خواجہ قمرالدین سیالوی رحمتہ اللہ علیہ:تحریک پاکستان سے تکمیلِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا
ہر دور میں لوگوں کی ہدایت اور دین مصطفےٰ کی نشر واشاعت کے لیے اللہ رب العزت کے کچھ خاص لوگوں کا ظہور ہوتا ہے، جو اپنے اقوال وافعال اور تحریروں سے لوگوں کے دلوں میں محبت خدا اور عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا بیج بوتے ہیں اور پھر اس کی آبیاری بھی کرتے ہیں،جو ان ہستیوں کے قریب ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ و مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہوجاتا ہے۔ان کا دیدار اللہ کی یاد دلاتا ہے،اور ان کی نگاہ ناز سے دلوں کے زنگ دھل جاتے ہیں۔لوگ ان کی زیارت صحبت اور وعظ و نصیحت سے جہاں اپنی زندگیاں سنوارتے ہیں وہیں اپنی عاقبت کا سامان بھی کرتے ہیں۔انہی ہستیوں میں ایک نمایاں اور عظیم نام شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی کا ہے ۔ آپ 14جولائی 1904بمطابق 21جمادی الاولی 1324ھ کو سیال شریف ضلع سرگودھا کے ایک عظیم علمی روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے اور آغوش ولایت میں پرورش پائی۔آپ کو علوم شریعت اور علوم طریقت کے جامع، معقول ومنقول اصول و فروع پر حاوی ہونے کے ساتھ ساتھ زہد وعبادت میں بھی خاص مقام حاصل تھا۔ آپ دینی علوم وفنون میں مہارت تامہ اور بصیرت کاملہ رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی ماہر تھے ۔ آپ کو تورات، زبور، انجیل پر بھی کامل دسترس حاصل تھی بے شمار عیسائیوں سے آپ کے مختلف موضوعات پر مناظرے بھی ہوئے اور بے شمار عیسائی آپ کے دست مبارک پر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے جد امجد خواجہ محمدالدین سیالوی کے زیر سایہ ہوئی۔ابھی آپ کی عمر مبارک 4سال کی تھی توجدامجد کا انتقال ہوگیا۔جب آپ چار سال،چارماہ،دس دن کے ہوئے تواس وقت کے معروف حافظ قرآن،حافظ عبدالکریم کی خدمت میں حفظِ قرآنِ مجید کیلئے بٹھادیا گیا۔اپنی خانقاہ کے مدرسہ ضیاءشمس الاسلام کے اساتذہ اور والد ماجد سے اکثر درسی کتب کا درس لینے کے بعد 1346ھ میں دار الخیر اجمیر پہنچے،اور جامع المنقولِ والمعقول حضرت مولانا معین الدین اجمیر ی سے شرفِ تلمذ اختیار کیا، اسی سن میں چند ماہ کے بعد آپ کے والد ماجد نے مولانا اجمیری کو سیال شریف آنے کی دعوت دی، تو آپ بھی اُن کے ساتھ وطن آگئے،اور پورے انہماک کے ساتھ اُن سے کسب علم میں مشغول ہوگئے،اور1351ھ،بمطابق1932ئمیں تکمیل ِدرسیات کر کے سندِفراغت حاصل کی۔1356ھ،بمطابق1938ءمیں بموقع حج وزیارت علماءحرمین شریفین سے بھی سندیں حاصل کیں۔ اپنے والدِ گرامی قدوةالسالکین خواجہ محمد ضیائالدین سیالوی علیہ الرحمہ سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت وخلافت حاصل ہوئی۔
جب آپ کی عمر تقریباً چوبیس
سال تھی تو آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور آپ مسند سجادگی پر متمکن ہوئے اور
بڑی جوانمردی سے اپنے فرائض سر انجام دیے اور آستانہ عالیہ کی ذمہ داریوں کو سنبھالا
۔ دور دراز سے طلباءو علماءآپ کی خدمت میں حاضر ہوتے آپ انکی علمی پیاس بجھاتے اور
دارالعلوم ضیاءشمس الاسلام کی سرپرستی فرماتے۔آپ کی قیام پاکستان اور تعمیر وطن کے
لیے خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کی یہ خدمات ہر ایک پر واضح اور ظاہر
ہیں انگریزوں نے اس کام سے آپ کو روکنے کے لئے اور پاکستان کی حمایت سے پیچھے رہنے
کے لیے پہلے پہل مال و متاع کا لالچ دیا جب اس میں کامیاب نا ہوسکے تو دھمکیاں دینے
پر اتر آئے مگر آپ نے کسی چیز کی پروا کے بغیر تحریک پاکستان کے لیے اپنا کام جاری
رکھا 1946کے انتخابات جو کہ فیصلہ کن انتخابات تھے اس وقت آپ نے مسلم لیگ کی حمایت
کی اور قریہ قریہ گاؤں گاؤں سفر کر کے مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔1946بنارس میں آل
انڈیا سنی کانفرنس میں مریدوں سمیت شرکت کر کے مسلم لیگ کی حمایت کا سر عام اعلان کیا۔اس
تحریک اور وطن کے قیام کی خاطر کام کرنے کی پاداش میں آپ کو انگریز حکومت نے گرفتار
کر کے گوبر اور گندگی سے بھری کوٹھری میں بند رکھا جہاں نہ بیٹھا جاسکتا تھا اور نہ
نماز ادا کی جاسکتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعدوطن عزیز
میں اسلامی قانون اور نظام مصطفی کے نفاذکے لیے بھی ہمیشہ اپنی کوششوں کو جاری رکھا
اس کے لیے آپ نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے قائداعظم کو خط لکھا اور یاد دہانی
کروائی کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے۔جس کے جواب میں قائداعظم نے لکھا آپ اطمینان
رکھیں پاکستان میں یقینی طور پر اسلامی قانون نافذ ہوگا۔قائداعظم کے انتقال کے بعد
لیاقت علی خان سے دو گھنٹے کی ملاقات کی اور اس پر یہ واضح کرتے ہوئے کہ اسلامی قانون
کے نفاذ میں لیت ولعل کروگے تو مٹ جاؤ گے
اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔آپ نے ایک خط ذوالفقار علی بھٹو کو لکھا جب وہ وزیراعظم
تھے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے تم اس ملک کے وزیراعظم رہنے کے
حقدار نہیں یا تو یہ عہدہ چھوڑ دو یا توبہ تائب ہو کر اسلامی قانون کو فی الفور نافذ
کرو ،آپ نے اسی شرط پر ضیاالحق کی تائید و حمایت کی۔جب ضیا الحق نے اسلامی نظریاتی
کونسل بنائی تو اس کا عہدہ بھی اسی لیے سنبھالا کہ اس کے ذریعے نفاذ شریعت کی راہیں
ہموار کرنے کا موقع ملے گا اور یہ کار خیر ہے۔آپ نے 1953کی تحریک ختم نبوت میں بھی
حصہ لیا اور شاندار کردار ادا کیا اسی طرح 1974کی تحریک ختم نبوت میں بھی علماءو مشائخ
کی سرپرستی فرمائی اور عملاً اس تحریک میں شامل رہے جس کے نتیجے میں قادیانیوں کو آئینی
طور پر کافر قرار دیا گیا۔
آپ حسن اخلاق کے پیکر اور
اپنے بزرگوں کے سچے جانشین تھے۔ علما ومشائخ
کے طبقہ میں یکساں مقبول تھے، پاکستان کے مسلمانوں کی عظیم دینی و سیاسی تنظیم جمعیت
علماءپاکستان کے 1970کے شدید بحران اور اختلاف کی فضاءمیں بااتفاق رائے صدر منتخب کیے
گئے۔ میدان سیاست میں آپ کے قدم رنجہ فرمانے سے اہلسنت کا جمود ٹوٹا اور آپ کی محنت
کا نتیجہ تھا کہ جمعیت علمائے پاکستان نے پہلی دفعہ آپ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی
نشستیں حاصل کیں۔
خواجہ سیالوی نے مہاجرین
کی آباد کاری میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کا ہاتھ بٹانے کے علاوہ اپنے ذاتی
فنڈ سے بے شمار مہاجروں کے گھروں کو آباد گیا۔1965ءکی جنگ کے موقع پر آپ نے اپنی تمام
جمع پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کرادی اور اپنے مریدین اور معتقدین کو بھی اس میں بڑھ
چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا۔ آپ کے ایثار و قربانی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنے اہل
خانہ کے زیورات بھی ملک پر قربان کر دیے اور اپنے احباب کو قنوت نازلہ پڑھنے کا حکم
دیا۔ آپ بیحد خوددار اور غیور تھے۔ کبھی بھی ذاتی مفادات آپ کی رکاوٹ نہ بن سکے اسلامی نظریاتی
کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰن نے بتایا کہ قمر الدین سیالوی نے اسلامی
نظریاتی کونسل کے لیے ہمیشہ تنخواہ کے بغیر کام کیا ہے۔ حتیٰ کہ سفر کے اخراجات کے
لیے بھی آپ نے کبھی بھی حکومت سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔
اللہ رب العزت نے آپ کو عشق
مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی لازوال دولت سے بھی نوازا تھا۔عشق مصطفے کا یہ عالم تھا
کہ جب کہیں نام مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نظر آتا تو بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا اور سر
جھک جایا کرتا تھا۔اور چہرے کا رنگ زرد ہوجاتا جب کہیں نقش نعل پاک دیکھتے تو اس کو
چومتے اور اس نقش کے نیچے سر جھکا کر دیر تک کھڑے رہتے۔موذن اذان میں جب حضور سید عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا تو سن کر جواباً عشق و مستی میں انگوٹھے چوم کر آنکھوں
پر لگاتے اور یہ پڑھتے تھے قرة عینی بتراب اقدام کلابک یا رسول اللہ
آپ نے عمر بھر کبھی سبز جوتا
نہیں پہنا اور نہ ہی سبز رنگ کی لنگی استعمال کی اور نہ ہی کبھی سبز گھاس پر چلے بلکہ
اپنے مریدین کو بھی ان سے منع فرماتے اور کہا کرتے روضہ مبارک کا رنگ سبز ہے اور ایسا
کرنے سے بے ادبی لازم آتی ہے۔
شیخ الاسلام جب پہلی مرتبہ
روضہ اطہر پر حاضر ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس قیمتی پتھر ہیرے جواہرات اور یاقوت وغیرہ
تھے جو وہیں روضہ انور پر نذرانہ کر دیے۔آپ نے مدینہ منورہ میں ایک بوڑھی عورت کی مدد
حاصل کی جو آپ کو مدینہ منورہ کے سادات کے گھروں تک لے جاتی اور آپ ان سادات مدینہ
منورہ کی خدمت کرتے۔
حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی
علیہ 18جولائی 1981 کی ایک صبح سرگودھا سے چند میل دور ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوئے
دو دن بعد اسی حادثے کے باعث 20جولائی بمطابق 17رمضان المبارک 1401ھ کو انتقال فرما
گئے ۔تونسہ شریف کے سجادہ نشین خواجہ غلام معین الدین تونسوی نے آپ کی نماز جنازہ کی
امامت کروائی اور آپ کو 21جولائی کو آپ کے والد مکرم خواجہ ضیا الدین سیالوی رحمہ اللہ
تعالیٰ کے قدموں میں سپرد خاک کیا گیا۔ریڈیو و اخبارات کے مطابق تقریباً پچاس ہزار سے زائد
افراد نے جنازہ میں شرکت کی۔
کوئی تبصرے نہیں