والدین بہترین دوست

Syeda Shireen Shahab

دوست، ہم راز، ہمنوا اور ان لفظوں سے منسوب معنی کے دیگر الفاظ ہماری سماعتوں سے گزریں تو فوراً اپنے ہم عمر ساتھیوں کی شبیہ ہمارے ذہنوں میں آجاتی ہے جبکہ میری ذاتی رائے ہے کہ اولاد کے لئے اُن کے والدین سے بہتر دوست کوئی نہیں ہوسکتا ہے۔ دنیا کے باشعور معاشروں میں ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ تصور کی جاتی ہے دوسری طرف باپ کی پدرانہ شفقت اور دوستانہ رویہ بچپن میں ہی اولاد کے وجود میں اعتماد کا بیچ بو دیتا ہے جو ہر گزرتے سال کے ساتھ پھلتا پھولتا اُس کی جوانی تک کامیابی کے تناور درخت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمارے دیسی معاشروں میں پلنے والے افراد کی کثیر تعداد جب اولاد کا کردار نبھا رہی ہوتی ہے تو اپنے والدین کو ہٹلر کا جانشین تصور کرتی ہے لیکن جب خود اُن کی والدین بننے کی باری آتی ہے تو اُس رشتے میں کوئی خاص انقلاب برپا کرتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔

ماں باپ اور سنتان کے درمیان رشتے کے حوالے سے دیسی معاشروں کا حال ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر ہم جو دیکھ نہیں پا رہے یا جانتے بوجھتے اَن دیکھا کر رہے ہیں وہ مغربی ممالک میں اس مقدس رشتے کی پامالی ہے۔ پاکستان اور اس جیسے دیگر ترقی پذیر ملکوں میں رہنے والے امراءو سلاطین سے لے کر عام آدمی تک ہر انسان مغربی دنیا کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وہاں زندگی گزارنے کا خواہاں بھی ہے۔ انسان کو دور کے ڈھول ہمیشہ سُہانے لگتے ہیں، دیسی اور پردیسی قوموں میں رشتوں کی حرمت کا فرق ماضی میں جتنا واضح تھا اُس میں آج بھی کوئی خاص بہتری نہیں آئی ہے البتہ مزید بگاڑ پیدا ہوگیا ہے۔ ہم مشرقی لوگ مغرب کی تقلید میں بےحد فخر محسوس کرتے ہیں اور یہی مجموعی طور پر ہماری سب سے بڑی خرابی ہے، نقل میں عقل درکار ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ بات کہاں سمجھ آرہی ہے بس بِنا سوچے سمجھے غلط راہوں پر سب محوِ سفر ہیں۔

ہماری زندگی کے دو اہم ترین رشتے جنھیں ہم نے اماں ابّا، امّی ابّو، مما پاپا اور ممی ڈیڈی جیسے پیارے، میٹھے نام دیئے ہیں اور جنکی بدولت ہمارا اس دنیا میں آنا ممکن ہو پایا ہے۔ جنہوں نے ہمیں بولنا، چلنا، پھرنا، لکھنا، پڑھنا غرضیکہ زندگی کے تمام رموز سے واقفیت دلوائی ہے، اُن والدین کا شُکر گزار ہونا تو دور ہم اُنھی کو اپنا مخالف سمجھ بیٹھے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں میں اُن کے ماں باپ کے متعلق اس خناس کو بھرنے میں موجود دور کے ٹی وی ڈراموں کا بڑی حد تک ہاتھ ہے۔ آپ ٹیلی وژن کھول کر کسی بھی چینل پر چلے جائیں وہاں چلنے والے تقریباً تمام ڈراموں کی کہانی صنفِ مخالف کے عشق میں گرفتار نوجوانوں کے اردگرد گھومتی دکھائی دے گی۔ جس میں ہیرو، ہیروئن کے والدین ولن کے طور پر پیش کیے جا رہے ہوں گے، اب جن معاشروں میں انٹرٹینمنٹ کے نام پر ایسی کہانیاں دیکھی اور پسند کی جارہی ہوں وہاں رشتوں کا احترام قائم رہنا پھر ناممکن ہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے والدین اور اولاد کے درمیان بہت خوبصورت رشتہ قائم کیا ہے جو اس دنیا کے باسیوں کے درمیان تخلیق کیے گئے بے شمار رشتوں میں سب سے خاص ہے۔ اس سوہنے رشتے کی اہمیت کا اندازہ ایک حدیثِ پاک سے لگایا جاسکتا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا سب سے بہترین دروازہ ہے۔ اس حوالے سے کئی اور حدیثیں بھی موجود ہیں، ایک مقام پر نبی پاک صلٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”اللہ رب العزت کی رضا ماں باپ کی رضا میں پوشیدہ ہے اور اللہ پاک کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں پوشیدہ ہے۔“ قرآنِ شریف میں بھی اولاد کو جگہ جگہ تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، ہمارے خالقِ حقیقی نے ہمیں اس بات کی قطعی اجازت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے والدین کے سامنے اُف کریں، اُنھیں جھڑکیں یا اُن کے ساتھ بدسلوکی کریں۔

ربِ کائنات نے جس بات کو اپنے محبوب بنی حضرت محمد مصطفیٰ صلٰی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مختلف انداز میں متواتر اپنے بندوں تک پہنچایا ساتھ اپنی آخری مقدس کتاب قرآنِ مجید میں بھی متعدد بار جس کے حوالے سے حکم صادر فرمایا وہ کس قدر اہمیت کی حامل ہوگی۔ اب یہاں غور طلب یہ ہے کہ اتنی ان گنت تنبیہات، احکامات کو جانتے ہوئے ہماری ترجیحات کیا ہیں، ایک طرف والدین کے سامنے خدا تعالیٰ نے اُف تک کرنے منع فرمایا ہے، دوسری طرف ہم اُن کے وجود سے ہی بیزار بیٹھے ہیں۔ لوحِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ میں ماں باپ سے بدسلوکی کی سختی سے ممانعت ہے جبکہ ہم اُنھیں اپنے برابر کا یا شاید خود سے کم عمر سمجھ کر بدلحاظی کی ہر گزرتے دن نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ افسوس خود کو عقلِ کُل سمجھنے والی اولاد اپنے تمام غلط رویوں پر نادم ہے نہ شرمندہ بلکہ وہ تو یہ بدتمیزی اپنا حق سمجھ کر رہی ہے اور زیادہ زبان درازی پر اُتر آئے تو یہ کہہ کر دامن بچاتی ہے کہ آپ نے بھی اپنے والدین کے ساتھ یہی کیا ہوگا۔

ویسے کسی بھی امر میں تمام افرادِ بنی نوح انسان کو ایک ہی لکڑی سے ہانکنا جائز بات نہیں ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا میں قائم معاشرے بگاڑ کے راستے پر ہیں، معاملات مجموعی طور پر خرابی کے دہانے پر ہیں مگر ابھی مکمل مایوسی نہیں چھائی ہے۔ اس کرہ ارض پر جنم پانے والی ہر اولاد نالائق و نافرمان نہیں ہے بالکل اسی طرح تمام والدین بھی مثالی ہونے کا اعزاز حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ ماں باپ کو اچھے یا برے ہونے کا تمغہ نہیں دیا جاسکتا ہے، وہ ہر طور پر قابلِ احترام ہیں اور اس بات میں بحث کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہر کسی کے امّی ابّو کا اندازِ ترتیب مختلف ہوتا ہے مگر اپنے بچوں سے محبت سب کو ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کا کبھی بھی برا نہیں چاہتے ہیں، ہاں اُن کے پیار و شفقت کو ظاہر کرنے میں سختی اور غصّے کا دخل ہوسکتا ہے مگر اُن کا دائمی مقصد اولاد کی بہتری و بقا ہی ہوتا ہے۔

میں اپنی نجی زندگی کے بارے میں بات کروں تو دوستوں کے حوالے سے میرا حلقہ احباب کافی وسیع ہے مگر اُن تمام کی پُر مخلص محبت کے باوجود میری جو دوستی اپنے امّی ابّو کے ساتھ ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ میرے والدین اس دنیا کے بہترین ماں باپ میں سے ایک ہیں، انھوں نے مجھے اعتماد کے انمول تحفے سے نوازا ہے یہی وجہ ہے کہ میں اُن دونوں سے ہر طرح کی بات بلاجھجک کرسکتی ہوں۔ والدین کو ایسا ہی ہونا چاہیے، کسی انسان کے خلاف پوری دنیا متحد ہو جائے لیکن اگر ماں باپ کا یقین، بھروسہ اور دعائیں اُس کے ہمراہ ہیں تو وہ باآسانی فتح کے جھنڈے گاڑ سکتا ہے۔ جدید دور کا تقاضہ ہے کہ والدین اور بچے مل کر اپنے درمیان موجود رشتے کو بھیانک شکل اختیار کرنے سے بچائیں۔ اس بدلتے زمانے کے ساتھ تھوڑا ماں باپ اور زیادہ اولاد کو اپنی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے قارئین کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ والدین کو اپنا دوست بنائیں، یقین جانیے زندگی آسان ہوجائے گی۔

کوئی تبصرے نہیں