پاکستان کی ممتاز اداکارہ عائشہ خان فن اداکاری میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں
عائشہ خان |
پھر ٹی
وی کی آمد ہوئی لوگوں میں ہر طرف بے چینی اور جستجو پھیل گئی۔ کیا اب ہم جن ڈراموں
کو صرف سنتے ہیں انھیں دیکھ بھی سکیں گے۔ یہ بات ان کے اشتیاق اور بے چینی میں اضافہ
کر رہی تھی اور پھر ریڈیو سے کئی گنا بڑا اور ایک ڈبہ ایجاد ہوا۔ ایسا ڈبہ جس میں لوگ
چلتے پھرتے بات کرتے نظر آتے تھے۔ لوگوں کا تجسس اور اشتیاق قابل دید تھا۔ ٹی وی آناً
فاناً لوگوں کی تمام تر دلچسپی کا محور بن گیا مگر یہاں بھی وہی مشکل آڑے آئی کہ خواتین
فنکاروں کو کیسے ڈھونڈا جائے اور انھیں کام پر آمادہ کیا جائے کیونکہ اس زمانے میں
تو انھیں ریڈیو پر کام کرنے کی بھی بمشکل اجازت ملتی تھی کیونکہ ریڈیو پر صرف آواز
سنی جاتی تھی چہرہ نظر نہ آتا تھا مگر ٹی وی پر تو آواز اور چہرہ دونوں ہی لوگوں کے
سامنے ہوں گے بہرحال اس بار بھی ریڈیو کی خواتین فنکارائیں کام کرنے کے لیے آگے بڑھیں
کیونکہ ریڈیو پر ایک عرصہ کام کر کے انہوں نے اپنے خاندان کا ایک ذہن بنا دیا تھا اور
ان کی دقیانوی سوچ میں کسی حد تک تبدیلی بھی پیدا کر دی تھی اور تب ہی عائشہ خان کو
بھی ٹی وی پر کام کرنے کی پیش کش ہوئی اور عائشہ ریڈیو سے ٹی وی کی طرف آگئیں اس وقت
ٹی وی انتہائی نامساعد حالات کا شکار تھا۔ سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن تب فنکاروں
کا جوش وجذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ ان میں محنت اور لگن موجود تھی۔ ان دنوں چونکہ پروگرام
ریکارڈ کر کے دکھانے کی پوری سہولت موجود نہ تھی لہٰذا ڈرامے لائیو چلا کرتے تھے اور
یہ انتہائی مشکل امر تھا فنکار کو اپنی ریہرسلز میں اپنے تمام جملے اور حرکات و سکنات
کا سمجھ لینا ضروری تھا۔ کیونکہ ڈرامہ شروع ہو تا تو آخر تک انھیں پوری طرح حاضر دماغ
رہنا پڑتا تھا کیونکہ لاکھوں لوگوں کی نظریں ان پر ہوتی تھیں۔ لہٰذا عائشہ نے ایسے
ہی مشکل اور کٹھن وقت میں اپنے ٹی وی کے کیریئر کا آغاز کیا۔ ٹی وی پر ابتدائی دور
میں ان کے کئی ڈرامے بے حد مقبول ہوئے۔ جن میں گڑیا گھر، تلاش، کفارہ اور افشاں وغیرہ
شامل ہیں۔ ”گڑیا گھر“ عائشہ کا ٹی وی پر پہلا ڈرامہ تھا۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے ابتدائی
دور کے ڈراموں میں تلاش اور کفارہ کے کردار بہت پسند ہیں۔ ”تلاش“ میں انہوں نے ایک
نیکی لڑکی کا کردار کیا تھا۔ جو انتہائی مشکل تھا مگر ان کی کارکردگی پسند کی گئی تھی۔
جبکہ کاظم پاشا کے ڈرامہ ”کفارہ“ میں انہوں نے ایک بیوہ عورت کا رول کیا تھا جس کے
شوہر کو آصف رضا میر اپنی گاڑی سے ایکسیڈنٹ کر کے ہلاک کر دیتا ہے اور پھر اس بیوہ
کی مدد کرتا رہتا ہے جبکہ وہ عورت نہیں جانتی کہ وہ اس کے شوہر کا قاتل ہے بلکہ وہ
اسے اپنا محسن سمجھتی ہے۔ آخر میں وہ اسے شادی کی پیش کش کرتا ہے جبھی یہ بات بھی اس
پر کھل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عائشہ خان ”افشاں“ کو اپنے کیریئر کا یادگار سیریل سمجھتی
ہیں وہ سیریل ان کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ اس کے ساتھ ہی انھیں ملک گیر
شہرت نصیب ہو گئی اس میں انہوں نے شکیل کی بیوی کا کردار کیا جو جلا وطن ہو جاتا ہے
اور وہ اپنے میکے میں رہ کر اپنے بیٹے کی اکیلے پرورش کرتی ہے۔ اس سیریل نے بے انتہا
مقبولیت حاصل کی تھی۔ عائشہ نے اپنے اب تک کے کیریئر میں مختلف نوعیت کے رولز کیے انہوں
نے نہ صرف مثبت بلکہ منفی کرداروں میں بھی خود کو منوایا۔ ان کے منفی کرداروں میں
”اگر“ کا کردار نا قابل فراموش ہے جو ایک بھرپور منفی کردار تھا۔ جبکہ انہوں نے ابھی
چند سال پہلے سے ”رابعہ زندہ رہے گی“ نامی سیریل میں بھی ایک خوبصورت منفی کردار ادا
کیا۔ جبکہ کراچی مرکز سے حال ہی میں ختم ہونے والی سیریل ”خواب و خیال“ میں بھی وہ
منفی کردار میں نظر آئیں۔ عائشہ خان کا کمال یہ ہے کہ وہ منفی کردار ادا کرتی ہیں تو
اپنے چہرے کے تاثرات کو مکمل طور پر منفی رنگ دے دیتی ہیں اور جب مثبت کردار ادا کرتی
ہیں تو ان کے چہرے کی نرمی اور معصومیت اپنے پورے عروج پر ہوتی ہے اور شاید یہی ایک
بڑے فنکار کا کمال ہے کہ وہ جب بھی کوئی کردار کرے تو اس میں خود کو اس طرح ڈھال لے
کہ وہ اس کا حصہ نظر آنے لگے۔
کوئی تبصرے نہیں