غزل
گردِ ملال چہرہ دل پہ جمی نہ تھی |
اِتنی اُداس صبح تو پہلے کبھی نہ تھی |
تم ہی نے دستِ شوق بڑھا کر ہٹا لیا |
ورنہ میرے خلوص میں کوئی کمی نہ تھی |
ہاں، تم کو جس نگاہ سے دیکھا ہے اس کے بعد |
میری نظر میں کوئی بھی صورت جچی نہ تھی |
اب اس طرح سے ملتے ہیں جیسے ہوں اجنبی |
یا یہ کہ ان کو ہم سے کبھی دوستی نہ تھی |
ضبطِ الم کہوں کہ اسے انتہائے غم |
دل رو رہا تھا آنکھ میں میرے نمی نہ تھی |
افسوس! وہ کسی کے شریکِ سفر ہوئے |
ایسی خبر تو ابنِ حسن نے سُنی نہ تھی |
اتنی اداس صبح تو پہلے کبھی نہ تھی
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ