کراچی، شریف کنجاہی کی یاد میں سیمینار و مشاعرے کا انعقاد
کراچی ( نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی ادبیات پاکستان، کراچی کے زیراہتمام جدید پنجابی شاعری کے علمبردار شریف کنجاہی کی یاد میں سیمینار و مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت توقیر چغتائی نے کی، مہمان خصوصی ڈاکٹر نائلہ پرویز تھیں۔
صدارتی خطاب میں توقیر چغتائی
نے کہا کہ وہ پنجابی، اردو، فارسی اور انگریزی زبان میں پینتیس کتابوں کے مصنف تھے۔
انہوں نے قرآن مجید کا ترجمہ پنجابی زبان میں کیا جو دو جلدوں میں شائع ہونے والا ایک
شاہکار ہے۔ ان کی پنجابی شاعری پنجاب یونیورسٹی کی ایم اے پنجابی کے نصاب کا حصہ ہے۔
پنجابی ادب میں ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس اور ستارہ
امتیاز سے نوازا۔ اہل شہرگجرات نے انھیں نشان گجرات قرار دیا اور اس ایوارڈ سے انھیں
سرفراز کیا۔ عالمی پنجابی کانفرنس نے پنجابی زبان کی ترویج پر انھیں تاحیات کامیابی
(لائف اچیومنٹ ایوارڈ) کا ایوارڈ دیا۔ پروفیسر صاحب کی ادبی خدمات اور پنجابی زبان
کی ترویج کے لیے ان کی جدوجہد کے بارے میں مختلف مصنفین نے ان کی شخصیت پر دس کے قریب
کتابیں لکھی ہیں۔
شریف کنجاہی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے میں ہی حاصل
کی اور یہیں سے 1930 میں میٹرک کا پاس کیا۔ اس کے بعد گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج جہلم
سے ہائر سیکنڈری کا امتحان پاس کیا۔ 1947 میں انہوں نے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت
سے پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل اور بی اے کا امتحان کیا۔ انہوں نے لاہور سے اساتذہ
کے لیے تربیتی کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے 1954 میں ایم
اے اردو اور اور 1956 میں ایم اے فارسی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران انہوں نے درس و تدریس
کا سلسلہ جاری رکھا اور مختلف اسکولوں میں بطور معلم تعینات رہے۔ 1959 میں گورنمنٹ
کالج کیمبل پور ( اٹک) میں فارسی زبان کے لیکچرر کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ہو گئی۔
کچھ عرصے بعد ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج جہلم میں ہوگیا جہاں سے وہ 1973 میں ریٹائر
ہوئے۔ 1973 سے 1980 تک انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نئے قائم ہونے والے پنجابی
شعبے کے قیام سے لے کر اسے ایک کامیاب شعبہ بنانے تک قابل قدر کام کیا۔ انھوں نے
21 جنوری 2007 کو وفات پائی، انھیں آبائی قصبے کنجاہ میں ایک روحانی بزرگ غنیمت کنجاہی
کے مزار کے احاطے میں دفن کیا گیا۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر نائلہ پرویز نے کہا کہ آپ نے 1930 میں
ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ ان دنوں وہ ہندوستانی نیشنل کانگریس کے ہمدرد اور ایک
ترقی پسند مصنف کے طور پر جانے پہچانے لگے تھے۔ جب ان کی سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں
ان کی یہی وابستگی رکاوٹ بن گئی تو انہوں نے کانگریس کو چھوڑ دیا۔ شاعری کی ابتدا انہوں
نے ایک اردو شاعر کی حیثیت سے کی لیکن پنجابی ہمیشہ سے ان کی پہلی محبت تھی۔ اس دور
میں مسلمان ادیب، خاص کر ابتدائی ترقی پسند مصنفین اور شاعروں کے درمیان ان کا تخلیقی
تصنیف کے لیے پنجابی کو اپنانا ایک غیر معمولی واقعہ تھا، وہ 1930 کی دہائی سے ہی جدید
پنجابی شاعری کے علمبرداروں میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کی پنجابی شاعری کا سب سے پہلا
مجموعہ ”جگراتے“ سب سے پہلے 1958 میں مشرقی پنجاب میں گور مکھی رسم الخط میں شائع ہوا
تھا اور 1965 کے بعد ان کا یہ مجموعہ کلام شاہ مکھی رسم الخط میں پاکستان میں شائع
ہوئی تو اس کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس مجموعہ کلام میں ان کی صرف سینتیس نظمیں
شامل ہیں۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ” اوڑک ہندی لو“ کے عنوان سے 1995 میں شائع ہوا۔
اظہار خیال ڈاکٹر مشتاق فل نے کہا کہ پنجابی شاعری کے لیے نئی سمت طے کرنے میں اہم
کردار ادا کیا اور تقسیم کے بعد کے شعرا کے لیے نظم لکھنے کے روایتی انداز سے دور ہونے
اور نئے طریقوں اور تکنیکوں سے تجربہ کرنے کے دروازے کھول دیے۔ ان کی ایک نظم ”ایس
پنڈ دے کولوں“ اس کی ایک بہت ہی اچھی مثال ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان کی شاخیں مجھے
قریب آنے کا اشارہ دے رہی ہوں۔ ان کے سائے تلے کھڑا ہونا ایک عجیب مزا دیتا تھا۔ لیکن
آج کچھ بھی مجھے ان کی طرف کھینچ نہیں رہا اور نہ ہی مجھے گاؤں سے آنے والی ہوا کی
محبت کا لمس محسوس ہوتا ہے،کیونکہ اب کوئی بھی مجھ سے پیار سے ملنے والا اب یہاں نہیں
ہے۔
شوکت اجن نے کہا کہ ادب کے ایک ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت
سے میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ ہمارے پنجابی صوفی شعرا نے بہت مختصر کلام لکھا ہے لیکن
انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے اس کا ایک ایک لفظ موتیوں میں تولنے والا ہے۔ ان سب کے
کلام کو ادب میں بھی بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ گوکہ شریف کنجاہی کو ہم صوفی شعراءکی
صف میں شامل نہیں کرتے بلکہ وہ جدید پنجابی شاعری کے بانیوں میں سے ہیں لیکن پھر بھی
ان کا پنجابی کلام کافی مختصر ہونے کے باوجود بہت ہی اعلیٰ ہے۔ ان کی شاعری پر تبصرہ
کرتے ہوئے صغیر محمد نے بجا طور پر لکھا ہے کہ کنجاہی کی شاعری روایتی قصے کہانیوں
اور صوفی روایات سے کوسوں دور ہے۔ مختیار ابڑو نے کہا کہ ان کی ابتدائی نظموں میں بھی
جدید شاعری کے سارے عناصر موجود ہیں۔ انہوں نے سیکولرازم، انفرادیت کے تجربے کا اظہار
اپنے ارد گرد معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی کو اپنی شاعری کا موضوع
بنایا۔ ان کی ابتدائی نظموں میں ان کے موجودہ قدرتی نظام سے دوری کے گہرے احساس کا
اظہار ہوتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ علامات یا انتہائی جذباتیت سے دبے بغیر ان کی شاعری
نسبتاً سیدھے سادھے انداز میں ان کی معاشرتی شعور کا ایک حقیت پسندانہ اور متوازن اظہار
ہے۔ انہوں نے پنجابی زبان کی شاعری کے لیے نئی سمت طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
انہوں نے پنجابی شاعروں کے لیے روایتی انداز میں نظمیں لکھنے کو ترک کر کے نئے طریقوں
اور تکنیک کے ساتھ تجربہ کرنے کے دروازے کھول دیے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی
نگران اعزازی پروگرامز ڈاکٹر شیر مہرانی نے کہا کہ جس طرح انہوں نے شاعری میں کیا تھا،
اسی طرح انہوں نے پنجابی نثر میں بھی پرانی روایات توڑ دیں۔ علامہ اقبال کے لیکچرز
مذہبی افکار کی تعمیر نو کا پنجابی ترجمہ کر کے انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پنجابی زبان
بھی انتہائی فلسفیانہ خیالات کو فصاحت سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ انہوں نے تخلیقی
طور پر پنجابی الفاظ کے وسیع خزانے کو استعمال کر کے بہت سی نئی اصطلاحیں تیار کیں۔
ان کا ایک اور شاہکار بہت ہی اعلیٰ اور رواں پنجابی میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے جس میں
انہوں نے پنجابی نثر لکھنے کا ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔ شریف کنجاہی نے ایک ایسے
وقت میں اپنی زبان کی خدمت کا بوجھ اٹھایا جب زیادہ تر مسلم پنجابیوں نے عام ادبی اور
تخلیقی اظہار کے لیے اپنی ہی زبان کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے پنجابی زبان کو اتنے
مختلف طریقوں سے تقویت بخشی۔ ان کے اس کردار کو پنجابی ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد
رکھا جائے گا۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد نے کہا کہ شریف کنجاہی کی ایک نظم کا نام ہے ”اڈیک“ یہ
جنگ عظیم دوم کے تناظرمیں لکھی گئی جب متحدہ ہندوستان خاص کر پنجاب کے ہزاروں نوجوان
برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر برما اور دوسرے محاذوں پر جرمن اور جاپانی فوج کے خلاف
لڑ رہے تھے۔ محاذ جنگ پر گئے ہوئے جوان کی گھر والی کہہ رہی ہے کہ میرا ماہی اور میرے
سرکا سائیں لام پر گیا ہوا ہے اور میں یہاں اکیلی اس کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوں۔
اب سنا ہے کہ لام ( جنگ) ختم ہوگئی ہے اور میرا ماہی واپس آ نے والا ہے، لگتا ہے کہ
میری اڈیک ختم ہونے والی ہے۔
دوسری نشست میں مشاعرہ کا انعقاد ہوا، جس کی صدارت سعد الدین
سعد نے کی جبکہ مہمان خاص نصیر سومرو تھے۔ جن شعراءحضرات نے اپنا کلام سنایا ان میں
ڈاکٹر مشتاق پھل، مرزا عاصی اختر، شوکت اجن، مختیار ابڑو، ڈاکٹر شیر مہرانی، اے بی
لاشاری، اقبال سہوانی، رمزی آثم، محمد شجاع الزماں خان شاد، تاج علی رعنا، افضل ہزاروی،
صدیق راز ایڈوکیٹ، سابھیان سانگی، ڈاکٹر عابدہ گھانگرو، مسرور پیرزادہ، ، وحید محسن،
ڈاکٹر آمنہ سومرو، سید ماجدعلی، ہما اعظمی، ثروت سلطانہ، صدف بنت اظہار حیدر، خضر حیات،
فرح دیبا، وفا برڑو، میاں محمد عتیق شامل ہیں۔
اس موقعے پر مقررین نے شریف کنجاہی کو خراج عقیدت پیش کیا۔
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد ڈہراج نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے جانب
سے شکریہ ادا کیا۔ سیمینار اور مشاعرے کی نظامت کے فرائض اقبال سہوانی نے انجام دیے۔
کوئی تبصرے نہیں