غزل

ڈاکٹر شاہد صدیقی


غزل

ہم جو پیدا ہوئے ہوں گے تو ایک اعلان ہوا ہوگا
فلاں محلہ کے اس مکان میں شیطان ہوا ہوگا
سنگ تراشی اس نظام کی کیسے زخم دیتی ہے
سینے میں کبھی جو دل تھا قبرستان ہوا ہوگا
نشہ علم کا بھی کسی جہالت سے کم نہیں ہوتا
نکھرنا کہاں تھا اس نے کہیں ویران ہوا ہوگا
دوستی ایسی رکھی مگر دشمنی بھی کوئی نہیں
پھینکا ہے تیر ایسا جو زہر سے اشنان ہوا ہوگا
بخیل ایسا سوائے اپنے اسے کچھ سوجھتا نہیں
سخی ہو چلا خوف کی دستک کا امکان ہوا ہوگا
بھنور میں پھنسے شخص سے ساحل کی تڑپ پوچھ
پیاسا نہیں پر پانی ہی موت کا سامان ہوا ہوگا

کوئی تبصرے نہیں