ناصر کاظمی، منیر نیازی،صوفی غلام مصطفی تبسم، علامہ امین خیال، ذوقی مظفر نگری، پُرنم آلہ آبادی،عارف عبدالمتین ،افتخار عارف،احمد عقیل روبی،ابصار عبدالعلی،ڈاکٹر اجمل نیازی،اکرم رضا،ناصر زیدی،خالد احمد،انور سدید ودیگر بہت سے ہمارے اُستاد شعراءکرام نے قلم آزمائی کی۔بقول :محسن نقوی

نبی کے دین کو تمنا تھی سر فرازی کی
حسین سر نہ کٹاتے تو اور کیا کرتے

محرم الحرام کے مہینے میں خواتین بھی محفل مسالمہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں  اور ہر چشم پُرنم ہر زباں پہ ذکر حسینؓ اور ہر کوئی مولا علیؓ کے لال کا شیدائی دکھائی دیتا ہے۔خوشبو کی شاعرہ اور اردو ادب کی پری پروین شاکر کا ایک شعر:

آنکھوں میں تیر تھے لگے بازو کٹے ہوئے
بازو قلم بنا کے وہ جانِ وفا لکھے

محرم الحرام میں ذکر حسینؓ کرنا بھی کسی عبادت سے کم نہیں کیونکہ آقا نامدار حضرت محمدﷺ کے نواسہ جگر گوشہ بتول حضرت فاطمتہ زہرہ کا لال جس نے کربلا کی خاک میں ننھے منے علی اکبرؓ ،علی اصغرؓ جیسے پھولوں کو سپردِ خدا کر دیا۔ خدا کی قسم ایسی صبر واستقامت کی مثال دنیا میں کہیں بھی نہیں ملتی۔ تاریخ اس واقعہ کربلا جیسی کوئی مثال اعزاز احمد آذر کے اس شعر مصداق ڈھونڈ کر لائے تو سہی۔

تاریخ مثال ایسی کوئی ڈھونڈ کے لائے
سرتن سے جدا بھی ہو مگر موت نہ آئے

امام عالی مقام کی بارگاہ میں اشک بار ہوتے ہوئے یہ وہ اُستاد شعراءکرام ہیں جو دنیا فانی سے کوچ کرچکے مگر عقیدت اور خلوص سے بھرپور اُن کا کلام ہر زباں پر ہے۔ایسے عظیم قلمکاروں کے جانے کے بعد ہمارے زندگان میں ایسے سنیئرز شعراءکرام موجود ہیں جنہیں ہم اُستاد شعرا کرام کا درجہ دیتے ہیں۔ایسے رفتگان شعرا کے بعد بھی ہمارے زندگان شعرا کرام امام عالی مقام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہدیہ سلام، منقبت کے اشعار کہتے چلے آ رہے ہیں۔ ایسے زندگان شعر سحر انصاری،عطاءالحق قاسمی، حسن عسکری خاظمی، سرمد صہبائی، ظفر اقبال،اسلم گورداسپوری، فاتح واسطی،خورشید رضوی،جلیل عالی،خالد شریف، اسلم کولسری،اعتبار ساجد، محبوب ظفر،شاعر علی شاعر، جواز جعفری، امجد حمید محسن،ڈاکٹر سعید اقبال سعدی،سعداللہ شا، سرور ارمان،اسحاق وردگ،ادریس ناز، خواجہ آفتاب عالم،عمران علی حیدر ودیگر سنیئر ز شعرا کرام شامل ہیں۔جوانمرگ شاعر وسیم عالم کا ایک شعر یاد آیا کہ:

وہ بہتر ستارے چمکتے رہے
جو بجھانے چلا وہ بجھا دشت میں

محرم الحرام میں جہاں ہمارے یہ سنیئرز شعرا کرام نذرانہ عقیدت پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں وہی ہماری سنیئرز خواتین شعراءبھی فاطمہ کے لال کو خراج تحسین پیش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ خواتین شعرا کرام میں محترمہ بشری رحمن مرحومہ، رُخسانہ نورمرحومہ، نوشی گیلانی، ڈاکٹر صغرا صدف، صوفیہ بیدار،بشری اعجاز،عنبر حسیب عنبر، پروین سجل، عرفانہ امر، نیلما ناہید درانی، ڈاکٹر صوفیہ تبسم،حجاب عباسی، رخشندہ نوید، عصمت نذیر، فرحانہ عنبر ودیگر خواتین شعرا شامل ہیں۔

ذکر کربلا اور حضرت امام عالی مقام جنہوں نے تین دن پیاسے رہتے ہوئے بھی نماز عصر ہوتے ہوئے سجدے میں سر دے دیا ایسے مولا حسینؓ پہ لاکھوں سلام کہ جس نے یزیدیت کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بہتر تن بہاتے ہوئے نہ جھک سکا اوراپنے نانا کے دین کو بچا لیا مولا حسینؓ نے تلوار کی نوک پہ قرآن سنا دیا یہ دنیا بتائے کہ کہاں اور ہوگا اس مولا حسینؓ جیسا کوئی حسینؓ۔مجھ خاکسار کے دو اشعار:

فاطمہؓ کا لال جیسے سر کٹانے چل پڑا
دین کی اس کو بقا لکھتا رہوں گا حشر تک
حق نبی ہے حق علیؒ ہے اور ساگر حق حسینؓ
مَیں اسے حق کی رضا لکھتا رہوں گا حشر تک

ایسے سنیئرز شعرا کے علاوہ ذکر امام عالی مقام میں سرشار نوجوان شعرا کرام بھی شامل ہیں جو اپنی محبت ،وفا اور عشق حسینؓ میں منقبت، سلام کہتے دکھائی دیتے ہیں۔محرم الحرام کی مناسبت سے یہ کالم امام عالی مقام کو خراج تحسین پیش کرنے والے شعرا کرام ودیگر قلم کاروں کی قلمی محنتوں اور دلی محبتوں کا ثبوت ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہاللہ تعالیٰ ہمیں خود میں مولا حسینؓ کی طرح صبر واسقامت، آپس میں بھائی چارہ، اور دین اسلام سے محبت اوراسکی حفاظت کرنے ،غم حسینؓ میں اشک بار ہونے کی توفیق فرمائیں۔ آخر میں عہدِ حاضر کے نامور شاعر ، پہلوانِ سخن حضرتِ جان کاشمیری کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔

چاروں طرف فضاؤں میں سنتے ہیں بین سے
ماتم کناں ہیں دیکھ کے ہستی کے نین سے
سب اہلِ عرش ہو گئے محروم چین سے
کربل کا آج غسل ہے خونِ حسینؓ سے

٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں