بس اب بہت ہوگیا
پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، ہندوستان میں اُن کے پاس مسکن باشمول معاملاتِ زندگی چلانے کی تمام سہولیات موجود تھیں، ماسوائے ایک علیحدہ پہچان و مذہبی آزادی کے۔ لیکن یہی ایک چیز اُس وقت کے مسلمانوں کے لیے اتنی اہم تھی کہ انھوں نے بِنا دوسری سوچ ذہن میں لائے اپنے ماضی کو پس پشت ڈال کر ایک نوزائیدہ ملک میں ہجرت کرنے کا نہ صرف ارادہ کیا بلکہ اُس کو باخوشی عملی جامہ پہنایا۔
حقیقی طور پر پاکستان 14 اگست 1947کو معرضِ وجود میں آیا
تھا مگر اُس وقت محض ایک الگ ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی جبکہ اس کی تعمیر 77 سال
گزرنے کے بعد بھی مکمل نہیں ہو پائی ہے۔ اس ملک جس کے ہم باسی ہیں، اپنے آغاز سے ہی
بدقسمتی کے ایک ایسے بھنور میں پھنسا ہوا ہے جس سے باہر آنے کی ساری اُمیدیں آہستہ
آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ اب تو حالات اس قدر بھیانک موڑ پر آچکے ہیں کہ مجموعی طور
پر جذبہ حب الوطنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کے فوت ہونے کی کبھی بھی اطلاع موصول ہوسکتی ہے۔
ابتداءسے ہی پاکستان کے نصیب میں چند ایک شخصیات کے علاوہ
کوئی بھی ایسا حکمران نہیں آیا جس نے اسے ترقی کی بلندیوں تک پہنچانے کی منصوبہ بندی
خلوصِ دل کے ساتھ کی ہو، جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کے بعد آزادی حاصل
کرنے والے ممالک ترقی کی دوڑ میں اس سے کوسوں آگے ہیں جبکہ پاکستانی عوام حسرت سے کبھی
اُنھیں اور کبھی اپنے حال کو دیکھتی ہے۔ ہجرت کر کے برصغیر کے اس خطے میں آنے والوں
کا کیا قصور ہے کہ سکون اُن کو ہندوستان میں میسر تھا نہ پاکستان میں ہے۔
ہمارے ملک کا سرکاری نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے، جہاں
حقیقی جمہوریت کبھی قائم ہو پائی ہے نہ اسلام اپنی خالص شکل میں موجود ہے۔ اس ملک کو
جتنا نقصان طاقت کے حصول کی جنگ میں شامل سیاستدانوں نے پہنچایا ہے، اُتنا ہی ضرر اسے
یہاں کے نام نہاد، خود ساختہ مذہب کے ٹھیکیداروں نے دیا ہے۔ ایک گروہ نے ملک کو پھلنے
پھولنے نہیں دیا تو دوسرے نے خالق اور تخلیق کے درمیان اپنی دکان چمکانے کی خاطر ایک
لمبی دیوار حائل کردی ہے۔ پاکستان کے قومی پرچم کا سبز اور سفید حصہ اس ملک کو بچانے
میں تار تار ہوچکا ہے۔
سب سے پہلے اس ملک کے با اختیار طبقے نے مشرقی پاکستان سے
تعلق رکھنے والے اپنے ہم مذہب بنگالیوں کے رنگ و قد کاٹھ کو مذاق کا نشانہ بناتے ہوئے
اُنھیں اقتدار اور ملکی وسائل سے دور رکھ کر بغاوت کرنے پر اکسایا تھا۔ پھر پاکستان
کے دو لخت ہوتے ہی باقی رہ جانے والے حصے کو لسانیت کی بھینٹ چڑھایا جس نے اس ملک کو
ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ ابھی ملک اپنے پچھلے مسائل سے ہی جوج رہا تھا کہ یہاں
رہائش پذیر اقلیت کو زبردستی اکثریت میں بدلنے پر کام شروع کردیا گیا اور اس کے لیے
اوچھے ہتھکنڈوں اپنائے گئے۔
برصغیر کے بٹوارے سے قبل ہندوستان میں جو ظلم و زیادتی مسلمانوں پر ہورہی تھی پاکستانیوں نے اُس کا بدلہ جب کبھی موقع میسر آیا اس خطے میں رہ جانے والے ہندوؤں، عیسائیوں، پارسیوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے لیا۔ جس کی بناءپر کتنے ہی خاندانوں نے 1947کے بعد آنے والے سالوں میں اس سرزمین کو دکھی دل کے ساتھ خیرباد کہا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947 کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ”آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے۔ میں یہ بات مذہبی معنوں میں نہیں کہہ رہا ہوں، کیوں کہ یہ تو ہر فرد کے ذاتی عقیدے کا معاملہ ہے، بلکہ ریاست کے باشندے ہونے کی بناءپر سیاسی معنوں میں کہہ رہا ہوں۔“
انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اس علیحدہ ملک
کا تحفہ عنایت کرنے والی ہستی کی قدر کی نہ آزادی کے حقیقی معنوں کو سمجھا ہے۔ ماضی
سے سبق نہ سیکھتے ہوئے آج بھی یہاں اپنے ذاتی اختلافات کو جھوٹ کا لبادہ اُڑا کر اس
ملک کی اقلیت پر اکثر اسلام کی توہین اور قرآن پاک کو شہید کرنے کا الزام عائد کرکے
اُن کی جان لینے کا کھوکھلا سا جواز پیدا کرلیا جاتا ہے۔ جب اس سب سے بھی طاقتور افراد
کی روح کو تسکین نہیں ملتی تو مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے لیے اُنھیں فرقوں میں بانٹ
کر اُن پر کفر کے فتوے داغنے لگ جاتے ہیں۔
ہمارے لیے پاکستان اللہ تعالیٰ کا انعام تھا، یہاں کی زرخیز زمین سونا اُگلتی تھی، سال کے چاروں موسم ادھر اپنی موجودگی ظاہر کرتے تھے، شہروں کی آب و ہوا صاف، گاؤں دیہات شاداب تھے، سمندر و دریا کا شفاف پانی، قدآور سرسبز اور معدنیات سے لبریز پہاڑ اس خطے کا خاصہ تھے۔ اب خالق کی عطا کردہ وہ سب نعمتیں اختیار رکھنے والے لوگوں کے چند غلط فیصلوں کے باعث تہس نہس ہوکر رہ گئی ہیں۔ پرائے جھگڑوں میں فقط ڈالروں کے حصول کی خاطر کود کر پاکستان کو جتنا نقصان اپنوں نے پہنچایا ہے اتنی تو اس کے دشمن کی بھی بساط نہیں تھی۔
غلط فیصلوں کے نتائج کبھی اچھے نکلتے ہیں نہ مانگے تانگے
کے پیسوں سے ترقی کی سیڑھی پر چڑھا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ عزت و وقار الگ چلا جاتا
ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہی کچھ ہوا جس کی جیتی جاگتی تصویر ہے ہمارے اور بااثر ممالک
کے درمیان قائم سفارتی تعلقات۔ پاکستان کے اپنے چار پڑوسی ممالک میں سے صرف دو کے ہمراہ
برادرانہ تعلقات ہیں۔ باقی دو میں سے ایک نے ماضی میں ہمیں تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش
کی ہوئی ہے اور دوسرے کو ہم نے آباد ہونے نہیں دیا اس کے باوجود آج وہ ہمیں پیچھے دھکیلتے
ہوئے آ گے بڑھنے کو ہے۔
پاکستان کے موجودہ حال کی ایک بڑی وجہ حکمرانوں کی جھوٹی
شان ہے، سرکاری خزانہ خسارے میں ہے لیکن اختیارات کی سرمستی میں ڈوبا طبقہ بادشاہوں
والی آسائشوں سے بھرپور زندگی جی رہا ہے۔ اس ملک میں مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی
ہے، غریب کے لیے جینا مشکل ہوگیا ہے مگر امیروں کے چونچلوں میں رتی بھر فرق نہیں آرہا
ہے۔ آئی۔ ایم۔ ایف کی مدد کے بغیر پاکستان ایک ماہ چل نہیں سکتا، کوئی مالیاتی فیصلہ
اُس کی اجازت کے بغیر لے نہیں سکتا، ہر چیز پر اُس کی اصل قیمت سے زیادہ کے ٹیکس عائد
کر دیے گئے ہیں، کوئی بتلائے کیا اسے آزاد ہونا کہتے ہیں؟
اپنے ملک میں ہی ہمیں ڈر خوف کے ساتھ زندگی گزارنی پڑ رہی
ہے جہاں حساس موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کرنا بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
بجلی اس ملک کے عام شہری کے گھروں میں کم کم ہی جلوہ افروز ہوتی ہے مگر بجلی کے بل
شور مچاتے ہوئے اُن سے ہزاروں روپوں کا ہر مہینے منہ پھاڑ کر مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان
میں قدرتی گیس جو کبھی بھاری مقدار میں موجود تھی مگر حکمرانوں کی غفلت کے باعث وہ
بھی اب اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے۔
پاکستان کے حالات دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے
ہیں، ہمارا سبز پاسپورٹ دنیا کے بدترین پاسپورٹوں کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان
اور پاکستانی دنیا میں مذاق کا نشانہ بن کر رہ گئے ہیں۔ پاکستانی نوجوان ملک سے شدید
مایوس ہوچکا ہے اور جس کو موقع مل رہا ہے وہ یہاں سے جارہا ہے۔ صرف سال2024کے ابتدائی
چھے مہینوں میں سات لاکھ پاکستانی اچھی زندگی کے حصول کی خاطر پردیس سدھار گئے ہیں
اور پیچھے رہ جانے والے دیگر افراد میں سے کئی اُڑان بھرنے کو ہیں۔ اس ملک کے تخت پر
براجمان افراد نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ دن دور نہیں جب ملک کی عوام اُن
کو سونپے تمام اختیارات واپس لے کر بیک زبان کہے گی ” بس اب بہت ہوگیا۔“
کوئی تبصرے نہیں