ممتاز فنکار اور دی اسکول آف ڈرامیٹک آرٹس کے سربراہ ڈاکٹر ایس این ایم شہزاد کی کھری کھری باتیں
انٹرویو: محمد بخش
تخلیق ایک ایسا ہنر ہے جو خدا ہر کسی کو ودیعت نہیں کرتا اور نہ ہی یہ ہر کسی کے بس کی بات ہے۔ جذبوں کی یہ جادوگری صرف وہی کرسکتے ہیں جو تخلیقی صلاحیتوں کے حامل ہوں اور ان کے اظہار کے لیے تمام کٹھن مراحل طے کرسکتے ہوں۔ کیونکہ فن کا سفر ایک ایسی خاردار راہ سے شروع ہوتا ہے جس پر پیر تو سبھی رکھ سکتے ہیں مگر ان پر مسکراتے ہوئے چلنا اور منزل تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
ہمارے یہاں فن کئی شعبوں
میں بٹا ہوا ہے اور جو شعبہ اس وقت سب سے کٹھن مرحلے سے گزر رہا ہے وہ تھیٹر ہے۔
تھیٹر جو فن کی بنیاد ہے۔ فنکار صحیح معنوں میں تب ہی اپنے فن کو مستند بنا پاتا
ہے جب وہ سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں لائیو پرفارمنس دے۔ لیکن یہ وہ تھیٹر نہیں
جو محض پیسہ کمانے اور جگت بازی کے ذریعے لوگوں کو ہنسانے کے لیے ہوتا ہے۔ بلکہ یہ
وہ تھیٹر ہے جو سنجیدہ کہلاتا ہے جس میں پیش ہونے والے ڈرامے زندگی کی سچی تصویر
ہوتے ہیں اور جو زندگی کی ساری کڑواہٹ، سارا کرب اور ساری سچائیاں اپنے دامن میں
سمیٹ سکتا ہے، اسے اس سے غرض نہیں کہ اس نے کیا پایا وہ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ
اس نے لوگوں کو کیا دیا اور ایسے ہی فنکار تخلیق کار کہلاتے ہیں اور ایک ایسا ہی
تخلیق کار آج آپ کے روبرو ہے۔ جس نے دولت، شہرت، نام و نمود سے بے نیاز ہوکر فن کی
خدمت کی ہے اور اس کی آبیاری کے لیے اپنے جذبوں کا لہو دیا ہے۔ ایس این ایم شہزاد
ایک ایسا فنکار ہے جو احساسات کو زندگی دینا جانتا ہے۔ جو اپنے تاثرات سے لوگوں کے
احساسات کو گرفت میں لے سکتا ہے اور انھیں ان آئینہ خانوں میں لے جاسکتا ہے جہاں
زندگی اپنی پوری سچائیوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ درحقیقت ڈاکٹر ایس این ایم شہزاد جیسے
لوگ ہی تخلیق کار کہلاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر ایس این ایم شہزاد
کی فن اور تھیٹر سے لگن کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمر رواں کے
پچیس برس انھوں نے اسی شعبے سے وابستگی میں گزار دیے۔ یہ وابستگی ان کے لیے ہمیشہ
قابل فخر رہی۔
آرٹس کونسل کراچی میں
چار سال تک تھیٹر کے فروغ کے لیے کام کیا۔ پھر پاک امریکن کلچر سینٹر، نیشنل کلچرل
اینڈ پرفارمنگ آرٹس (پی این سی اے) میں باقاعدہ ڈرامے کی کلاسیں شروع کیں ایک پورا
سلیبس تیار کیا۔ اسی سلیبس کے تحت زینت یاسمین اور عائشہ خان جیسی سینئر آرٹسٹوں
نے ڈاکٹر شہزاد کی سربراہی میں کورس مکمل کیا۔
لیکن ان تمام باتوں کے
باوجود ڈاکٹر ایس این ایم شہزاد نے محسوس کیا کہ حکومتی سطح پر نوجوانوں کی عملی
تربیت کے حوالے سے کوئی ٹھوس کام نہیں ہو رہا ہے۔ تو انھوں نے عملی تھیٹر کے فروغ
کے لیے خود ایک اسکول کی بنیاد رکھی جس کا انھوں نے خوبصورت نام تجویز کیا ”دی
اسکول آف ڈرامیٹک آرٹس“۔ انھوں نے اپنے اسکول میں تربیت کے تمام لوازمات کا خیال
رکھا ہے۔ انھوں نے کم جگہ کے باوجود طلبا کی راہ نمائی کے لیے ایک چھوٹا سا اوپن
ایئر اسٹیج، سیاہ بیک گراؤنڈ اور فلڈ لائٹس کا
انتظام کیا ہے تاکہ تھیٹر کا ماحول اجاگر ہو سکے۔ ایک کمرے میں تھیٹر سے متعلق
کتابیں ہیں جن سے طلبا استفادہ کرسکتے ہیں۔
جواب۔ آپ نے بہت اچھا
سوال کیا۔ یقینا پہلے مرحلے میں فنکار کو اپنی ذات کی نفی کرکے اپنے آپ کو کردار
کی شباہت میں ڈھالنا ہوتا ہے مثلاً اگر فقیر کا کردار ہے تو گیٹ اپ سے آپ کو فقیر
ہی نظر آنا چاہیے۔ دوسرے مرحلے میں اپنے لہجے سے ثابت کرنا ہے۔ یہی دوسرا مرحلہ
عملی تخلیق کے زمرے میں آتا ہے۔ مین بحیثیت استاد، اپنے طالب علموں کو پڑھاتا ہوں
تو انھیں اندر کے آدمی اور باہر کے آدمی کا فرق سمجھاتا ہوں۔ یقینا تھیٹر اداکار
کا میڈیم ہے کیونکہ ایک استاد (ڈائریکٹر) پڑھا اور سمجھا تو سکتا ہے لیکن جب
اداکار اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو ڈائریکٹر خاموشی اختیار کرلیتا ہے اور پھر
پرفارمنس کرکے دکھانا اداکار کا کام ہے۔
سوال۔ کیا اداکار ذہین
ہوتا ہے یا فطین؟
جواب۔ (مسکراتے ہوئے)
اداکار معصوم ہوتا ہے، سچا ہوتا ہے۔ ہاں، کبھی کبھار معاشرتی ناہمواریوں کے باعث
اور مالی وسائل کی عدم دستیابی کی بنا پر وہ فطین بھی ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے حالات
کسی بھی انسان کے ساتھ پیش آسکتے ہیں۔
جواب۔ اس سلسلے میں شعور
بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جو لوگ صاحب علم اور بردبار شخصیت کے حامل ہوتے ہیں، ان
کے رویوں میں فرق نہیں آتا مثلاً کیفی اعظمی یا گلزار اس کی بہترین مثال ہیں لیکن
موجودہ صورت حال میں جبکہ نمبر دو کی پذیرائی ہو رہی ہے اور اس طرح کے لوگوں کے
ہاتھوں ”آرٹ“ آگیا ہے جس کے باعث تخلیقی عمل رک گیا ہے۔ یقینا اس طرح کے اداکاروں
کو ملنے والی شہرت ان کا دماغ خراب کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔
جواب۔ اگر آپ تھیٹر کو
دو حصوں میں تقسیم کریں گے تو بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ایک تو مزاحیہ تھیٹر اور
دوسرا سنجیدہ تھیٹر۔ مزاحیہ تھیٹر کو تو پذیرائی ملی ہے، لیکن سنجیدہ تھیٹر کو
نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے سیاسی عدم استحکام کا
سلسلہ چل رہا ہے۔ اس کے باعث تھیٹر کی ترویج و اشاعت کا سلسلہ رکا ہوا ہے، لیکن
موجودہ حکومت کے اقدامات کے باعث معاشرے میں ڈراما اور موسیقی کو پذیرائی حاصل ہو
رہی ہے۔
جواب۔ بعض لوگ جو یہ
کہتے ہیں کہ وہ پاکستان میں اسٹریٹ تھیٹر کو پروان چڑھا رہے ہیں یا اس کے بانی ہیں
تو یہ تاثر غلط ہے۔ اگر ہم تاریخی طور پر دیکھیں تو سب سے پہلے عیسائی مذہب سے
تعلق رکھنے والے پادریوں نے اسے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے لیے استعمال کیا، پھر
ہندوستان میں رام اور سیتا کی کہانی کو اسٹریٹ تھیٹر سے ہی شہرت ملی۔ مہابھارت کی
کہانیوں کو اسٹریٹ تھیٹر کے ذریعے پیش کیا گیا پھر پاکستان میں صفدر ہاشمی وغیرہ
نے محدود پیمانے پر اس پر کام کیا۔ ان پر بھی رشین لابی کا فرد ہونے کا ٹھپہ لگا
دیا گیا پھر ضیا الحق کے دور میں ”آرٹ“ کے اظہار پر پابندی نے اسے کافی نقصان
پہنچایا۔ اسٹریٹ تھیٹر ایک بہت ہی پاور فل میڈیم ہے عوام میں شعور و آگہی پیدا
کرنے کا لیکن نہ تو ہمارے حکمران چاہتے ہیں کہ عوام میں شعور بیدار ہو اور نہ ہی
بیورو کریسی اور وڈیرہ شاہی وغیرہ کیونکہ ان سب کو دوام عوام کے اپنے حقوق سے لاعلم
ہونے میں ہے لہٰذا تھیٹر کو کبھی بھی سرکاری سطح پر سرپرستی حاصل نہیں ہو سکی پھر
ایک جنونی نام نہاد مذہبی طبقہ بھی اس کا مخالف ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ
شاید مذہب اور آرٹ میں تصادم ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ میں آپ کو سورة رحمن کی
مثال سے سمجھانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ سورة رحمن کی تفسیر کو آرٹ کی فارم میں سوچیں
تو یقینا اس کے ذریعے کائنات کے سارے تخلیقی رنگ مناظر قدرت کی صورت میں آپ کی
آنکھوں کے سامنے آنے لگیں گے۔ اس سورة کی تخلیقی بنت کتنی خوب صورت ہے۔ دراصل ہمیں
اپنی خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب رب کائنات کی خوب صورت تخلیق ہیں۔
ہمیں تھیٹر کے ذریعے ملک میں سے جہالت کو ختم کرنے کا کام لینا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: جدیدیت کے نام پر شاعری سے اس کی روح کو نکال دینا منفی عمل ہے، میر ظفر حسن
جواب۔ یقینا پاکستان،
ہندوستان میں ہیرو اور ہیروئن کا تصور ایک حسین و جمیل شخصیت کا ہے اور اس کی
بنیاد رومانس پر رکھی جاتی ہے لیکن مغرب میں بڑی عمر کا شخص ایک لڑکی کا محبوب
ہوتا ہے کیونکہ وہ میچور ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک نرم و نازک ”پپو“ لڑکے کو ہیرو کا
کردار دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس طرح کے ہیروازم سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ ایک نوجوان
یا بچے کے ذہن میں بھی ویسا بننے کی آرزو ہوتی ہے۔ ہمیں یہ چیزیں نئی نسل کو بار
آور کرانا ہوں گی کہ ہمارے اصل ہیرو قائد اعظم اور علامہ اقبال ہیں یا کہ وہ لوگ
ہیں جنھوں نے اپنے شعبوں میں نمایاں کارنامے سرانجام دے کر ملک و قوم کا نام اقوام
عالم میں روشن کیا ہے۔ یہ کریڈٹ بھی تھیٹر کو جاتا ہے کہ اس میں عوام کا ہیرو ان
ہی میں سے ایک کردار ہوتا ہے۔ چاہے وہ نوکر کا کردار ادا کرنے والا عمر شریف ہو یا
کوئی اور اداکار۔
سوال۔ کیا آپ تھیٹر کے
مستقبل سے پرامید ہیں؟
جواب۔ یقینا اب لوگوں کو
”تھیٹر“ کے لفظ کا مفہوم سمجھ میں آ رہا ہے۔ وہ حقیقی آرٹ کو سمجھ رہے ہیں۔ یہ
درست ہے کہ معاشرتی مجبوریوں کے باعث ابھی تک ”کمرشل آرٹ“ کو ہی فوقیت حاصل ہے،
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ تھیٹر اب ایک پراسس میں آگیا ہے۔ یہ عمل اب رکے کا نہیں۔
جواب۔ یقینا PTV کی اجارہ داری برسوں رہی ہے اور پی
ٹی وی کے پروڈیوسرز فرعون بنے رہے ہیں۔ جو حکومتی پالیسیاں تھیں، انھوں نے بھی پی
ٹی وی کو کچھ نہیں کرنے دیا۔ کبھی دوپٹہ پالیسی آجاتی ہے تو کبھی کچھ۔ میں ایک
ڈرامے ”جانے انجانے“ میں اداکارہ ونیزہ کے والد کا کردار کر رہا تھا۔ رخصتی کا
منظر فلم بند ہو رہا تھا تو ڈائریکٹر ستیش آنند نے مجھے کہا کہ آپ اداکارہ ونیزہ
کے سر پر ہاتھ نہ رکھیں بلکہ صرف چہرے کے تاثرات سے بیٹی کی جدائی کا جو غم ہر باپ
کو ہوتا ہے، اسی کو ظاہر کریں۔ ایسی پالیسی کا کیا فائدہ جب باپ، بیٹی کے سر پر
رخصتی کے منظر میں ہاتھ نہ رکھ سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی وی آرٹ کے حوالے سے
لوگوں میں آگہی پیدا کرنے سے قاصر رہا، لیکن اب پرائیویٹ چینلز کے آغاز سے لوگوں
کو زبانیں مل گئی ہیں۔
جواب۔ ابھی ہم صرف
سرٹیفکیٹ کورس کی سطح پر تربیت دے رہے ہیں۔ اس لیے ہمارا کورس تھیٹر کے بنیادی
لوازمات پر مبنی ہے۔ ہم طلبا کو تھیٹر کی واک، آواز کا اتار چڑھاﺅ، مناظر کی فریمنگ،
کریکٹرز موومنٹ، کردار نگاری، سیٹ ڈیزائننگ، لائٹنگ، مائم، پروسینئم اور اسٹریٹ
تھیٹر کے مزاج سے آگاہ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ ابتدائی کورس میں تھیٹر کی بنیادی
ضرورتیں ہی اجاگر کی جاتی ہیں۔ ہم اپنے طلبا کو اسکرپٹ رائٹنگ سے متعلق اضافی
معلومات بھی دے رہے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں