ڈاکٹر مہناز انجم کی شعری تصنیف ”ریشمی خوابوں کی نیلی راکھ“ کی تقریب تقسیم و پذیرائی

Mehnaz Anjum, Pakistan Academy of Letters

اسلام آباد (رپورٹ: راجہ شاہد رشید) ادبی و ثقافتی تنظیم” زاویہ“ اکادمی ادبیات پاکستان اور دبستانِ پوٹھوہار، اسلام آباد کے خصوصی تعاون سے معروف شاعرہ، محقق اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر مہناز انجم کے اولین مجموعہ ہائے نظم کی تقریبِ تقسیم و پذیرائی کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کی صدارت ملک کے معروف نظم گو شاعر، ادیب اور نقاد جناب علی محمد فرشی نے کی جبکہ ڈاکٹر رفیق سندیلوی اور ڈاکٹر وحید احمد مہمانِ خصوصی تھے۔ جناب محمد حمید شاہد، ڈاکٹر روش ندیم اور جناب منیر فیاض نے اظہارِ خیال کیا۔

 صاحبِ صدارت علی محمد فرشی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہناز انجم کی شاعری تانیثی، وجودی اور محبت کے تناظر میں ایک مثلث بناتی ہے۔ ان کے یہاں استعارے، تمثالیں اور اسلوب کی تازگی ہے۔ ان کی فکری پرواز اور تخیل کی کروٹیں ایک نظم کو فن بارہ بنا دیتی ہیں۔ انھوں نے ”ریشمی خوابوں کی نیلی راکھ“ کو ایک مکمل فن پارہ قرار دیا اور سنِ یاس جیسی نظم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پوری اردو نظم میں ایسا فن پارہ کسی نے تخلیق نہیں کیا، یہ مہناز انجم کا ہی اختصاص ہے۔

ڈاکٹر رفیق سندیلوی نے کہا کہ مہناز انجم نے بڑی تیز رفتاری سے موثر نظم میں اپنی جگہ بنائی ہے اور حقیقت میں یہ جگہ "مقام" کا درجہ رکھتی ہے، جسے ان کے وجود کی ہفت رنگ تجلی نے منور کر رکھا ہے۔ استعارہ، متھ اور علامت کی حسب مقدار یکجائی نظموں کو ایک نئی اور زرخیز زمین عطا کرتی ہے۔

 ڈاکٹر وحید احمد کا کہنا تھا کہ مہناز انجم کے ہاں نسائیت کی بات جب بھی ہوتی ہے وہ ایک نعرہ نہیں بنتی بلکہ وہ ایک تخلیقی فن پارہ بن جاتی ہے۔ انھوں نے کہا مہناز انجم نے روحِ عصر کو لکھا ہے اور ان کا زمانہ ان کی نظموں میں دیکھا جا سکتا ہے، نیز جدید، تازہ اور توانا نظمیں ان کی کتاب میں موجود ہیں۔

 جناب محمد حمید شاہد نے کہا کہ اردو نظم کے جید شعرا اور ناقدین مہناز انجم کی کتاب کے استقبال کے لیے یہاں موجود ہیں، یہی بات ان کی کتاب کے ارفع ہونے کی دلیل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی نظموں کے پس منظر میں مہناز انجم کا علم، تجربہ، مشاہدہ اور نظم کے موضوع پر تحقیق کار فرما ہے۔ ان کی زبان صاف و شفاف ہے، اپنا لسانی ڈھانچہ ہے اور ان کا ایک الگ فکری جہان ہے۔

 ڈاکٹر روش ندیم کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مہناز انجم کی نظم جدید اردو نظم کی روایت کو بڑھاتے ہوئے نظر آتی ہے۔ ان کی نظم میں ممتا کی ایک خاص روح دکھائی دیتی ہے۔ انھیں اپنی وجودی حیثیت کا بخوبی ادراک ہے۔ انھوں نے نسائی وجود، مسائل اور استحصال کو بڑی مہارت سے پیش کیا ہے۔

 جناب منیر فیاض نے اپنے خطاب میں اردو نظم کے سرمائے میں اس کتاب کو ایک اہم اضافہ کہا۔ ان کے مطابق ڈاکٹر مہناز انجم کی نظم کا تاثر بہت بھرپور ہے۔ ان میں نئے امیجز بنانے، نئے میٹر پر تخلیق کرنے اور نئے موضوعات لانے کا حوصلہ بھی ہے۔ ان کا اسلوب بالکل منفرد ہے، ساری کی ساری نظمِ جدید ہے۔ بنیادی طور پر یہ اسلوب اور کرافٹ کی نظم ہے، امیجز شاندار ہیں اور علامت کا استعمال بھی مہارت سے کیا گیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں