جب جاگو تبھی سویرا
مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہمیں زندگی فقط ایک بار ملنی ہے اور جیسے ہی دنیا میں ہمارا قیام اپنے اختتام کو پہنچے گا، یہاں سے ہماری واپسی یقینی ہے۔ اس کے بعد سب لوگ اپنے اچھے اور برے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں چلے جائیں گے مگر کسی بھی صورت میں دنیا میں دوبارہ آنا ناممکن ہے، لہٰذا خالقِ حقیقی کی جانب سے جس شے کے ملنے کا وعدہ محض ایک بار کیا گیا ہے اور جو ہر معنی میں بے مثال ہے، اُس کی ناقدری کی جسارت کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انسان کے لیے زندگی اُس کے پروردگار کی جانب سے نعمت ہے، جو اُس کے جنت میں جانے کی راہداری ثابت ہوسکتی ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو احسن طریقے سے گزارے اور جب اُس کا وقت رخصت آئے تو وہ اپنے پیچھے مثبت چھاپ چھوڑ کر جائے۔
ابنِ آدم فرشتوں کی طرح غلطیوں
سے مبرا ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ تو چکنی مٹی سے خلق کیا گیا چکنے گھڑے کی مانند ادھر
سے اُدھر ڈولتا ہوا خطا کا پتلا ہے، جس کا عموماً ایک پاؤں نیکی کے دریا میں ڈوبا ہوتا
ہے تو دوسرا گناہ کی دلدل میں دھنسنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ انسان کو اپنے عقلِ کل اور خطا
سے ماورا ہونے کا گمان ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے خاص
بندے جنھیں ہم انبیاءو پیغمبر کہتے ہیں جب وہ خود کو غلطی کرنے سے روک نہیں پائے تو
ایک عام انسان کا نظم و نسق کیسے باکمال ہوسکتا ہے؟ غلطی، خطا، انکار اور گناہ کی گنجائش
بنی نوع انسان کے پاس موجود ہے ساتھ معافی کا طریقہ بھی خالق نے اپنی تخلیق کو سکھلایا
ہے۔ جو راہ انسان کو دوزخ کی جانب لے کر جاتی ہے وہاں سے کسی بھی لمحے توبہ کرکے پلٹ
آنا اُسے بہشت کی نوید با آسانی سنا سکتا ہے۔
انسان کے وجود میں ہمہ وقت
انگنت خواہشات پلتی ہیں جو مختلف ادوار میں اپنی ہیئت تبدیل کرتی رہتی ہیں، انسانی
تمناؤں کی اس کھیتی کو پانی دعا کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ خداوند کریم کی بارگاہ میں خلوص
دل کے ساتھ التجا کی جاتی ہے اپنی مطلوبہ آرزو کے باخیر و عافیت پایہ تکمیل تک پہنچنے
کی، کبھی وہ ”بڑی ذات“ لفظ بہ لفظ ہماری دعائیں، التجائیں اور آرزوئیں سُن لیتی ہے
اور بعض اوقات انھیں لوٹا دیا جاتا ہے۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب انسان مایوس ہوکر شکر
سے سیدھا شکوے تک پہنچ جاتا ہے جبکہ دراصل یہ امتحان، آزمائش اور آگاہی کا وقت ہوتا
ہے۔ ہر کسی کی درخواست کو ناراضگی میں رد نہیں کیا جاتا بلکہ زیادہ تر افراد کو تابناک
مستقبل سے بچایا جا رہا ہوتا ہے اور کئی لوگوں کی پکار میں رد و بدل کرکے اُس کی قبولیت
کے اسباب پیدا کر دیے جاتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب
سے سوال پر انکار، تاخیر اور جواب میں ترمیم کی وجہ سوالی کو جب تک سمجھ میں آتی وہ
شکوؤں کا ایک انبار لگا چکا ہوتا ہے۔ رب العالمین کبھی بھی اور کہیں بھی کوئی خلاءنہیں
چھوڑتا، وہ اپنے بندوں کے پوچھے ہر سوال کا صحیح وقت آنے پر جواب دیتا ہے۔ اللہ رب
العزت اپنی تمام مخلوقات سے بےحد محبت کرتا ہے اور انسان کو تو ”اُس“ نے اشرف المخلوقات
کا درجہ عطا فرمایا ہے، لہٰذا ”وہ“ اسے عام چیز یا کانٹوں سے لیس راستہ کیسے مہیا کرسکتا
ہے۔ انسان جو کبھی خدا تعالیٰ کے جواب کا بے صبری سے منتظر تھا، جواب پا کر اپنی نظروں
میں گر جاتا ہے۔ خالق اپنی مخلوق کو اُس کی ہر غلطی پر ایک بار تہہ دل سے مانگی معافی
پر بنا ملامت کیے معاف کر دیتا ہے مگر انسان میں خود کو معاف کرنے کا ظرف کم ہی دیکھنے
کو ملتا ہے۔
احساس کی موجودگی ہڈیوں اور
گوشت کے مجموعے کو انسان بناتی ہے، دراصل جہاں احساس ہوتا ہے وہیں صحیح اور غلط، اچھائی
اور برائی، گناہ اور ثواب کی تفریق بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ کسی انسان کا اپنے منفی
عمل کو پہچاننا اُسے ایک باشعور انسان بناتا ہے مگر اُس کے بعد سزا کے طور پر خود کو
معاف ہی نہ کرنا اور اذیت پہنچانا اُس کوکئی اقسام کی ذہنی بیماریوں میں مبتلا کرسکتا
ہے۔ مایوسی گناہ ہے مگر جب تک انسان مایوسیوں میں نہیں گھرے گا اُس کو شکر گزاری کی
مٹھاس محسوس نہیں ہوسکتی، بالکل اسی طرح جب وہ برائی کا حصہ بنے گا تبھی اُسے اچھائی
کی افادیت سمجھ میں آئے گی۔ ٹھوکر لگ کر گرنا اور گرکر اٹھنا بنا گرے چلتے رہنے سے
ہر لحاظ سے بہتر ہے، جس انسان کو دشوار راستوں پر چلنا اور مشکلات سے نمٹناآجائے پھر
وہ زندگی کی ہر بازی جیت کر ہی دم لیتا ہے۔
ہر انسان اپنی زندگی کے حوالے
سے کئی منصوبے تشکیل دیتا ہے، اُن میں سے کچھ مقررہ وقت پر پایہ تکمیل تک پہنچ جاتے
ہیں اور باقی چند کسی نہ کسی وجہ سے پورے ہونے سے رہ جاتے ہیں یا ہم پر عائد دنیاوی
ذمہ داریاں انھیں رونما ہونے سے وقتی طور پر ٹال دیتی ہیں۔ ایسے حالات میں ہمیں ہمت
چھوڑنے کے بجائے اپنی سوچ کو وقت کی قید سے آزاد کرنا زیادہ ضروری ہے اور جیسے ہی موقع
میسر آئے، ساتھ سازگار ماحول دستیاب ہو اپنی خواہشات کو حقیقت کا جامہ پہنا دینا چاہیے۔
ہم وقت کے نہیں بلکہ وقت ہمارا غلام ہے، حصولِ علم، من پسند نوکری، سوچ کی تبدیلی،
نئے کاروبار کا آغاز، شادی اور ہر طرح کا امر انسان زندگی کے کسی بھی موڑ پر ممکن بنا
سکتا ہے۔ زندگی جس کی ہے اُس پر اختیار بھی اُسی کا ہونا چاہیے مگر لازم ہے کہ وہ اختیار
اخلاقی طور پر درست کاموں کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔
جب جاگو تبھی سویرا ہوتا
ہے، سوتے رہے تو معبود حقیقی کی ہر نعمت و رحمت گنواتے ہی رہیں گے، روشن صبح صرف انھی
لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اُس کی آرزو کرتے ہیں۔ کچھ برا سب اچھا ہونے کے لیے ہوتا
ہے لیکن کسی فرد کا اُس برے کو لے کر بیٹھ جانا اور قدرت سے بالکل ناامید ہو جانا فقط
اُسی کو نقصان پہنچاتا ہے، جو نہ مل سکا وہ اُس انسان کے حق میں بہتر نہیں ہوگا اور
جو بہترین ہوگا وہ اُس تک ہر حال میں پہنچ کر رہے گا۔ اگر کسی انسان سے کوئی غلطی سرزد
ہو جائے، احساس جاگتے ہی اُس کی معافی مطلوبہ فرد سے طلب کرنا ناگزیر ہے، اگر وہ معاف
نہ کرے تو اُسے چاہیے رب کی بارگاہ میں اپنی شرمندگی ظاہر کرے کیونکہ وہاں سے کوئی
خالی دامن لوٹایا نہیں جاتا ہے۔ اپنی زندگی کو خوش نما اور بدنما بنانا انسان کے ہاتھ
میں ہے، بروقت صحیح اقدام، خوشحالی دوام۔
کوئی تبصرے نہیں