آؤ بھوپال چلیں

Masroor Ahmed Masroor, Bhopal City India

آؤبھوپال چلیں“ یہ بات کہنے کی حد تک تو بہت آسان نظر آتی ہے لیکن بھوپال جانے کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ بہت مشکل ہے جس میں سب سے بنیادی مسئلہ بھوپال جانے کے لیے ویزے کا حصول ہے، مشاہدے میں یہ بات ہے کہ امریکا اور کینیڈا کا ویزا لگنے میں اتنی مشکلات پیش نہیں آتیں جتنی مشکلات بھارت نے ویزا دینے کے سلسلے میں کھڑی کر رکھی ہیں جس کے باعث پاکستان اور بھارت میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے تڑپتے دکھائی دیتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہزاروں خاندان بھارت اور پاکستان آنے پر مجبور ہوگئے تھے لیکن یہ خونی رشتے ایک دوسرے کو بھول تو نہیں سکتے اور آپس میں میل ملاپ کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ دونوں طرف آباد خاندان ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک ہونے کے متمنی رہتے ہیں لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں ممالک آنے جانے والوں کو باآسانی ویزا جاری کریں۔ 

موجودہ صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ ہندوستان جانے والوں کو جس شہر میں جانا ہو وہاں اپنے کسی عزیز سے ایک اسپانسرشپ منگوانا ضروری ہوتا ہے اس اسپانسر شپ سرٹیفکیٹ کو کسی گزیٹڈ آفیسر سے تصدیق کرانا ضروری ہوتا ہے اور تصدیق صرف اس بات کی کرنی ہوتی ہے کہ وہ اسپانسر کو جانتا ہے جو پاکستان سے آنے والے مہمان کو بلا رہا ہوتا ہے۔ اس اسپانسر شپ سرٹیفکیٹ کے ساتھ تصدیق کرنے والے شخص کی ملازمت کا کارڈ بھی جمع کرنا ضروری ہے، اس سرٹیفکیٹ کے ساتھ دو تین چیزیں اور مانگی جاتی ہیں جس میں بجلی کا بل، ووٹر کارڈ، آدھار کارڈ (ہمارے شناختی کارڈ کی طرح ہوتا ہے) پاسپورٹ کا پہلا صفحہ جس پر درخواست گزار کی تفصیلات درج ہوتی ہیں یہ تمام چیزیں پیش کرنا مشکل نہیں البتہ اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ کو اٹیسٹ کروانا مشکل ترین کام ہے، کوئی بھی پاکستانی کا سن کر اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے سے گھبراتا ہے کیونکہ اس کی ملازمت کا کارڈ مانگا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پرسنل فائل میں کچھ مسئلہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسپانسرشپ کے حصول میں مشکل پیش آنے کے سبب ویزا کی درخواستیں جمع کرنے والوں کی تعداد جو ہزاروں میں ہوا کرتی ہیں اب محض چند لوگوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے آنے جانے والوں کی حد درجے کمی کے باعث دونوں طرف کے بارڈرز ویران دکھائی دیتے ہیں بہرحال یہاں ان لوگوں پر آفرین ہے جو بغیر کسی خوف کے اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ پر دستخط کر دیتے ہیں چند لوگوں کو اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کا موقع میسر آتا ہے۔

ہمارے یعنی میرے اور میری اہلیہ کے اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ ایک خاتون افسر نے دستخط کر دیے اور ہمیں ویزا حاصل کرنے والے گنتی کے لوگوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا جس کے لیے ان کا دل سے شکریہ۔ دس سال بعد ہم نے بھارت کے شہر بھوپال کا ویزا اپلائی کیا۔

ویزا جمع کرنے کے لیے دو کوریئر کمپنیوں کو ویزا درخواستیں جمع کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ ویزا درخواست جمع کرنے کے بعد کا مرحلہ بھی مشکل ہے، یعنی انتظار اور انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کے بعد بھی ویزا ملنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ویزا جاری کرنے میں تین مہینے سے لے کر چھ مہینے تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ ان میں کئی لوگوں کا ویزا لگ جاتا ہے، کئی لوگوں کو ویزا نہیں بھی ملتا۔ ویزا نہ ملنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی جاتی۔

بھارت سے جو لوگ آتے ہیں انھیں ایک سادہ سا حلف نامہ اسپانسر کی جانب سے شناختی کارڈ اور بل وغیرہ کی کاپی ویزا درخواست کے ساتھ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے یا خوشی کی بات کہہ لیں کہ دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں اگر مکمل کاغذات کے ساتھ ویزا کی درخواست جمع کروائی جاتی ہے تو شام کو ہی عام طور پر ویزا جاری کر دیا جاتا ہے یا اگلے روز بلا لیا جاتا ہے اور انھیں پاکستان جانے کا پروانہ تھما دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ کراچی میں انڈیا کے قونصلیٹ میں صبح ویزا درخواست جمع کروائی اور شام کو ویزا مل جاتا تھا، اس وقت اسپانسرشپ سرٹیفکیٹ جمع کرنے کی کوئی کہانی نہیں تھی۔ درمیان میں دونوں حکومتوں کے مابین ایک معاہدہ بھی ہوا، ویزا جاری کرنے کے سلسلے میں جس میں 65 سال یا زیادہ عمر والوں کو بارڈر پر ویزا جاری کرنے کا طریقہ طے پایا لیکن بعد میں بھارت نے نہ جانے کیوں آنکھیں پھیر لیں اور بھارت جانے والوں کے لیے ویزا حاصل کرنے کے سلسلے میں مشکلات پیدا کردیں، جس کے باعث خونی رشتے ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ترس کر رہ گئے۔ بھارت کو ویزا جاری کرنے کے حوالے سے اپنی پالیسی کو تبدیل کرکے آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں یہ بھارت اور پاکستان میں آباد ہزاروں خاندانوں کی دلی خواہش ہے۔

کوئی تبصرے نہیں