سندھ کے عظیم صوفی شاعر فقیر قادر بخش بیدل کی فکر و شخصیت پر بیدل سیمینار اور یادگار مشاعرہ

Academy Adbiyat

کراچی (رپورٹ: نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سندھ کے عظیم صوفی شاعر فقیر قادر بخش بیدل کی فکر و شخصیت پر بیدل سیمینار اور یادگار مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت سندھ کے نامور ادیب و محقق ڈاکٹر مخمور بخاری نے کی۔ مہمان خاص سندھ کے نامور ادیب و محقق اور بیدل شناس اختر درگاہی تھے۔ اظہار خیال ڈاکٹر شیر مہرانی، مختیار ابڑو، پروفیسر حسام میرانی، پروفیسر عمران بھٹی اور پروفیسر کاشف مہیسر نے کیا۔ اس موقع پر صدارتی خطاب میں ڈاکٹر مخمور بخاری نے کہا کہ صوفی شاعر فقیر قادر بخش بیدل اپنے دور میں سندھ کے ایک عظیم شاعر اور صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی لوگوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ فقیر قادر بخش بیدل نے سکھر کے علاقے روہڑی میں آنکھ کھولی۔ ان کا دور 1814 عیسوی سے 1872عیسوی پر محیط ہے، 1230ہجری، 1814 عیسوی میں فقیر محمد حسن کے گھر میں فقیر عبدالقادر عرف بیدل سائیں نے آنکھ کھولی، فقیر بیدل کا اسم مبارک عبدالقادر رکھا گیا آپ صوفی شاعر اور عالم تھے۔ آپ کا قیام روہڑی میں رہا۔ اپنے وقت کے ولی اور کامل بزرگ تھے۔ آپ جب بڑے ہوئے تو پیرانِ پیر دستگیر غوث الاعظم شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ کے ساتھ روحانی وابستگی کے سبب اپنے آپ کو قادر بخش بیدل کہلوانے لگے۔ پانچ برس کی عمر میں بیدل کے والد نے انہیں مکتب میں داخل کرادیا، مگر انہیں علوم ظاہریہ کے مقابلے میں باطنی علوم سے روحانی دل چسپی تھی، لیکن والد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بارہ برس تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ قادر بخش بیدل کے والد بزرگوار کا اسم گرامی محمد محسن تھا اور وہ ریشم کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے تھے۔ مہمان خاص اختر درگاہی نے کہا کہ فقیر قادر بخش بیدل سندھ کی علمی اور ادبی تاریخ میں ایک بلند پایہ باکمال صوفی مفکر اور شاعر تھے۔ علاوہ ازیں وہ بڑے عارف اور عالم بھی تھے، جنہوں نے تصوف کے موضوع پر 37 کتابیں تصنیف کیں۔ قادر بخش بیدل فارسی، عربی، اردو، سرائیکی اور سندھی زبان کے بڑے شاعر تھے۔ ان کے تین فارسی دیوان، ایک اردو دیوان اور سندھی اور سرائیکی زبان کے رسالے شایع ہو چکے ہیں۔ قادر بخش بیدل کے اردو شاعری کے دیوان کی یہ اہمیت  ہے کہ وہ چونکہ غالب کے ہم عصر تھے اسی لیے غالب سے ان کے تقابل سے بہت ہی دلچسپ باتیں ظاہر ہوتی ہیں اور اردو زبان کا ایسا منفرد لہجہ ملتا ہے جو بیدل کے کہ ہاں تصوف کے رموز سے عیاں ہے۔

پروفیسر عمران بھٹی نے کہا کہ روحانی فیض حاصل کرنے کے لیے بیدل بیکس سیہون شہر میں حضرت لعل شہباز قلندر کے مقبرے پر گئے، وہاں سے پیر جو گوٹھ ضلع خیرپور آئے، جہاں پیر صاحب پگارہ حضرت صبغت اللہ شاہ نے اپنے صاحبزادے پیر علی گوہر شاہ کے لیے ان کو اتالیق مقرر کیا، بیدل پیر صاحب کو مولانا رومی کی مثنوی کا درس دیتے تھے، اس کے پریالوئی ضلع خیرپور گئے جہاں پر مخدوم محمد اسماعیل کی درگاہ پر کچھ وقت قیام کیا، پھر واپس روہڑی آئے جہاں کپڑے اور دوسری چیزوں کی ایک دکان کھول کر بیٹھ گئے۔ وہیں سن 1289ھ، 1872ءمیں وفات پائی، ان کا مزار روہڑی ریلوے اسٹیشن کے قریب مرجع خلائق ہے۔ حضرت بیدل ضلع خیرپور کے ایک قصبے میں تشریف لے گئے، یہ مقام روہڑی سے تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔

مختیار علی ابڑو نے کہا کہ وہاں کے ایک برگزیدہ درویش مخدوم محمد اسماعیل کے روضہ مبارک پر کسب فیض کیا اور کچھ عرصہ قیام کے بعد اپنے آبائی شہر روہڑی واپس آکر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ذریعہ معاش کی غرض سے کپڑے اور دیگر اشیاءکا کاروبار کیا۔ فکر معاش کے بعد ہمہ وقت فکر الٰہی ذکر محمدی اور خدمت خلق میں گزارتے، آپ کے مریدوں اور عقیدت مندوں میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل تھے۔1289ھ، 1872 ءمیں آپ کا وصال ہوا، آپ کا مزار پرانوار روہڑی اسٹیشن سے متصل ہے۔ حضرت بیدل نے جب اس جہاں فانی میں قدم رکھا، سندھ میں تالپوروں کا دور اقتدار تھا اور جب دار فانی سے دارالبقاءکی راہ لی اس وقت انگریزوں کی سلطنت کا سورج نصف النہار پر جلوہ گر تھا۔ اس وقت فقیر بیدل نے حیات بے ثبات کی تیرھویں بہار دیکھی۔ یہ مذکورہ بالا ارباب علم و عرفان کا فیضان تھا کہ فقیر بیدل کو اپنے زمانے میں وہی مقام حاصل ہوا جو مقام حضرت شاہ لطیف، حضرت سچل سرمست جیسے اکابر ین سندھ کو اپنے اپنے زمانے میں حاصل تھا۔ فقیر قادر بخش بیدل وہ بھی ایک صوفی اور درویش صفت انسان تھے۔ سندھ کے مشہور صوفی سید عبد الوہاب جیلانی سے بیعت کا شرف رکھتے تھے۔ آپ کے والد کو شیخ عبدالقادر جیلانی سے بڑی محبت اور لگاؤ تھا اسی لیے ان سے نسبت کرتے ہوئے ان کا نام عبدالقادر رکھا گیا لیکن بیدل نے احتراماً اپنے آپ کو قادر بخش کہلوانا زیادہ پسند کیا اور شاعری کے لیے بیدل تخلص کا انتخاب کیا۔1815 میں ریاست سندھ کے علاقہ روہڑی میں ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ان کو مکتب میں داخل کرایا گیا لیکن وہاں صرف حرف الف سے آگے نہ پڑھ سکے۔ انہوں نے قرآن، فقہ، حدیث، ریاضت اور منطق وغیرہ کی تعلیم کس سے لی اس کے بارے میں کوئی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔ ان کی تصنیفات کی ایک طویل فہرست موجود ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے عربی، فارسی، اردو، تصوف اور علم طب کی وغیرہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔

پروفیسر کاشف مہیسر نے کہا کہ نے کہا کہ انہوں نے چند مقامات کا سفر بھی کیا۔ ان کو شہباز قلندر سے گہری عقیدت تھی اس لیے سیہون شریف تشریف لے گئے اور ان کی درگاہ پر کافی عرصہ تک قیام پذیر رہے۔ اسی سلسلے میں یہ صبغت اللہ شاہ اول کی خدمت میں ان کے آبائی گاؤں پیر پگاڑا پہنچے اور ان کے صاحبزادے گوہر علی شاہ کو خصوصی طور پر ”مثنوی معنوی“ مولانا روم کی تعلیم دی جس کا نتیجہ یہ رہا کہ پیر علی گوہر شاہ سندھی زبان کے ایک اعلیٰ صوفی شاعر ہوئے جنھوں نے اصغر تخلص کیا۔

سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر حسام میرانی نے کہا کہ بیدل سائیں نے شاہ لطیف بھٹائی، سچل سرمست اور مخدوم محمد اسماعیل کی درگاہوں کی زیارت کی اور سلوک و طریقت ہم عصر شیخ و مشائخ سے حاصل کی۔ 1873ءمیں انہوں نے انتقال فرمایا۔ بیدل سائیں نے اپنی شاعری میں امن و محبت کا پیغام عام کیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے نگران پروگرامز اعزازی ڈاکٹر شیر مہرانی نے کہا کہ آپ کے صاحبزادے محمد محسن بیکس سرائیکی زبان کے ایک معروف شاعر ہیں۔ انہوں نے جو نوحہ منظوم کیا اس سے ان کی تاریخ وفات یہی حاصل ہوتی ہے۔ آپ کے جنازے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور روہڑی اسٹیشن کے پاس آپ کو دفن کیا گیا۔ تصوف میں وحدة الوجود کے حامی تھے۔ شیعہ اور سنی دونوں مسلک میں مقبول تھے۔ آپ نے حضرت علیؓ اور امامین کی شان میں نظمیں کہیں ہیں۔ محرم میں اہل تشیع کے ساتھ عزاداری میں بھی شامل ہوتے تھے۔ شیعہ سنی جھگڑوں سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا۔ عشق کو مذہب کی روح سمجھتے تھے۔ بیدل نے اگرچہ بہت سارے صوفیا کے مزاروں اور درگاہوں کی زیارت کی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ان کی تصانیف کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ اردو، سرائیکی، ہندی، فارسی، سندھی اور عربی پر دسترس تھی اور چھ زبانوں میں ان کی تصانیف موجود ہیں۔ نظم و نثر دونوں میں طبع آزمائی کی اس کے علاوہ علم طب پر بھی ان کی تصنیف موجود ہے۔

اس کے بعد مشاعرہ کا انعقاد ہوا جس کی صدارت اختر شاہ ہاشمی مہمانان خاص جنرل منیجر پاکستان ٹیلی وژن سینٹر کراچی امجد شاہ محمد رفیق مغل تھے، جب کہ شعراءکرام میں عرفان علی عابدی، اقبال شاہین، اقبال سہوانی، شجاع الزمان خان شاد، عبدالستار رستمانی، سید مشرف علی رضوی، صدیق راز ایڈوکیٹ،،کاوش کاظمی، ذوالفقار حیدر پرواز، وحید محسن، امتیاز دانش، خضر حیات، میاں محمد عتیق، کریم شیرازی، جاوید اقبال ایڈوکیٹ ارحم ملک تھے، اس موقع پر شعراءکرام نے فقیر قادر بخش بیدل کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے انچارج اقبال احمد ڈہراج نے آخر میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ مشاعرے کی نظامت اقبال سہوانی نے کی۔

1 تبصرہ: