سندر جذبوں کو حساس روپ دینے والی شاعرہ ذکیہ غزل

انٹرویو ۔ محمد بخش

ٹیلنٹ فورم“ میں ہم ہمیشہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو مدعوکرتے ہیں۔ اس مرتبہ ہمارے اس فورم میں شاعرہ محترمہ ذکیہ غزل صاحبہ تشریف لائی ہیں ، آپ نئی نسل کی نمایندہ شاعرہ ہیں۔ جن کی بنیادی پہچان شاعری ہے۔ آپ ملکی اور غیر ملکی سطح پر متعدد مشاعروں میں شرکت کرچکی ہیں اور بالخصوص اپنے خوبصورت ترنم کے باعث عوام الناس میں مقبول ہیں۔ آپ نے ایک ٹیلنٹڈ اور آٹ اسٹینڈنگ طالبہ کی حیثیت سے جو سفر شروع کیا تھا اور موجودہ مقام تک کس طرح پہنچی ہیں اس بارے میں جان کر یقینا قارئین کے ہمت و حوصلے میں اضافہ ہوگا۔

ملک بیچ دیتے ہو بے ضمیر ہو اتنے

کیا تمہارے بچوں کا اور کوئی ٹھکانہ ہے

اس خوبصورت شعر کی خالق شاعرہ سے ملاقات کا احوال نذر قارئین ہے۔

سوال:۔ دوران تعلیم آپ اپنی غیر نصابی سرگرمیوں کا احوال بتائیں۔

جواب:۔ میں نے ہمیشہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔9thکلاس میں تھی تو اس وقت پہلا شعرکہا ، پھر جب کالج میں پہنچی تو انٹر کالجیٹ کی سطح پر منعقدہ مشاعروں میں بھرپور شرکت کرتی تھی۔ تین گولڈ میڈل اور متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔ اس کے علاوہ نعت خوانی اور قومی نغموں مقابلوں میں حصہ لیا۔ ٹی وی اور ریڈیو کے پروگراموں میں بھی شرکت کی۔ اپوا گرلز کالج میں یونین کی منتخب صدر بھی رہی ، یعنی زمانہ طالب علمی بھرپور انداز میں گزرا۔

سوال:۔ اس سلسلے میں والدین اور اب شوہرکا تعاون کس حد تک حاصل رہا؟

جواب:۔ مجھے گھر والوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔ خاص طور پر والد محترم میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے، مختلف پروگراموں میں شرکت کرانے کے لیے میرے ہمراہ جاتے تھے۔ البتہ والدہ کبھی کبھار اعتراض کرتی تھیں۔ شادی کے بعد مجھے اپنے شوہر وسیم قریشی کا بھرپور تعاون ملا اور میں اب ان کے ہمراہ اندرون ملک اور بیرون ملک مشاعروں میں شرکت کرتی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی ممتاز اداکارہ عائشہ خان فن اداکاری میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں

سوال:۔ آپ کے خیال میں شاعری کی تعریف کیا ہے؟

جواب:۔ میرے ذاتی خیال میں کوئی بھی شاعر اپنے محسوسات کو کم سے کم الفاظ میں دوسروں تک پہنچائے، اور اشعار ایسے ہوں کہ جو دل پر اثرکریں۔

سوال:۔ سینئر شعرا اپنے جونیئر شعرا کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، کیا یہ رائے درست ہے؟

جواب:۔ کسی حد تک درست بھی ہے۔ ہمارے کچھ سینئر شعرا مشاعروں میں نئے شعرا کا نام تک دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں استادی اور شاگردی والا رشتہ باقی نہیں ہے۔ جس کی بنا پر بھی نئے شعرا کو اپنی اصلاح کے لیے کوئی درست سرپرستی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر کوئی نوجوان شاعر کسی سینئر سے اصلاح لیتا ہے تو اس پر ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے کہ یہ تو فلاں شاعر سے کلام لکھوا کر لاتا ہے اور مشاعرے میں پڑھ دیتا ہے۔

سوال:۔ شاعروں کو نمایاں کرنے میں سرکاری الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کا کیا رول ہے؟

جواب:۔ یقینا جدید دور میں میڈیا نے شعر و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر باقاعدہ گروپ بندی ہے۔ صرف اور صرف سینئر شعرا کا مکمل قبضہ ہے۔ بمشکل کسی مشاعرے میں 2 یا 3 جونیئر شعرا بلائے جاتے ہیں ، جبکہ 12 شعرا سینئر ہوتے ہیں۔ اس تناسب کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ اخبارات کے ادبی صفحات کا رول بہرحال بہت اہم ہے۔ جنھوں نے نوجوان شعرا کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے۔

سوال:۔ ” آج کل مشاعرے تفریح کے لیے منعقد ہوتے ہیں۔“ کیا آپ اس رائے سے متفق ہیں؟

جواب:۔ میں مشاعرے کو تفریح کا باعث نہیں سمجھتی ، اس رائے سے ہرگز متفق نہیں ہوں،کیونکہ لوگ مشاعرے میں بصد شوق شرکت کرتے ہیں اور صبح 5 بجے تک انتہائی سنجیدگی اور متانت سے شعرا کا کلام سنتے ہیں۔ سامع خواتین و حضرات شعرا کے کلام کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جو سینئر شعرا آج یہ بات کہتے ہیں وہ بھی ان مشاعروں کے ذریعے آج اس مقام تک پہنچے ہیں۔ لہٰذا انھیں منافقت ترک کر دینی چاہیے۔

سوال:۔ بھارت میں مشاعرے کی روایت کس حد تک مضبوط ہے؟

سوال:۔ بھارت میں اردو مشاعرے کی روایت بہت مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ وہاں پر لوگ ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ الٰہ آباد کے جس مشاعرے میں، میں شریک تھی۔ اس میں حاضرین کی تعداد 35 ہزار تھی۔ ترنم کے شعرا انڈیا میں زیادہ ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ ”کمرشل پوائنٹ آف ویو“ کا عملی دخل ہے۔ شعرا کو مالی فوائد بھی زیادہ حاصل ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تعلیم سے مجرمانہ غفلت نے قوم کا مستقبل تاریک کردیا ہے، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم

سوال:۔ صنف سخن کو ”مردانہ شاعری“ اور ”زنانہ“ شاعری میں تقسیم کیا جاسکتا ہے؟

جواب:۔ شاعری کو زنانہ اور مردانہ ڈبوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ محسوسات اور احساسات کا تھوڑا سا فرق ہوتا ہے۔ عورت کی شاعری میں حساسیت اور نرمی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

سوال:۔ کیا کسی شاعر، ادیب کی ادبی حیثیت کا تعین ”کتابوں کی تعداد اشاعت“ سے کیا جاسکتا ہے؟

جواب:۔ ہرگز نہیں! آج کل کتابیں دھڑا دھڑ چھپ رہی ہیں ، جن کا قطعاً کوئی معیار نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان کی شاعری دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب تک شاعری میں پختگی نہ آ جائے۔ اس وقت تک کتاب نہیں چھپنی چاہیے۔ بس جی! آج کل کتابیں وزیٹنگ کارڈ بن چکی ہیں۔

٭٭٭

ذکیہ غزل کے کلام سے انتخاب

غزل

درد جب حد سے بڑھا کملا دیے
ہجر نے کیسے سخن لکھوا دیے
کچھ تو ہم بھی آندھیوں کی زد میں تھے
کچھ ہوا نے پیرہن الجھا دیے
تیرے آنے کی خبر ہم کو نہ تھی
پھول چوکھٹ پر یوں ہی بکھرا دیے
رچ گئی مٹی کی خوشبو سانس میں
بارشوں نے صحن جب مہکا دیے
زرد موسم کی تپش نے دیکھنا
کتنے چہروں کو گہن لگوا دیے
جب امیر شہر نے حق رد کیا
جھوٹ نے سچ کو کفن پہنا دیے
دوسرا چہرہ سجا کے آپ نے
آئینے کیوں بام پر رکھوا دیے
رت جگوں کے خوف سے ہم نے غزل
خواب اپنے رہن سب رکھوا دیے
٭....٭....٭

غزل

اک دعا جوکام آگئی
مجھ کو راستہ دکھا گئی
سیل غم سے لڑ کے اک لہر
حوصلہ مرا بڑھا گئی
شام نے رکھا تھا آس پر
رات فیصلہ سنا گئی
حوصلے لگے ہیں ٹوٹنے
پھر تمہاری یاد آگئی
جانے لوٹ کے کب آﺅ تم
اب جدائی جاں پہ آگئی
تیرا نام جب بھلا دیا
دل کی بے بسی رلا گئی
نفرتوں کی اک ہوا چلی
آگ شہر میں لگا گئی
منزلوں کے شوق میں غزل
اپنی کشتیاں جلا گئی
٭....٭....٭

غزل

بے دل اور بے جان بہت ہیں
ہم اپنی پہچان بہت ہیں
دنیا کی اس بھیڑ میں لوگو
کھونے کے امکان بہت ہیں
کب کوئی اپنا لگتا ہے!
ملتے تو انسان بہت ہیں
چلتے پھرتے جسموں میں بھی
روحوں کے فقدان بہت ہیں
لفظ ہمارے سچے موتی
کہہ دو ہم نادان بہت ہیں
تنہائی اور یاد تمہاری
جینے کے سامان بہت ہیں
غیروں سے کیا شکوہ کرنا
اپنے ہی انجان بہت ہیں
من کی سوکھی دھرتی پر بھی
بارش کے امکان بہت ہیں
بچے گھر میں ہی رہتے ہیں
گلیاں اب ویران بہت ہیں
بوڑھا برگد‘ ایک کہانی
پنگھٹ بھی سنسان بہت ہیں
٭....٭....٭

کوئی تبصرے نہیں