”جو اب بھی لازوال ہے، مرے علی ؓ کا لعل ہے“
واقعہ کربلا تاریخ اسلام کا نہیں بلکہ تاریخ عالم کا غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے، جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا، اس واقعہ کا پس منظر رسول اور اولادِ رسول کی دشمنی ہے۔ غزوئہ بدر، غزوئہ احد، غزوئہ خندق وخیبر میں قتل ہونے والے کفارکی اولاد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرکے اپنے آباﺅاجداد کا بدلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیر المومنین کی اولاد سے بدلہ لینے کے جذبات اسلامی کافروں کے دلوں میں عہدِ رسول ہی سے کروٹیں لے رہے تھے لیکن عدم اقتدار کی وجہ سے کچھ بن نہ آتی تھی۔ مسلمانوں کے جب حالاتِ زندگی گھمبیر سے گھمبیر ہوتے گئے۔ اسی لیے آپ حضرت امامِ عالی مقام حضرت امامِ حسینؓ مدینہ سے مکہ ہجرت کرگئے جہاں آپؓ کو حج کے دوران قتل کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ جس پر آپ حج کو عمرے میں تبدیل کرکے اپنے بابا کے شہرکوفہ چلے گئے۔ کوفہ کی روایت کا اندازہ آپ اعتبار ساجد کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
گزرا ہو سلامت کوئی شفاف تدا میں |
ایسی تو روایت نہیں کوفے کی فضا میں |
المختصرکہ آپؓ کوفہ چھوڑکر
یزید اور اس کے ساتھیوں کا ناحق ظلم کا جواب دینے کربلا چلے آئیں۔کربلا یہ وہ مقام
ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوکردی تھی، چنانچہ
روایات میں آتا ہے کہ حضور نے اپنی زوجہ حضرت اُم سلمہؓ کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے
کر فرمایا تھا کہ ” یہ اُس جگہ کی مٹی ہے، جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا، جب
وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔“ واقعہ کربلا کے وقت حضرت اُم سلمہؓ
حیات تھیں اور جس وقت امام عالی مقام حضرت امامِ حسینؓ شہید ہوئے، یہ مٹی خون کی طرح
سرخ اور مائع ہوگئی تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اُداس اور اس طرح
متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا ہے۔ بقول جلیل عالی:
دامِ دنیا نہ کوئی پیچِ گماں لایا ہے |
سوئے مقتل تو اُسے حکمِ اذان لایا ہے |
نواسہ رسول حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانثاروں، ننھے شہزادوں کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا
رکھ کر جس بے دردی سے شہید کیا اور حضرت امامِ حسینؓ کے جسم اور سر مبارک کی جس طرح
سے بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخِ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔
اولادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سر اُٹھانے اور یزید کے لیے گنجائشیں
نکالنے والوں کے لیے کل بھی اور آج بھی جہنم کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے میں عہد حاضرکے
جدید اور انقلابی اسلوب کے شاعر سرور ارمان کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
پسند کرتے ہیں دروازئہ جہنم کو |
ہوا میں اپنی ہی دستارکو اچھالتے ہیں |
عجیب لوگ ہیں اولادِ مصطفی کے خلاف |
یزید کے لیے گنجائشیں نکالتے ہیں |
واقعہ کربلا کے بعد سے مرثیہ،
نوحہ ، مناقب کی روایات نے زور پکڑا۔ بڑے بڑے شعرائے کرام جس میں تقریباََ ہر ملک ہر
زبان سے تعلق رکھنے والے مختلف شعرائے کرام نے اپنے اپنے انداز سے امامِ عالی مقام
حضرت امامِ حسینؓ اور کربلا کے اُن جانثاروں کو نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے جنہوں نے اپنی
جانیں راہِ خدا اوردینِ محمد میں قربان کردی۔ ایسے شعرا میں فرحت عباس شاہ کا ایک خیال
یاد آیا کہ:
یہ مسجدیں ہیں جو آباد آج سجدوں سے |
ترا کرم سہی مولا، ثمر حسینؓ کا ہے |
ان کے اور میرے پیارے دوست
ڈاکٹر سعید اقبال سعدی کی منقبت سے ایک شعر:
حق کے لیے جاں دینے کی جو رسم چلی ہے |
اس رسم کا بانی حسینؓ ابنِ علیؓ ہے |
سانحہ کربلا سے تمام کائنات
کی چیزیں متاثر ہوئیں،آسمان کیا، زمین کیا، یہ شمس و قمرکیا ۔ اسی لیے جب محرم الحرام
کا بابرکت مہینہ آتا ہے تو ستاروں کی چمک ماند پڑجاتی ہے، دنیا بھرکے نظارے اُداس اور
فضائیں سوگوار ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں ننھے پیاسوں کی پیاس یاد آنے پر پشاور سے تعلق
رکھنے والے مستقبل کے باکمال شاعر اسحاق وردگ کے بقول:
پیاس کی تحریر سے یہ تو عیاں ہونا ہی تھا |
بے نشاں باطل تو حق کو جاوداں ہونا ہی تھا |
امامِ عالی مقام حضرت امامِ
حسینؓ کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو پوری دنیا
کے حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ جبکہ ایک محفلِ مسالمہ کا ذکر جو سابق
ڈی ایس پی غلام عباس کی رہائش گاہ پر سید الشہداءحضرت امامِ حسینؓ کی لازوال قربانی
کی یاد میں منعقد کیا گیا۔ جس کی صدارت گوجرانوالہ کے پہلوانِ سخن جان کاشمیری کے حصے
میں آئی، جبکہ کے نظامت کے فرائض ہمیشہ کی طرح احسن طریقے سے ادا کیے۔ ابوالفن ادریس
ناز کے سلام سے دو اشعار:
جو اب بھی لازوال ہے، مرے علی ؓ کا لعل ہے |
میں اس کی کیا مثال دوں، حسینؓ بے مثال ہے |
یزید پر ہیں لعنتیں، حسینؓ پر مسالمہ |
حسینؓ پر عروج ہے، یزید پر زوال ہے |
اس محفلِ مسالمہ کے دیگر
شعرا میں عتیق انور راجا، ڈاکٹر عمران اعظم رضا، ڈاکٹر اعجازبیگ، سیف بھٹی شامل تھے۔
غلام عباس حقیقی طور پر ایک ملنگ آدمی ہے، وہ کالم سے زیادہ اچھا افسانہ لکھتے ہیں،ان
کی افسانوں کی شہرئہ آفاق افسانوں کی کتاب ”سبز چائے“ ہیں۔ ڈاکٹر امین جان کا شمار
ایسے شعرا میں ہوتا ہیں جنہوں نے بہت کم عرصے میں سنیئر شعرا سے ہنر مند شاعر ہونے
کی سند حاصل کی۔ ان کے محفلِ مسالمہ میں پڑھے گئے ان اشعار نے سب کی آنکھوں کو نم کردیا:
تر خون میں شہزادہ کونین کے نعلین |
مٹی سے اٹے شاہِ کریمین کے نعلین |
میں سر پہ رکھوں جو ملیں حسنین کے نعلین |
دستارکی دستار ہو نعلین کے نعلین |
اس محفلِ مسالمہ کے اختتام
پر پیر اشرف شاکرکا خصوصی خطاب بھی سنا گیااور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی مستقبل
کی ہنرمند شاعرہ فرحانہ عنبر نے اپنا اولین شعری مجموعہ”چلے آﺅ نا “ تمام شعرا میں پیش
کیا۔ ان کی منقبت کا ایک مطلع:
جو کربلا کا سب سے نڈر شہسوار ہے |
کاندھوں پہ اس کے دین کی عزت کا بار ہے |
اس محفلِ مسالمہ میں پڑھے
گئے مجھ خاکسارکے کلام میں سے ایک شعر:
مجھے سر اپنا رکھنا ہے ہتھیلی پر |
مری بستی کا منظرکربلا سا ہے |
کوئی تبصرے نہیں