ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسینؓ

Dr. Nasir Jamal

حضرت امام حسینؓ نے اسلام کی بقا کے لیے کربلا کے میدان میں اپنی جان قربان کی، آپؓ کے ساتھ آپؓ کے 72 جانثاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ آپؓ نے کربلا کے ریگستان میں حق کی سربلندی کے لیے جس طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ رہتی دنیا تک مسلم امہ کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ آپؓ کے والد حضرت علیؓ کے بارے میں رسول اللہ کا فرمان عالی شان ہے کہ ”میں علم کا شہر ہوں تو علیؓ اُس کا دروازہ ہے۔“ آپؓ کی والدہ حضرت بی بی فاطمہؓ جنھیں ”خاتون جنت“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپؓ کے بھائی امام حسنؓ نوجوانان جنت کے سردار۔ امام حسینؓ نے یزیدیوں کے مظالم کا پوری جرات و استقامت سے مقابلہ کیا، آپؓ کا نیزے پر قرآن پاک کی تلاوت فرمانا ایسا معجزہ اور شامل ہے کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یزید اور اس کے پیروکاروں کا نام لینے والے آج موجود نہیں لیکن امام عالی مقام کا نام آج بھی زبان زد عام ہے۔ حضرت امام حسینؓ جب مکہ سے کوفہ روانہ ہونے لگے تو حضرت عبداللہ بن زبیر نے شدید مخالفت کی لیکن آپؓ نے فرمایا کہ میرا کوفے کی طرف جانا لازم ہو چکا کیونکہ مجھے وہاں کے لوگوں نے خطوط لکھ کر بلایا ہے، میرا مقصد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے اس لیے حق کی بقا کے لیے مجھے جانا پڑے گا۔ آپؓ نے اپنے عزم و حوصلے سے ثابت کیا کہ عددی قوت جذبہ ایمانی کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ظالموں کے لیے مذہب و عقیدہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ ہی گولی انسانی سوچ و فکر کی تفریق کر سکتی ہے۔ امام عالی مقامؓ نے اپنے نانا کے دین کو اپنی جان دے کر زندہ و جاوید کر دیا۔ آپؓ نے نبی کریم کے فلسفہ شہادت کی عملی تفسیر پیش کی۔

ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے، وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اُٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اُسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے

کربلا کی سرزمین پر یزیدیوں نے نبی کریم کے نواسوں اور ان کے جانثاروں کے لیے پانی تک بند کر دیا، لیکن یہاں موجود ہر جانثار نے خود اپنی پیاس بجھانے کی بجائے دوسرے کی پیاس بجھانے کو ترجیح دی۔ 9 محرم الحرام کو آپؓ نے اپنے قافلے میں موجود جانثاروں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو کوئی جانا چاہے وہ آزاد ہے اور ہماری طرف سے اس پر کوئی حق نہیں ہے، کیونکہ یزید اور اُس کے حواریوں کو صرف مجھ سے دلچسپی ہے یہ لوگ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے لیکن کرب کی اُس گھڑی بھی سب نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ”ہم ہرگز آپؓ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے چاہے ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔“ اُسی شب طرماح بن عدی نامی شخص جو اسی علاقے میں رہتا تھا اور لشکر کا حال سن کر آپؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تھا کہنے لگا کہ اگر آپؓ میرے ساتھ تنہا چلیں تو میں آپؓ کو ایسے راستے سے لے کر جاؤں گا کہ آپؓ کے بارے میں کسی کو خبر تک نہ ہوگی اور میں آپؓ کو پانچ ہزار افراد بھی دوں گا۔ اُس کی بات سن کر حضرت امام حسینؓ نے جواب دیا کہ جب میرے ساتھیوں، میرے جانثاروں نے مجھے تنہا چھوڑ کر جانا گوارا نہیں کیا تو میں انھیں کیسے تنہا چھوڑ سکتا ہوں۔ امام عالی مقام نے 10 محرم یعنی کہ عاشور کے روز کوفیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تم میں سے ہر شخص مجھ سے واقف ہے، میں نواسہ رسول ہوں، جنت کے جوانوں کا سردار ہوں، میں جھوٹ نہیں بولتا، کوئی غلط کام نہیں کرتا، کسی کو قتل نہیں کیا، وعدہ خلافی نہیں کی، لیکن تم لوگ مجھ کو بلا کر اب وعدہ خلافی کر رہے ہو، ناحق مجھے قتل کرنا چاہتے ہو تو جاؤ مجھے آزاد چھوڑ دو تاکہ میں مکے اور مدینے جا کر عبادت میں مصروف ہو جاؤں یا سرحد کی طرف جانے دو کہ میں کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔ اس پر سب خاموش ہوگئے۔ آپؓ نے کہا کہ خدا کا شکر ہے میں نے تم پر حجت پوری کر دی اور تم کوئی عذر پیش نہ کر سکے۔

حضرت امام حسینؓ اور شہدائے کربلا کے بارے میں گزشتہ 1400 برس میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن میرے خیال میں اُس میں ابھی تک تشنگی باقی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے تمام قلم اور سیاہی کو بھی اگر استعمال کر لیا جائے تو پھر بھی جور و ستم اور جرات و استقامت کی اس داستان کو رقم کرنا نامکمل اور دشوار تر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت امام عالی مقامؓ کی شہادت اور اہلبیت کی قربانیوں پر دنیا بھر کے عالم، مفکرین اور صاحب فکر و نظر کے خیالات کو یکجا بھی کر لیا جائے تو وہ بھی کم پڑ جائے گا۔ آج میں بڑے عالمانِ دین، فلاسفروں اور مفکرین کی آرا کی موجودگی میں اگر کچھ کہنا چاہوں گا تو وہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سانحہ عظیم انسانی تاریخ میں کیوں رونما ہوا اور اس کے اثرات کس طرح انسانی زندگی اور مسلم اُمہ کی زندگیوں پر مرتب ہوئے جب حضور نبی کریم نے فتح مکہ پر آخری خطبہ میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے راہنما اصول بیان کر دیے۔ ظالم اور مظلوم، حق و باطل، سیدھا اور اُلٹا، صحیح اور غلط کے راہنما اصول متعین کر دیے لیکن حضور پاک کے بعد جب وہ لوگ جنھوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا تھا انھوں نے اپنے دل میں ٹھان لی کہ اہل بیت کو ختم کرکے معاشرے کو اندھیاروں میں غرقاب کرنا اور خلافت کو ملوکیت میں بدلنا ہے۔ اور وہ تمام برائیاں جن سے حضور نبی کریم نے منع فرمایا تھا عام ہونے لگیں تو اُس وقت حضرت امام حسینؓ حق کا پرچم لے کر کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ جان گئے تھے کہ آج اسلام کی بقا کی جنگ ہے۔ اور یہی بات ہے کہ جب یزید نے بیعت کا پیغام بھیجا تو امام حسینؓ نے کہا کہ میں کسی ایسے شخص کے ہاتھ بیعت نہیں کر سکتا جو شریعت محمدی اور انسانی عظمتوں کی پاسداری نہ کرتا ہو۔ یہی میرے نانا جان کا حکم ہے اور یہی شریعت محمدی ہے پھر آپؓ نے ظالم و فاسق یزید کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔

حق و باطل کی اس جنگ میں کربلا کا اندوہناک سانحہ رونما ہوا، وہ چاہتے تو ہزاروں مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے خاندان کے افراد کی قربانی دے کر ثابت کر دیا کہ ان کی جنگ اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ آیندہ آنے والی نسلوں پر ظلم کے خلاف لڑنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی جنگ تھی۔ آپؓ کی اس قربانی کو آج کے دور میں دیکھا جائے تو اس سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ حق کے لیے جان بھی چلی جائے تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قربانی دیتے ہوئے ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ کون کس کو کیا دے رہا ہے بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم کسی کو کیا دے رہے ہیں۔ یہ بات اس عزم پر آ کر ختم ہوتی ہے کہ ہمیں امام حسینؓ کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ نہ سوچو کہ ہمیں وطن کیا دے رہا ہے بلکہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنے پیارے وطن کو کیا دے رہے ہیں۔

کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حُسینؓ
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حُسینؓ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسینؓ

واقعہ کربلا کے بعد مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں نے بھی ظلم اور جبر کے خلاف جنگ کو اپنا سمبل بنایا۔ دوسری قوموں نے بھی ظلم کے خلاف حق کی بات کی اور یہ جنگ مسلمانوں کو یہ پیغام دے گئی کہ ظلم و جبر کا انجام کیا ہے اور سچائی، قربانی اور ایثار کی کیا حیثیت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حضرت امام حسینؓ کے فلسفہ شہادت کی اصل روح کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنی زندگیوں کو انھی کے بتائے ہوئے اصولوں اور ان کی سیرت و کردار کی روشنی میں ڈھالنے پر توجہ دیں۔ حق و سچ کی بقا کے لیے ہمیں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ زندگی میں آزمائشوں سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ مشکلات کا مقابلہ بہادری اور جرات سے کرنا چاہیے۔ کیونکہ ظالموں کے سامنے جھکنے کی بجائے ان کا مقابلہ کرنے میں ہی ہماری عظمت اور بقا ہے۔ آج اسلام دشمن قوتیں ہمارے اندر نفاق و انتشار پیدا کرکے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ فروعی اختلافات کی وجہ سے ہم گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، آج اگر ہم امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے بتائے ہوئے اصولوں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہمیں بحیثیت قوم ایک ہو جانا ہوگا اسی میں ہماری بقا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں