جدیدیت کے نام پر شاعری سے اس کی روح کو نکال دینا منفی عمل ہے، میر ظفر حسن
انٹرویو: محمد بخش
میر ظفر حسن نے اپنے تخلیقی
عمل کا آغاز غزل کی بجائے آزاد نظم سے کیا ہے۔ ان کی نظموں کا مجموعہ ”کیا کہوں تم
سے“ مئی 2001 میں شایع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی، جون ایلیا، سحر انصاری اور فاطمہ
حسن کے علاوہ دیگر ممتاز اہل قلم نے ان کی شاعری پر انتہائی معتبر اور مستند رائے دی
ہے جو کہ یقیناً ان کے ادبی قد کاٹھ میں اضافہ کرتی ہے۔
ان کی نظموں میں محبت کے
لافانی جذبوں کی مٹھاس پائی جاتی ہے جوکہ یقینا ان کی شخصیت کا بھی حصہ ہے۔ پہلی ملاقات
میں ملنے والے شخص کو اپنا دوست بنانے کا ”گر“ جانتے ہیں اور پھر دوستی نبھاتے بھی
خوب ہیں۔
ان سے میرا پہلا سوال تھا
کہ
سوال: لکھنے کی ابتدا کب
ہوئی۔ پہلی تخلیق کون سی تھی اور کہاں چھپی؟
جواب: میں زمانہ طالب علمی
سے ہی انگریزی زبان میں نظمیں کہتا رہا ہوں۔ الب تہ میری اُردو شاعری کا آغاز ایک الم
ناک واقعے سے ہوا تھا۔ میرا ماموں زاد بھائی جاوید جس کی شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا،
اچانک جواں عمری میں انتقال کرگیا۔ اس کی موت بھی عجیب حالات میں ہوئی، وہ Ship پر ریڈیو آفیسر تھا اور جب اس کا جہاز
ساؤتھ افریقا کی بندرگاہ پر لنگر انداز تھا، چشم دید گواہوں کے مطابق رات میں وہ اپنے
کیبن میں سونے گیا اور صبح مردہ حالت میں پایا گیا۔ جاوید اور میں نے بچپن سے جوانی
میں تقریباً ساتھ ساتھ قدم رکھا، ساتھ کھیلے اور سگریٹ پینا بھی ساتھ ہی شروع کیا۔
اس کی موت نے میری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ میں نے کئی دن کرب اور بے چینی کے عالم
میں گزارے، پھر ایک روز نہ جانے کیسے یہ کرب خود بہ خود کاغذ پر منتقل ہو گیا۔ اتفاق
سے اسی دن میرے عزیز و مہربان دوست مبین مرزا صاحب میرے دفتر آگئے۔ انھوں نے مجھ سے
میرے کزن کی موت پر تعزیت کی اور میری دل جوئی کی۔ انھیں میں نے اپنی پوری کیفیت بتائی
اور جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ بھی دکھایا۔ مرزا صاحب نے اسے بہت اشتیاق اور محبت سے
پڑھا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ اس سے پہلے مرزا صاحب نے میری انگریزی نظمیں پڑھ رکھی
تھیں اور کچھ نظمیں انھیں پسند بھی تھیں لیکن معلوم نہیں کہ انھیں اس نظم میں کیا نظر
آیا کہ انھوں نے نہ صرف وہ نظم ایک اخبار میں چھپوا دی بلکہ ساتھ ہی مجھ سے کہا کہ
آپ اُردو میں شاعری کریں یہ ان کی محبت اور حوصلہ افزائی کا اثر تھا کہ میں اس راہ
پر چل نکلا۔
سوال: آپ ابلاغ کو زندگی
اور شاعری میں کیا درجہ دیتے ہیں؟
جواب: ابلاغ ہی بنیادی عنصر
ہے۔ اپنا میسج لوگوں تک پہنچانا دراصل شاعری ہے۔ ابلاغ کی کمی کے باعث ہی سماج میں
مسائل جنم لیتے ہیں۔
زندگی اور شاعری کو کسی طور
پر بھی علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں جو لائف اسٹائل تھا وہ آج نہیں ہے اور مستقبل
میں اس سے بھی زیادہ مختلف ہوگا۔ شاعری میں ارتقاءکا سفر جاری رہتا ہے شاعری کوئی منجمد
چیز نہیں ہے۔ اس میں زمانی و مکانی تقاضوں کے تحت تبدیلی ہوتی رہتی ہے لیکن بنیادی
بات یہ ہے کہ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ شاعری کے بیسک ایسڈز ضایع نہ ہونے پائیں۔ شاعری دل کا معاملہ ہے اگر
اس میں فلسفہ بھی آئے گا تو دل کے معاملے سے آئے گا۔ لیکن جدیدیت کے نام پر شاعری سے
اس کی روح کو نکال دینا ایک منفی عمل ہے۔ ہمیں ایسی شاعری ہرگز نہیں کرنی چاہیے جس
میں آہنگ، غنائیت اور موسیقیت نہ پائی جاتی ہو۔ ترقی کے نام پر ایسے استعاروں اور تشبیہوں
کا استعمال جن کا ابلاغ نہ ہوسکے، وہ بلا مقصد شاعری کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ فیض صاحب
نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ مجھے اُردو کی بجائے پنجابی میں شاعری کرنی چاہیے تاکہ میرا
پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ تو طے یہ ہوا کہ بنیادی مسئلہ تو ابلاغ ہے۔
شاعری جب ختم ہونے لگتی ہے
تو معاشرے ویران ہو جاتے ہیں ان میں وحشت بڑھنے لگتی ہے۔ جنونیت آ جاتی ہے دل کی نرمی
ختم ہو جاتی ہے، آسان لفظوں میں کوئی مشکل بات کہی جائے تو یہ بڑی بات ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیم سے مجرمانہ غفلت نے قوم کا مستقبل تاریک کردیا ہے، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
سوال: آج کل ادبی حلقوں میں
ہمارے دانشوران کرام اس بحث میں مصروف ہیں کہ نثری نظم کا تخلیقی جواز کیا ہے؟آپ کیا
کہتے ہیں؟
جواب: نثری نظم میرا مسئلہ
نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کسی بحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔
سوال: عموماً جدید نظم نگار
شعراءغزل کی مخالفت کرتے ہیں کیا آپ بھی غزل کے مخالف ہیں، اگر ہیں تو کیوں؟
جواب: مجھے غزل بہت پسند ہے۔ غزل میں رچاؤ اور موسیقیت پائی جاتی ہے۔ مرزا غالب کو ہم کیسے بائی پاس کرسکتے ہیں۔ مجھے اگر غزل کی آمد ہوگی تو ضرور کہوں گا، کیونکہ مجھے غزل بہت زیادہ پسند ہے، غزل تو اُردو شاعری کی بنیاد ہے۔
سوال: مگر جون ایلیا صاحب
نے ایک طرف تو کہا ہے آپ کی نظموں میں غزل کا بھی آہنگ ہے۔ دوسری طرف وہ یہ کہتے ہیں
کہ آپ جدید ترین نسل کے جدید شاعر ہیں مگر آپ کے ہاں جو لفظیات ہیں وہ روایتی ہیں کیا
آپ لسانی تشکیلات کے نظریے سے متفق نہیں ہیں؟
جواب: جدید لسانی تشکیلات
کا جو ادباءاور شعراءبڑے زور و شور سے چرچا کر رہے ہیں، ایسے لفظیات، تراکیب، استعاروں
کا کیا فائدہ جن کا ابلاغ نہ ہو۔ جو ہماری روایتی شاعری کے حسن کو ہی گہن لگا دیں۔
انگریزی ادب کو مدنظر رکھ کر جو لوگ تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ تو ان کو مشرق اور مغرب
کے کلچر کے فرق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ انگریزی ادب کی لفظیات ”من و عن“
ہمارے یہاں رائج تو نہیں ہو سکتی ہیں البتہ اکا دکا لفظ ہی آسکتے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر جمیل جالبی نے
لکھا ہے کہ ”مجھے ان کی شاعری پر ن۔م۔راشد کے اثرات بھی محسوس ہوئے ہیں۔“ آپ کا اس
سلسلے میں کیا خیال ہے؟
جواب: ڈاکٹر جمیل جالبی ایک
مستند رائے رکھتے ہیں۔ میں ان کی رائے سے اختلاف نہیں کر رہا ہوں۔ ممکن ہے جالبی صاحب
کو میری کسی ایک آدھ نظم پر شائبہ گزرا ہو لیکن میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ میری
شاعری پر ن۔م۔راشد کے اثرات نہیں ہیں۔
سوال: کیا شہرت کا حصول ادب
میں بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل کرچکا ہے؟
جواب: اگر کسی کو شہرت کا
بہت شوق ہے تو اسے شوبز میں جانا چاہیے۔ ادب سے ناطہ کمٹمنٹ کے بغیر جوڑنا سراسر زیادتی
ہے۔ ادب سے وابستگی تو مسلسل لگن اور محنت کی متقاضی ہے۔ آپ کو بیس پچیس سال کے بعد
تو تھوڑی سی شناخت ملتی ہے دیکھیے ہمیشہ تخلیقی کام زندہ رہتا ہے۔ پی۔آر اور دولت کے
بل بوتے پر ادب میں داخل ہونے والے لوگ عارضی اور سستی شہرت تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن
وہ کبھی بھی ادب کی تاریخ میں زندہ نہیں رہتے۔
سوال: انگریزی ادب اور دیگر
عالمی ادب نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
جواب: انگریزی ادب کے اثرات
ہماری اُردو شاعری پر یقیناً مرتب ہوئے ہیں اُردو عالمی اثرات کے ساتھ ساتھ چلتی رہی
ہے۔ فیض احمد فیض اور ن۔م۔راشد کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے باقاعدہ نئی تشبیہات
سے اُردو ادب کو مالا مال کیا۔
سوال: اُردو ادب کے قارئین
کی تعداد میں خوفناک حد تک کمی ہو رہی ہے۔ آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ نیز کیا شاعری آدھی
صدی بعد ختم ہو جائے گی؟
جواب: میں ہرگز اس رائے سے
متفق نہیں ہوں کہ اُردو ادب کا قاری کہیں گم ہو گیا ہے۔ ادبی صورت حال بہت اطمینان
بخش ہے۔ اس وقت کثیر تعداد میں ادبی رسائل مسلسل شایع ہو رہے ہیں۔ ادب کو فروغ حاصل
ہو رہا ہے۔ یقینا ہر دور میں ادب کو پڑھنے والا معاشرے کا ایک سنجیدہ طبقہ ضرور موجود
رہتا ہے اور آیندہ بھی رہے گا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے کمی نہیں ہو رہی۔ ہمارے
ہاں تو خواہ مخواہ واویلا کرنے والا ایک طبقہ پایا جاتا ہے۔ جو ہر بات میں تاریک پہلو
نکالتا ہے۔ فی زمانہ جتنا فروغ ادب کو مل رہا ہے پہلے کبھی نہیں ملا۔
میں آپ کے سوال کے دوسرے حصے کی جانب آتا ہوں کہ کیا آیندہ پچاس برسوں میں شاعری ختم ہو جائے گی، ایسا ہرگز نہیں ہے بعض لوگ ناحق تاریک پہلوؤں پر سوچنے پر اپنا وقت ضایع کرتے ہیں۔ امریکا میں اس وقت ہر ایک گھر میں دو کمپیوٹرز ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ لوگ باقاعدہ کتابیں خرید کر پڑھتے ہیں۔ کتابوں کی تعداد اشاعت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی جوں جوں شرح خواندگی بڑھے گی، کتابوں کی اشاعت اور ان کی فروخت میں اضافہ ہوگا۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو انٹرنیٹ پر بھی بے شمار ویب سائٹس بن رہی ہیں۔ شاعری کی اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی۔
سوال: آپ کی شاعری پر قد
آور ادبی شخصیات نے بڑی حوصلہ افزاءرائے دی ہے کیا اس حوصلہ افزائی نے آپ کو مغرور
بنادیا ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ پر بھاری ذمے داری ڈال دی ہے؟
جواب: میرے اندر عاجزی بے
پناہ ہے۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ میں نے پہلی نظم کہی ہے۔ جتنی عاجزی اور انکساری آپ
اپنے اندر پیدا کرتے ہیں اتنا ہی خدا آپ کو نوازتا ہے۔
ہمارے تخلیق کاروں میں گھمنڈ
اور غرور کا عنصر پایا جاتا ہے۔ ایک لفظ کہنے کا غرور بالکل ایسا ہی ہے جیسے دولت کا
غرور یا علم کا غرور۔ وہ علم جو آپ کو عاجزی نہیں سکھاتا وہ بے کار ہے۔ علم کا مقصد
تو انسان سے محبت کرنا ہے۔ شاعر اور ادیب کا کام ہی یہی ہے کہ وہ معاشرے میں محبت اور
رواداری کے جذبات کو پروان چڑھائے نہ کہ خود علمی گھمنڈ کا شکار ہو جائے۔ ایسا شخص
سماج کو کیا دے سکتا ہے۔
سوال: کیا ادیب کا سماج سے
رشتہ ٹوٹ رہا ہے؟
جواب: ادب اور زندگی کا ناطہ
اٹوٹ ہے اگر کوئی ادیب یہ سمجھتا ہے کہ وہ سماج سے کنارہ کش ہوکر کچھ تخلیق کرسکتا
ہے تو وہ اس کی بھول ہے۔ سماج اور ادیب کا ناطہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا۔
سوال: شاعری کے حوالے سے
آپ اپنے آپ کو کس مقام پر سمجھتے ہیں؟
جواب: میں خود کو طفل مکتب
سمجھتا ہوں۔ 20 سال بعد بھی طفل مکتب ہی رہوں گا۔
سوال: بعض جونیئرز شعرا سینئر
ادبی شخصیات کے رویے سے شاکی نظر آتے ہیں آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: میرا کیس سب سے مختلف
ہے۔ میں کوئی بھی ادبی محفل یا مشاعرہ اٹینڈ نہیں کرتا، مجھے اپنی کاروباری مصروفیات
سے فرصت ہی نہیں ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کے اندر ٹیلنٹ ہے تو کوئی آپ
کا راستہ نہیں روک سکتا، اگر آپ ایک اچھا شعر کہتے ہیں تو یقینا اس کی پذیرائی ہوگی،
خوشبو پھیلے گی۔سینئرز نے میری بہت حوصلہ افزائی کی ہے بالخصوص سحر انصاری صاحب نے۔
سوال: آپ کے خیال میں اچھی
اور معیاری شاعری کی تعریف کیا ہے؟
جواب: میرے نزدیک یہ بہت
مشکل سوال ہے۔ واضح تعریف کا تعین تو میں نہیں کرسکوں گا البتہ جو شاعری دل کو لبھائے
وہ اچھی شاعری کہی جاسکتی ہے۔ ”معیاری شاعری“ کا پیمانہ کوئی بھی متفقہ طور پر نہیں
طے نہیں کرسکا ہے۔ ہاں اچھی شاعری کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا، جتنے تضادات انسان
کے اپنے اندر زیادہ ہیں اور آپ کی طنابیں کھنچی ہوئی ہیں اتنی ہی تیزی سے فیوژن ہوگا
اور اچھا شعر وجود میں آئے گا۔ جھگڑا اگر آپ کے اندر نہیں ہے تو شعر کیونکر وجود میں
آئے گا۔
کوئی تبصرے نہیں