محرم الحرام کی اہمیت اور واقعہ کربلا
کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام محفل مسلمہ مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت سندھی اردو زبان کے نامور شاعر سید نور رضوی نے کی۔ مہمانان خاص اردو زبان کے نامور شاعر رونق حیات ڈاکٹر افتخار احمد ملک ایڈوکیٹ تھے۔ مہمان اعزازی امجد علی شاہ جنرل منیجر پاکستان ٹیلی وژن سینٹر کراچی، ڈاکٹر عابد شیروانی، ایڈوکیٹ تھے۔ اس موقع پر صدارتی خطاب میں سید نور رضوی نے کہا کہ واقعہ کربلا یا واقعہ عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزیدی فوج کے ہاتھوں امام حسینؓ اور آپؓ کے اصحاب شہید ہوگئے۔
واقعہ کربلا مسلمانوں خاص طور پر شیعوں کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش ترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے۔ امام حسینؓ نے چار ماہ کے قریب مکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران کوفیوں کی طرف سے آپ کو کوفہ آنے کے دعوت نامے ارسال کیے گئے اور دوسری طرف سے یزید کے کارندے آپؓ کو حج کے دوران مکہ میں شہید کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے اس بنا پر آپؓ نے یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کے اندیشے اور اہل کوفہ کے دعوت ناموں کے پیش نظر 8 ذی الحجہ کو کوفہ کی جانب سفر اختیار کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی آپؓ کوفیوں کی عہد شکنی اور مسلم کی شہادت سے آگاہ ہو گئے کہ جنہیں آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے کوفہ روانہ کیا تھا۔ تاہم آپؓ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ حر بن یزید نے آپ کا راستہ روکا تو آپ کربلا کی طرف چلے گئے جہاں کوفہ کے گورنر عبیداللہ بن زیاد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا۔
اس فوج کی قیادت عمر بن سعد کے ہاتھ میں تھی۔10 محرم، روز عاشورا کو دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؓ، ان کے بھائی عباس بن علی اور شیرخوار علی اصغر سمیت بنی ہاشم کے 17 افراد اور 50 سے زیادہ اصحاب شہید ہوئے۔ مہمان خاص رونق حیات نے کہاکہ سیدنا حسینؓ بھی اپنے 72 ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کو نکلے۔ 10 محرم61ہجری کو کربلا کے میدان میں یہ معرکہ ہوا۔ سیدنا حسینؓ کے ساتھی بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے سب شہید ہوگئے۔ ایک شقی القلب ’سنان بن انس‘ نے آگے بڑھ کر سیدنا حسینؓ کا سر مبارک تن سے جدا کردیا۔ اس معرکہ میں علی بن حسینؓ کے علاوہ تمام مرد کام آئے۔ یہی علی بن حسینؓ بعد میں ’زین العابدین‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد اہل بیت کا قافلہ کوفہ بھیجا گیا۔ ابن زیاد نے اُسے آگے شام بھجوا دیا۔
اس موقع پر شعرا کرام نے امام حسین علیہ السلام کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ان میں سید نور رضوی ، رونق حیات ،ڈاکٹر افتخار احمد ملک ایڈوکیٹ، ڈاکٹر عابد شیروانی، ایڈوکیٹ، امجد علی شاہ، سعید الدین سعد، اختر سعیدی عرفان علی عابدی، حامد علی سید، ڈاکٹر نثار احمد نثار، اقبال شاہین، شجاع الزماں خان ، نظر فاطمی، اختر شاہ ہاشمی، تاج علی رعنا، اختر علی افسر، اختر عبدالرزاق، احمد سعید خان، ظفر بلوچ، افروز رضوی، کاوش کاظمی، سحر علی، سید ماجد علی، مقبول زیدی، ہما اعظمی، فوزیہ بشیر، ہما ساریہ، زعیم ارشد، سیدہ عروج واسطی، میاں محمد عتیق، تاجور سنگیل، آسی سلطانی، مسعود وصی، اپنا کلام سُنایا۔ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد ڈہراج نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض تنویر سخن نے خیر اسلوبی سے سر انجام دیے۔
کوئی تبصرے نہیں