ایک کسک ، ایک خلش....
ہم روز اداس ہوتے ہیں اور دن گزر جاتا ہے
ایک روز دن اداس ہوگا اور
ہم گزر جائیں گے
لمحوں کے سکے وقت کی تھال پر یوں ہی چھن چھن کر گرتے رہتے ہیں اور لمحوں کو دنوں اور دنوں کو مہینوں اور مہینوں کو سالوں میں تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن کچھ زخم ہمیشہ تازہ رہتے ہیں اور وقت کی گردان بھی ان کو دھندلا نہیں سکتی ، ایسا ہی ایک ناقابلِ یقین واقعہ کچھ دن پہلے ظہور پذیر ہوا۔ اس المناک واقعے کے کچھ پہلو میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، جس سے ایک مسلمان کا یومِ آخرت پر ایمان مزید پختہ اور زندگی کی ناپائیداری پر یقین ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ایک چراغ اور بجھا ، ہر چراغ کو بجھنا ہی ہے کیونکہ موت اٹل ہے اور ہر ذی روح کو موت آنی ہی ہے مگر غم اس وقت شدید ہوجاتا ہے جب بے وقت کوئی چراغ بجھتا ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جس نے میرے دل و دماغ پر بڑے گہرے نقوش مرتب کیے۔ جب رب العزت کسی نووارد جوڑے کو والدین کے درجے پر فائز کرتے ہیں تو نہ صرف یہ اس جوڑے کے لیے بے انتہا خوشی کی بات ہوتی ہے بلکہ ان سے منسلک تمام احباب بشمول ان کے گھر بھر کے افراد بھی اس نعمت پر خدائے بزرگ و برتر کے شکر گزار ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس ننھی سی جان جو ابھی اس دنیا میں آئی ہے اس کے حقوق و فرائض کی ذمہ داری بھی والدین پر عائد ہوجاتی ہے جوکہ سب سے زیادہ انہی پر ہوتی ہے دیگر رشتے جو اس ننھی سی جان سے وابستہ ہوئے ان پر بھی کہیں نہ کہیں کچھ اخلاقی حقوق متعین ہوجاتے ہیں اگر ان کو اس کا ادراک ہو۔ والدین جب اولاد کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ ایک نئی زندگی بھی جڑ جاتی ہے پھر انہیں ایک لڑکا ، لڑکی کی سوچ سے بالاتر ہوکر والدین کی سوچ اپنا لینی چاہیے اور اپنی زندگی سے ”میں“ کی گردان کو نکال دینا چاہیے ، کیونکہ اس علامتی گردان سے ان دونوں کا نقصان ہو نہ ہو اولاد ضرور بٹ جاتی ہے۔
ایک عالم گھرانے کی سب سے
بڑی بیٹی کی شادی ایک بحری جہاز پر ملازمت کرنے والے نوجوان سے ہوئی، اس نوجوان کی
تنخواہ اس وقت کافی کم تھی ، اس وقت کافی مشکلات کا سامنا رہتا لہذا اپنی دوسری بیٹی
کی شادی انھوں نے ایک قومی ایئر لائن میں ملازمت کرنے والے مگر عمر میں تقریبا کافی
بڑے آدمی سے کردی (اس وقت ان کی بیٹی زیر تعلیم اور تقریبا پندرہ اٹھارہ برس کی تھیں)۔
عمر کا اتنا فرق کافی پیچیدگی کا باعث بنا دونوں کی عمروں میں تو فرق تھا ہی سوچوں
میں بھی فرق بڑھتا گیا جس کی وجہ سے بیگم کو ہائی بلڈ پریشر رہتا اور ان کے تین چار
بچے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم ہوگئے ، صرف ایک بیٹی بچ سکی۔ شوہر ایئر لائن میں
ہونے کی وجہ سے کئی کئی دن ہوائی سفر پر رہتے، شوہر کی والدہ کے انتقال کے بعد بیوی
اور بیٹی گھر پر اکیلے رہتے بیوی چونکہ بھرے گھر سے تھیں اس لیے اکیلے رہنے میں انھیں
ڈر لگتا اس لیے وہ والد کے گھر چلی جاتیں اور یوں دن مہینے سال گزرتے رہے ، میاں بیوی
کے درمیان فاصلے حائل ہوتے گئے۔ شوہر نے یہ نہ سوچا کہ بیوی بیٹی اکیلے کیسے رہیں گے
اپنے باہر کے ٹرپ کو کم کرتے یا بیوی بچی کو بیوی کے والدین کے گھر کے پاس کوئی گھر
دلا دیتے یا اپنی بہن کے ساتھ بیوی بیٹی کے رہنے کا کوئی انتظام کردیتے وہ اپنی دھن
میں رہے ظاہر ہے نوکری اچھی تھی اور اپنے کام کے ماہر بھی تھے، دونوں کی ناسمجھی حالانکہ
یہ اہلیہ سے کئی سال بڑے تھے خیر ان وجوہات سے اہلیہ بچی کو لے کر میکے آگئیں۔ والدین
تو اولاد پر قربان ہی ہوتے ہیں اور شادی سے پہلے بھائی بھی بہنوں پر فدا رہتے ہیں اس
لیے سب نے اس فیصلے کی تائید کی کاش اس وقت کوئی یہ سوچتا کہ اس جذباتی فیصلے کا اثر
اس معصوم بچی پر کیا پڑے گا۔ وقت گذرتا گیا بیٹی نے نانا کے گھر میں کیونکہ وہ پڑھائی
کا شوق رکھتی تھی ایم ایس سی، بی ایڈ کیا۔ والد آتے بیٹی سے ملنے کبھی کبھی چیزیں بھی
لے کر آتے مگر وہ غصے کے بہت تیز تھے۔ بیٹی پروان چڑھتی رہی پر وہ جو والدین کے ساتھ
میں بچے پلتے ہیں ان خوشیوں، آسودگیوں محبتوں سے محروم رہی۔ نانا بھی وقت کے ساتھ انتقال
فرما گئے۔ فرشتہ صفت سب سے بڑے ماموں ممانی گھر کے سربراہ بنے انھوں نے اپنے والد کے
فیصلے کا احترام کیا بہن اور بھانجی کو نہ صرف اپنے ساتھ رکھا بلکہ ہر طرح ان کا خیال
رکھا، ان کی دلجوئی بھی کرتے۔ بچی کی پھوپھی نے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگا تو والد
صاحب نے وہ غصہ کیا، اپنی بہن پر کہ تم نے سوچا بھی کیسے بے بی کے لیے کیونکہ اس وقت
ان کی بہن کے مالی حالات اچھے نہیں تھے جبکہ وہ لڑکا بعد میں سعودی چلا گیا اس کی جاب
وہاں ہوگئی تھی۔ بچی کی خالہ نے اپنے بیٹے کے دوست سے اس کا رشتہ لگانے کی کوشش کی
، لڑکا انجینئر تھا غریب گھرانے کا تھا۔ والد صاحب کو جب یہ پتہ چلا تو انھوں نے خوب
شور کیا کہ باجی آپ ایسا سوچے بھی کیسے بعد میں وہ لڑکا اسلام آباد میں ایک سرکاری
ادارے میں بہترین ملازمت پاگیا۔ ایسے بہت سے اچھے رشتوں کو وہ اپنے اونچے دماغ کی وجہ
سے ٹھکرا بیٹھے اور انتقال کرگئے انسان نے یہ شاید سوچنا ہی چھوڑ دیا کہ ایک دن اس
زندگی نے ختم ہوجانا ہے اس لیے جو حقوق و فرائض اللہ ربّ العزت نے ان پر عائد کیے وہ
جلد از جلد اسے پورا کردیں کیوں کہ سانسوں کا کچھ بھروسہ نہیں ہوتا نہ آنے والے وقت
کا۔
اب ان کی والدہ کا سنیے ان
حالات سے ان کی والدہ کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر عجیب اثرات مرتب ہوئے وہ انتہائی
سخت ماں ثابت ہوئیں۔ بیٹی کے آنے جانے کی سخت نگرانی رکھنا ، ہر بات پر روک ٹوک ، لوگوں
پر بھروسہ کرنا یا کسی کو اپنا سمجھنا ان کے لیے مشکل ہوگیا وہ ہر وقت اس فکر میں رہیں
کہ میرا اور میری بیٹی کا کوئی نہیں جس کی وجہ سے وہ بھی بیٹی کے لیے کوئی فیصلہ نہ
لے سکیں۔ والدہ کی بہنیں بھی بہت کوشش کرتی رہیں کہ بچی کا گھر آباد ہوجائے مگر ان
کی والدہ کے شکوک وشبہات۔ بڑی بہن نے اپنے انتقال سے دو مہینے پہلے ایک آخری کوشش کی
جس میں راقم بھی شریک رہا پر نہ جانے ان کی والدہ نے اس سے بھی ناپسند کر دیا بالآخر
بڑی بہن بہت روئیں کہ اب میں شاید اور نہ کر سکوں کیونکہ انہیں اپنے جانے کا پتہ چل
گیا تھا اور ہوا بھی وہی دو مہینے بعد وہ انتقال فرما گئیں۔ بیٹی کو ہمیشہ اس بات کا
احساس رہا کہ میری ماں نے میری پرورش بہت تکلیف سے کی ماں نے بھی بیٹی کی تعلیم میں
کوئی کسر نہ چھوڑی قلیل تنخواہ میں بی ایس سی ،ایم ایس سی ، بی ایڈ کی کتابیں ایک اسکول
ٹیچر خرید کر منگواتیں۔ بیٹی نے بھی ماں کی خواہش کا بھرپور احترام کیا۔ ماں کی خدمت
بیٹوں سے بڑھ کر کی رات ہو دن ہو ماں ماں ہی کرتی رہی۔ ماں نے بڑی مشکل سے بیٹی کے
لیے زیور بنائے کیونکہ ان کو زیورات کا ہمیشہ بڑا شوق تھا مگر افسوس صد افسوس وہ اپنی
ہی حماقتوں کی وجہ سے بیٹی کی شادی نہ دیکھ سکیں اور انتقال کر گئیں بعض دفعہ والدین
اپنی نادانیوں کی وجہ سے ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جن کا خمیازہ ان کی اولاد کو بھگتنا
پڑھتا ہے مگر آفرین ہے اس بیٹی پر اس نے آخری وقت تک اپنے والدین کو سخت تکلیفوں اور
اکیلے پن کے دکھ کو جھیلنے کے باوجود کچھ نہیں کہا۔ والدہ کی انتقال کے بعد بیٹی کو
اکیلا رہنا پڑا کیونکہ نیک دل ماموں ممانی پہلے ہی انتقال کر چکے تھے اور اس نفسا نفسی
کے دور میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا جب کہ دو ماموں حیات ہیں جب تک بڑے ماموں حیات تھے
انھوں نے اپنے فرائض بخوبی ادا کیے، لوگ ان کی برابری کی کوشش تو کرتے مگر کوئی ان
فرشتہ صفت ہستیوں کی برابری نہ کرسکا۔ چھوٹے ماموں نے یہ کہہ دیا کہ میں ساتھ نہیں
رکھ سکتا کیونکہ میری اہلیہ نہیں رکھنا چاہے گی حالانکہ ایسے موقعے پر جیسے بڑی ممانی
نے اپنے شوہر کی ذمہ داریوں کو اپنی ذمہ داری سمجھا تو چھوٹی ممانی کو بھی ایسا ہی
کرنا چاہیے تھا پر بہرحال کیا کہہ سکتے ہیں اور منجھلے ماموں تو ہمیشہ اپنے مطلب کے
رہے انھوں نے کبھی پلٹ کر کسی کی خبر نہ لی، حالانکہ ان دونوں چھوٹے بھائیوں کو ان
کی والدہ بہت چاہتی تھیں اور بیٹی چھوٹے ماموں سے بہت قریب تھی۔ پہلے پہل تو بیٹی نے
بڑی ہمت دکھائی اور اکیلے رہی پھر اکیلے پن کی تکلیفوں سے اس نے کھا نا چھوڑ دیا اور
نومبر 2018 میں انتہائی شدید بیمار ہوگئیں کہ زندگی کے لالے پڑگئے۔ قبل ازیں میں نے
ہمیشہ ان کو بہت سمجھایا مگر وہ مجھ سے عمر میں کافی بڑی تھیں تو ایک حد تک ہی راقم
سمجھا سکتا تھا ان کی والدہ کی بھی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میں ان کی بیٹی کو سمجھایا
کروں لیکن جب وہ میرا کہا نہ سنتیں تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی پھر میں نے انھیں سمجھانا
چھوڑ دیا جب کہ انھیں میری ناراضگی اور ان کے لیے میری اچھائیوں کا ادراک تھا اس لیے
وہ مجھ سے ہر طرح رابطہ رکھنے کی کوشش کرتیں اور میں بھی احترام میں ان کے رابطوں کا
جواب دے دیتا پر میں نے دوری بنائے رکھی مگر آج ان کے دنیا سے جانے پر مجھے ایک خلش،
ایک کسک ہی رہ گئی کہ اتنی جلدی وہ دنیا چھوڑ جائیں گی میں نے ان کی بھلائی اور بہتری
بہت چاہی مگر وہ بچپن کی محرومیوں کی وجہ سے جس حساسیت میں مبتلا ہو گئیں وہ ان کے
رگ رگ میں گھر کر چکی تھی وہ نہ سمجھ سکیں۔2019ءسے وہ ایک ادارے میں منتقل ہو چکی تھیں
صحت یاب ہونے کے بعد جہاں وہ ایک کمرے کا کرایہ دے کر رہتیں اور اس ادارے کے غریب بے
سہارا لوگوں کے لیے بھرپور تعاون کرتیں اور ان کا ہر طرح خیال رکھتیں۔ اس ادارے سے
وابستہ ایک صاحب نے ان کو اپنائیت کا اس قدر یقین دلایا کہ میں آپ کا بڑا بھائی ہوں
اور میں آپ کی زندگی میں خوشیاں لاؤں گا ،آپ کی شادی کراؤں گا وہ بھی چھوٹی بہنوں کی
طرح سے ان کے کھانے کا خیال رکھتیں بہرحال یہ دنیا ہے اس میں جب اپنے اپنے نہیں ہوتے
تو غیروں سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ ویکسین لگانے کے بعد سے وہ بیمار ہوتی چلی گئیں
ہاتھ میں تکلیف، پاؤں سے چلا نہیں جانا ہوتے ہوتے بستر پر آگئیں کیونکہ کھانے میں سخت
دشواری ہونے لگی کمزوری بڑھتی رہی البتہ ٹیسٹ سب نارمل آخر میں ڈاکٹر نے تھک ہار کے
کہ کھانا کیوں نہیں کھایا جارہا سی ٹی اسکین کرایا اس میں کینسر کی تشخیص ہوئی وہ بھی
ایڈوانس اسٹیج کے ڈاکٹروں نے کسی بھی علاج کے ٹائم گزرنے کا اعلان کردیا پھر بھی جب
تک سانس ہے تب تک آس ہے کچھ نہ کچھ تو تکلیف سے دور رکھنے کے لیے کرنا ہی ہوتا ہے جس
دن نلکیاں لگانے کا ڈاکٹرز نے طے کیا اس سے ایک روز پہلے اس خوشیوں سے محروم بچی کی
مشکل خدا نے آسان کردی اور اس کی والدہ کے انتقال کے تقریبا صرف پانچ سال بعد اس سے
اپنے پاس بلا لیا (بے شک ہر شے کو اسی کی طرف لوٹنا ہے)، اللہ کریم اس بچی کی کامل
مغفرت فرمائے، اس کے درجات بلند فرمائے (آمین)۔
اور یوں بیٹی کی خواہش جو
اس نے راقم سے کی تھی اپنی ماں کی رحلت کے کچھ دن بعد کا احترام کرتے ہوئے اس سے اس
کی ماں کی آغوش میں قیامت تک کے لیے رکھ دیا گیا۔ انتہائی باوقار اور خودداری سے دنیا
سے گئی کسی کا ایک پیسہ بھی اپنے اوپر خرچ نہ ہونے دیا بلکہ مستحقین میں صدقہ جاریہ
کرکے گئیں۔
کوئی تبصرے نہیں