پی ٹی وی کراچی مرکز کی پہلی خاتون اناؤنسر اور پاکستان کی پہلی پی آر ایم غزالہ یاسمین

گفتگو: نزہت سمن


آتے جاتے بہت سے لوگ زندگی میں ملتے ہیں۔ وقت کی دھند میں جن کے چہرے گم ہو جاتے ہیں اور گزرتے لمحوں کے ساتھ جن کی شخصیت کا عکس بھی ماند پڑ جاتا ہے مگر کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو انمٹ تصویر کی طرح آنکھ کی پتلی میں قید ہو جاتے ہیں اور کچھ شخصیات بھی ایسی ہوتی ہیں جو ذہن کے پردے پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہیں اور غزالہ یاسمین بھی ایک ایسی ہی شخصیت کا نام ہے جو پچھلے سترہ اٹھارہ برسوں سے پاکستان ٹیلی وژن کراچی سینٹر کے پبلک ریلیشننگ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں اور اپنی محنت اور لگن سے پی آر او سے پی آر ایم کے عہدے پر پہنچیں۔ غزالہ وہ واحد خاتون ہیں جنھیں پی ٹی وی کے پانچوں مراکز میں سے پہلی بار اس عہدے کے لیے چنا گیا۔ غزالہ نے 1967 میں پہلی بار ٹی وی پہ قدم رکھا تھا جو کراچی مرکز کا پہلا دن تھا۔ اس دن غزالہ نے بحیثیت اناؤنسر اپنے فرائض انجام دیے۔ یوں وہ کراچی مرکز کی پہلی خاتون اناؤنسر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں اور پھر رفتہ رفتہ قدم بڑھاتے ہوئے آج وہ اس اہم ترین منصب پہ پہنچی ہیں۔

پی آر کا شعبہ ایک انتہائی ذمہ داری والا شعبہ ہے۔ اس کی بنیاد Public Dealing پر ہے اور اس کے لیے عہدیدار میں قوت برداشت کا ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ مختلف النوع لوگوں سے تعلقات استوار کرسکے اور ہر شخص کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اس سے ڈیل کرے اور ایک عورت ہوتے ہوئے غزالہ نے یہ ذمہ داری خوش اسلوبی سے نبھائی اور اپنی خوش اخلاقی اور درگزر کی عادت سے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ یوں تو خامیوں سے کوئی مبرا نہیں اور بندہ بشر کبھی کبھار کام کے دباؤ یا دوسری وجوہات کی بنا پر غلطیاں بھی کر بیٹھتا ہے اور لوگوں کو ناراض بھی کرلیتا ہے لہٰذا ایسے واقعات غزالہ کے ساتھ بھی پیش آئے اور انھوں نے اپنے کیریئر میں بہت سی ناراضگیاں بھی بھگتائیں لیکن نسبتاً ان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ انھوں نے اپنے رویے اور عادات کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اپنے اسٹاف اور اعلیٰ عہدیداران کو بلکہ اپنے پاس آنے والے ہر شخص کو متاثر کیا۔

غزالہ کو شاذ و نادر ہی فارغ دیکھا جاتا ہے وہ عموماً کسی نہ کسی جھمیلے میں الجھی نظر آتی ہیں اور ٹی وی میں ہونے والے چھوٹے بڑے پروگراموں کی ارینجمنٹ بھی ان کے ذمہ ہے۔ جبکہ کراچی ٹی وی کا دورہ کرنے والے ہر خاص و عام مہمان کا سواگت اور خاطرداری بھی انھی کی ذمہ داری ہے۔ اپنی ذمہ داری سے زیادہ کام کرنے کے باوجود ہم نے کبھی ان کی پیشانی پہ بل نہ دیکھے اور نہ کبھی انھیں کسی پر چیختا چلاتا پایا۔ بلاشبہ یہ ان کی ہمت، مستقل مزاجی اور قوت برداشت ہے کہ انھوں نے آج تک اپنی تمام ذمہ داریوں کو بہ حسن خوبی نبھایا۔ تو آئیے غزالہ کے کیریئر اور زندگی پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔

سوال۔ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیے؟

جواب۔ میں دہلی میں پیدا ہوئی۔ کراچی میں بچپن گزرا اور یہیں سے تعلیم حاصل کی۔ میں نے اسلامیہ کالج کراچی سے بی اے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد ملازمت شروع کی۔

سوال۔ آپ نے جب ٹی وی پر ملازمت کا ارادہ کیا تو خاندان کی طرف سے کوئی اعتراض نہ ہوا۔ کیونکہ اس زمانے میں ٹی وی پر عورتوں کا کام کرنا بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا؟

جواب۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال فیملی میں آنکھ کھولی۔ ہرچند کہ میرا خاندان اپنی روایات اور اقدار کو بڑی اہمیت دیتا تھا مگر انھوں نے عورت مرد کی تخصیص کبھی نہیں کی۔ ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو ایک جیسی تعلیمی سہولیات میسر تھیں۔ ہم بہنوں نے اپنی اپنی مرضی سے تعلیم حاصل کی اور اپنی خوشی سے ملازمت کی۔ اس زمانے میں جب میں ابھی اسٹوڈنٹ تھی تب میری دو بڑی بہنیں ڈاکٹری کر رہی تھیں اور میں نے خود بھی اسلامیہ کالج میں کو ایجوکیشن میں پڑھا۔ ہمارے یہاں ان باتوں پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ہمارے والدین نے ہماری تربیت بہت بہترین انداز میں کی تھی اور ہمیں شروع ہی سے زندگی کے اچھے برے پہلو بتا دیے تھے۔ انھوں نے کبھی ہم پر پابندی نہیں لگائی بس صحیح غلط کی تمیز سکھا دی۔ لہٰذا یہ اسی تربیت کا اثر ہے کہ آپ آج تک مجھے دیکھ لیں کہ میں اس ادارے میں کام کرنے کے باوجود کبھی آپے سے باہر نہیں ہوئی ہمیشہ پروقار انداز میں کیا اور اپنی شخصیت پر کبھی تصنع یا بناوٹ کا ملمع نہ چڑھایا۔ 1967 میں جب میں نے ٹی وی کے لیے ویکنسی دیکھی اور کام کی خواہش ظاہر کی تو گھر والوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اس سلسلے میں میری پوری رہنمائی کی۔

سوال۔ شادی کے بعد بھی آپ کی ملازمت جاری رہی، پھر سسرال والوں کو تو کوئی اعتراض نہ ہوا؟

جواب۔ میری سسرال والے بھی خدا کے فضل و کرم سے میکے والوں کی طرح ہی تعلیم یافتہ اور سمجھ دار لوگ تھے۔ انھوں نے کبھی بھی مجھے اس بات کا احساس نہیں دلایا کہ مجھے گھر سنبھالنا چاہیے اور جاب نہیں کرنی چاہیے بلکہ انھوں نے میرے ساتھ بہت زیادہ تعاون کیا۔ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بیاہ کر گئی تھی مگر وہاں سب میں اتحاد اور اتفاق تھا۔ مجھے میری ساس کی طرف سے خاص طور پر بہت حوصلہ ملا وہ بڑی سمجھ دار خاتون تھیں اور انھوں نے ہمیشہ مجھے بیٹی کی طرح پیار دیا۔ اور میں نے بھی جاب کرنے کے باوجود کبھی بھی اپنی گھریلو ذمہ داریوں اور فرائض کو نظرانداز نہیں کیا اور کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔

سوال۔ دوران تعلیم آپ نے سوچ رکھا تھا کہ آپ کو کس فیلڈ کی طرف جانا ہے؟

جواب۔ نہیں! میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا تھا۔ بس یہی شوق تھا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کروں کیونکہ مجھ سے بڑی دو بہنیں ڈاکٹری پڑھ رہی تھیں لہٰذا میری بھی خواہش تھی کہ کم ازکم ماسٹرز تو کروں پھر تعلیم ختم ہونے کے بعد جاب کا سوچا تو اتفاق سے ان ہی دنوں پی ٹی وی کی ویکنسی آگئی یوں میں ادھر آگئی۔

سوال۔ پی ٹی وی شوبز کا ادارہ ہے۔ کبھی آپ کو اس ماحول سے کسی قسم کی گھبراہٹ ہوئی؟

جواب۔ پی ٹی وی ایک منظم اور مستحکم ادارہ ہے۔ یہاں صرف میں ہی نہیں سیکڑوں خواتین کام کر رہی ہیں اور ماشا اللہ سب ہی اچھی فیملیز سے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ یہاں مختلف شعبوں پہ کام ہوتا ہے اور سب کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں۔ میری ذمہ داریوں کی نوعیت کچھ یوں ہے کہ میں اپنے کمرے یا اپنی کرسی سے بہت کم اٹھ پاتی ہوں۔ بعض اوقات ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے شام ہو جاتی ہے۔ لہٰذا میں تو اپنے فرائض کی ادائیگی تک محدود ہوکر کام کرتی ہوں اور دوسری خواتین بھی اپنی اپنی ذمہ داریوں میں دلچسپی لیتی ہیں اور پھر پی ٹی وی کے ماحول میں کوئی خرابی بھی نہیں تھی کہ میں گھبراتی۔ وہاں ابھی بھی بڑے باوقار بڑے انداز میں کام ہو رہا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر ادارے میں کچھ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں جو ماحول بناتے ہیں لہٰذا پی ٹی وی میں بھی ایسے چند لوگ ہوں گے جو اپنے مقصد اور فرائض سے زیادہ غیر ضروری سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے ہوں گے اور اسی وجہ سے لوگوں میں غلط تاثر پیدا ہوا ہے۔

سوال۔ آپ کے شوہر آفتاب عظیم بھی شروع ہی سے پی ٹی وی سے وابستہ ہیں یا کچھ اور بھی کرتے ہیں؟

جواب۔ دوران تعلیم آفتاب کی خواہش تھی کہ وہ فوج میں جائیں اور پھر تعلیم ختم ہونے کے بعد وہ فوج میں چلے بھی گئے مگر چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد انھیں ایسا لگا کہ گویا وہ اس شعبے کے لیے موزوں نہیں لہٰذا پھر انھوں نے وہ ملازمت ترک کی اور کراچی آگئے جہاں ان دنوں پی ٹی وی کی ویکنسی نکلی ہوئی تھی انھیں موسیقی وغیرہ سے کچھ خاص لگاؤ تھا لہٰذا انھوں نے بحیثیت میوزک ڈائریکٹر کام شروع کیا۔ پہلے انھوں نے اسلم اظہر سے چار سال کی ٹریننگ لی پھر تجربہ حاصل کرنے کے لیے بچوں کے پروگرامز کیے اور پھر باقاعدہ میوزک کے پروگرامز شروع کیے اور پی ٹی وی میں پاپ میوزک کی بنیاد رکھنے والے آفتاب عظیم ہی ہیں انھوں نے ہی کراچی مرکز سے اس سلسلے کا پہلا پروگرام کیا تھا۔ اس کے علاوہ جھنکار اور سنڈے کے سنڈے نامی پروگرام سے کافی شہرت حاصل کی۔ یہ دونوں انعام یافتہ پروگرام قرار پائے اس کے علاوہ ان کے کریڈٹ میں ہرتان ہے دیپک، کمال شو اور نیلام گھر وغیرہ جیسے مقبول پروگرام بھی کیے۔

میوزک کے علاوہ آفتاب نے حالات حاضرہ اور اسپورٹس کے بھی بہت سے پروگرام کیے اور پھر 1978 میں انھوں نے ”اقرا“ کے نام سے قرآنی تعلیمات کا پروگرام شروع کیا اور پھر مذہبی پروگراموں کے لیے ہی مخصوص ہوکر رہ گئے اور اب تک لاتعداد مقبول پروگرامز کرچکے ہیں اور کئی ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔ آفتاب نے کچھ عرصہ پی آئی اے کے لیے بھی خصوصی مذہبی پروگرام تیار کیے۔

سوال۔ اپنے بچوں کے بارے میں کچھ بتائیے؟

جواب۔ میرے تین بچے ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا حسن پھر دو بیٹیاں آمنہ اور فاطمہ ہیں۔ حسن اور آمنہ کی شادی ہوچکی ہے جبکہ فاطمہ ابھی پڑھ رہی ہے۔

سوال۔ آپ کی بہو بھی ملازمت پیشہ ہیں؟

جواب۔ جی ہاں۔ ماشا اللہ میری بہو ارم ڈاکٹر ہے۔

سوال۔ آپ کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اس کے بعد کیا کریں گی؟

جواب۔ میں اپنی پیاری پوتی دعا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں گی۔ دعا مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے اور میرے لیے اس سے زیادہ خوبصورت لمحہ کوئی نہیں جب میں دعا کے ساتھ ہوتی ہوں۔

کوئی تبصرے نہیں