پاکستان کی ممتاز اداکارہ عائشہ خان فن اداکاری میں ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں

عائشہ خان
نزہت سمن

 فن فنکار کے اندر کی وہ پیاس ہے جسے وہ ساری زندگی بجھانے کی کوشش کرتا ہے مگر بجھا نہیں پاتا۔ وہ جب کوئی کردار کر رہا ہوتا ہے تو اس میں ڈوب جاتا ہے اور اسے حقیقت کا رنگ دینے کے لیے اپنے جذبات اور احساسات کی تمام گہرائیاں اسے عطا کر دیتا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے۔ فنکاری بھی دکانداری بنتی جا رہی ہے۔ آج کے فنکار کردار سے زیادہ معاوضے کی فکر میں ہوتے ہیں اور زیادہ تر فنکار ایک وقت میں کئی کئی سیریلز کر رہے ہوتے ہیں اور کئی کئی کرداروں کو بھگتا رہے ہوتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کما سکیں۔ انھیں کردار کی معنویت یا مقصدیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ صرف چند فنکار ایسے ہیں جو آج بھی اس نفسا نفسی کے دور میں اپنی پرفارمنس اور کار کردگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ انھیں اپنے کردار اور اس کی نوعیت سے دلچسپی ہوتی ہے اور وہ با قاعدہ اسٹڈی کر کے اس کردار کی گہرائیوں میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر نئے فنکاروں میں ایسے چند ہی نام ہیں۔ جبکہ اگر ہم پرانے اور سینئر فنکاروں کو دیکھیں تو انھیں آج بھی اپنے کام کے معیار کی فکر ہوتی ہے۔ وہ اب بھی اپنا ہوم ورک مکمل کرتے ہیں اور سیٹ پر جانے سے پہلے اپنے کردار کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں اور اسکرپٹ کا مطالعہ کر لیتے ہیں ان سینئر فنکاروں میں ایک نام عائشہ خان کا بھی ہے۔ عائشہ نے ریڈیو سے اپنے فن کا سفر شروع کیا تھا اور پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد آج ٹی وی کی ایک معروف اور صف اول کی فنکارہ کا درجہ پانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ عائشہ نے جب ریڈیو پر کام شروع کیا تھا۔ تب ریڈیو کا بھی ابتدائی دور تھا اور اس زمانے میں خواتین کے لیے ریڈیو پر کام کرنا بھی انتہائی معیوب بات سمجھی جاتی تھی مگر عائشہ نے اپنے شوق کی بدولت ان تمام رکاوٹوں کا سامنا کیا اور بڑی مستقل مزاجی اور بردباری سے ریڈیو پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگوں میں ریڈیو کا کریز تھا۔ ٹی وی کی رسائی پاکستان تک نہ ہو سکی تھی اور لوگوں کے لیے تفریح کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا۔ ریڈیو کے سارے ہی پروگرامز لوگوں میں مقبول تھے خواہ وہ موسیقی کے پروگرامز ہوں، دستاویزی پروگرامز ہوں، ڈرامے ہوں یا کرنٹ افیئر کے پروگرامز گھروں میں سارا دن ریڈیو کھلا رہتا تھا اور خواتین اپنے گھریلو امور کے ساتھ ساتھ ریڈیو کے پروگرامز بھی انتہائی ذوق وشوق سے سنا کرتی تھیں اور پروگرام کے بارے میں باقاعدہ خطوط لکھ کر اپنی رائے کا اظہار کیا کرتیں۔ ایسے میں جب خواتین کے لیے اداکاری کے شعبے کو معیوب سمجھا جاتا تھا تو اس شعبے میں خواتین کا عمل دخل آٹے میں نمک کے برابر تھا اور جو چند خواتین ریڈیو پر صدا کاری کیا کرتیں وہ عام خواتین میں بے حد مقبول ہوا کرتی تھیں اور ان میں ایک نام عائشہ خان کا بھی تھا جو ریڈیو سے ہر نوعیت کا پروگرام کرتی تھیں۔ خواہ وہ کسی پروگرام کی میزبانی ہو ، خطوں کا جواب دینا ہو یا ڈراموں میں اداکاری ہو۔ عائشہ ریڈیو کی مستقل ملازم تھیں لہٰذا وہ وہاں مختلف امور انجام دیا کرتی تھیں مگر چونکہ ان کی خاص دلچسپی ڈرامے کے شعبے میں تھی لہٰذا وہ زیادہ تر ڈراموں میں اداکاری کیا کرتیں اور اس دور میں انہوں نے لاتعداد اور مقبول ڈرامے کیے جو ریڈیو کے سامعین کی دلچسپی کا باعث بنے اور عائشہ ریڈیو کی ایک ہر دلعزیز اداکارہ قرار پائیں۔

پھر ٹی وی کی آمد ہوئی لوگوں میں ہر طرف بے چینی اور جستجو پھیل گئی۔ کیا اب ہم جن ڈراموں کو صرف سنتے ہیں انھیں دیکھ بھی سکیں گے۔ یہ بات ان کے اشتیاق اور بے چینی میں اضافہ کر رہی تھی اور پھر ریڈیو سے کئی گنا بڑا اور ایک ڈبہ ایجاد ہوا۔ ایسا ڈبہ جس میں لوگ چلتے پھرتے بات کرتے نظر آتے تھے۔ لوگوں کا تجسس اور اشتیاق قابل دید تھا۔ ٹی وی آناً فاناً لوگوں کی تمام تر دلچسپی کا محور بن گیا مگر یہاں بھی وہی مشکل آڑے آئی کہ خواتین فنکاروں کو کیسے ڈھونڈا جائے اور انھیں کام پر آمادہ کیا جائے کیونکہ اس زمانے میں تو انھیں ریڈیو پر کام کرنے کی بھی بمشکل اجازت ملتی تھی کیونکہ ریڈیو پر صرف آواز سنی جاتی تھی چہرہ نظر نہ آتا تھا مگر ٹی وی پر تو آواز اور چہرہ دونوں ہی لوگوں کے سامنے ہوں گے بہرحال اس بار بھی ریڈیو کی خواتین فنکارائیں کام کرنے کے لیے آگے بڑھیں کیونکہ ریڈیو پر ایک عرصہ کام کر کے انہوں نے اپنے خاندان کا ایک ذہن بنا دیا تھا اور ان کی دقیانوی سوچ میں کسی حد تک تبدیلی بھی پیدا کر دی تھی اور تب ہی عائشہ خان کو بھی ٹی وی پر کام کرنے کی پیش کش ہوئی اور عائشہ ریڈیو سے ٹی وی کی طرف آگئیں اس وقت ٹی وی انتہائی نامساعد حالات کا شکار تھا۔ سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن تب فنکاروں کا جوش وجذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ ان میں محنت اور لگن موجود تھی۔ ان دنوں چونکہ پروگرام ریکارڈ کر کے دکھانے کی پوری سہولت موجود نہ تھی لہٰذا ڈرامے لائیو چلا کرتے تھے اور یہ انتہائی مشکل امر تھا فنکار کو اپنی ریہرسلز میں اپنے تمام جملے اور حرکات و سکنات کا سمجھ لینا ضروری تھا۔ کیونکہ ڈرامہ شروع ہو تا تو آخر تک انھیں پوری طرح حاضر دماغ رہنا پڑتا تھا کیونکہ لاکھوں لوگوں کی نظریں ان پر ہوتی تھیں۔ لہٰذا عائشہ نے ایسے ہی مشکل اور کٹھن وقت میں اپنے ٹی وی کے کیریئر کا آغاز کیا۔ ٹی وی پر ابتدائی دور میں ان کے کئی ڈرامے بے حد مقبول ہوئے۔ جن میں گڑیا گھر، تلاش، کفارہ اور افشاں وغیرہ شامل ہیں۔ ”گڑیا گھر“ عائشہ کا ٹی وی پر پہلا ڈرامہ تھا۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے ابتدائی دور کے ڈراموں میں تلاش اور کفارہ کے کردار بہت پسند ہیں۔ ”تلاش“ میں انہوں نے ایک نیکی لڑکی کا کردار کیا تھا۔ جو انتہائی مشکل تھا مگر ان کی کارکردگی پسند کی گئی تھی۔ جبکہ کاظم پاشا کے ڈرامہ ”کفارہ“ میں انہوں نے ایک بیوہ عورت کا رول کیا تھا جس کے شوہر کو آصف رضا میر اپنی گاڑی سے ایکسیڈنٹ کر کے ہلاک کر دیتا ہے اور پھر اس بیوہ کی مدد کرتا رہتا ہے جبکہ وہ عورت نہیں جانتی کہ وہ اس کے شوہر کا قاتل ہے بلکہ وہ اسے اپنا محسن سمجھتی ہے۔ آخر میں وہ اسے شادی کی پیش کش کرتا ہے جبھی یہ بات بھی اس پر کھل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ عائشہ خان ”افشاں“ کو اپنے کیریئر کا یادگار سیریل سمجھتی ہیں وہ سیریل ان کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا کیونکہ اس کے ساتھ ہی انھیں ملک گیر شہرت نصیب ہو گئی اس میں انہوں نے شکیل کی بیوی کا کردار کیا جو جلا وطن ہو جاتا ہے اور وہ اپنے میکے میں رہ کر اپنے بیٹے کی اکیلے پرورش کرتی ہے۔ اس سیریل نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی تھی۔ عائشہ نے اپنے اب تک کے کیریئر میں مختلف نوعیت کے رولز کیے انہوں نے نہ صرف مثبت بلکہ منفی کرداروں میں بھی خود کو منوایا۔ ان کے منفی کرداروں میں ”اگر“ کا کردار نا قابل فراموش ہے جو ایک بھرپور منفی کردار تھا۔ جبکہ انہوں نے ابھی چند سال پہلے سے ”رابعہ زندہ رہے گی“ نامی سیریل میں بھی ایک خوبصورت منفی کردار ادا کیا۔ جبکہ کراچی مرکز سے حال ہی میں ختم ہونے والی سیریل ”خواب و خیال“ میں بھی وہ منفی کردار میں نظر آئیں۔ عائشہ خان کا کمال یہ ہے کہ وہ منفی کردار ادا کرتی ہیں تو اپنے چہرے کے تاثرات کو مکمل طور پر منفی رنگ دے دیتی ہیں اور جب مثبت کردار ادا کرتی ہیں تو ان کے چہرے کی نرمی اور معصومیت اپنے پورے عروج پر ہوتی ہے اور شاید یہی ایک بڑے فنکار کا کمال ہے کہ وہ جب بھی کوئی کردار کرے تو اس میں خود کو اس طرح ڈھال لے کہ وہ اس کا حصہ نظر آنے لگے۔


کوئی تبصرے نہیں