تعلیم سے مجرمانہ غفلت نے قوم کا مستقبل تاریک کردیا ہے، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم


انٹرویو: محمد بخش

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کی شخصیت شائستگی، انسانی ہمدردی، خوش طبعی اور شرافت کے مضبوط ستونوں پر استوار ہے۔ وہ ایک ملاقات میں اپنے ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لینے کا ہنر جانتے ہیں۔

آپ جامعہ کراچی میں پرووائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ آپ ایک سائنس دان، ماہر تعلیم اور شاعر ہیں۔ آپ کی ذات کی پہچان شاعری ہے۔ آپ نے اردو غزل کی کلاسیکی روایت کو زندہ رکھا ہے۔ آپ کا شمار ان چند گنے چنے شعرا میں کیا جاسکتا ہے جو مشاعرے کی جان ہوتے ہیں۔ آپ کے دو مجموعہ کلام شایع ہو چکے ہیں۔ اول ”تیز ہوا کے جشن میں“ اور دوم ”شعلے پہ زبان“۔ آپ دنیا کے تقریباً چودہ ممالک میں منعقد ہونے والے اردو مشاعروں میں اپنا کلام سنا چکے ہیں۔

ماہنامہ ”ٹیلنٹ“ کے قارئین کے لیے ہم نے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کا خصوصی انٹرویو کیا ہے جس میں شاعری کے علاوہ تعلیمی مسائل پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس دلچسپ گفتگو کا احوال نذر قارئین ہے۔

سوال:۔ آپ نے سائنس اور شاعری کے درمیان توازن کس طرح برقرار رکھا؟

جواب:۔ شاعری میری پہلی محبت ہے۔ اپنی محبت اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے ظاہری تضاد کو میں نے اپنے فائدے میں استعمال کیا ہے۔ سائنس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ تخلیقی عمل کے لیے جو حقیقت پسندانہ فکر ضروری ہے، اس پر ایسی جلا ہوئی کہ دنیا آئینہ خانہ معلوم ہونے لگی اور تخلیقی فکر کے بہت سے نایافتہ گوشے بھی گرفت میں آگئے۔

سوال:۔ شعر گوئی کا آغاز کب ہوا؟

جواب:۔ یقینا آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میرا شروع میں رجحان کہانی نویسی اور مضمون نویسی کی طرف تھا۔ میری کہانیاں اسکول کے مجلے میں شایع ہوتی تھیں۔ چند ایک ادبی جریدے ”جام نو“ میں بھی چھپیں۔ باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز 1959-60 سے کیا جس میں نہ صرف شعر کہنا بلکہ شعری اور ادبی نشستوں میں شریک ہونا بھی شروع کیا۔

سوال:۔ آپ کے نزدیک شاعری کی تعریف کیا ہے؟

جواب:۔ ذہن و فکر میں پروان چڑھنے والے محسوسات کا بیان جو خود کلامی کے درجے سے شروع ہو کر کائنات کی وسعتوں کا احاطہ کرلے۔ یہی میرے نزدیک شاعری کی تعریف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہم معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے حق میں اتنے سفاک اور بے رحم کیوں ہیں؟شاہدہ تبسم

سوال:۔ ادبی گروہ بندیوں کے باعث ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کیا آپ اس رائے سے متفق ہیں؟

جواب:۔ یقینا گروہ بندیوں کی بنیاد منافقت پرمبنی ہے۔ اس منافقت کی بھینٹ کئی اچھے جینوئن شاعر چڑھ جاتے ہیں جسے میں ایک مجرمانہ فعل تصور کرتا ہوں۔ ہر ادبی تنظیم نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائی ہوئی ہے۔ گروہ بندیاں ختم کرکے ہمیں ادب کے فروغ پر توجہ دینی چاہیے۔

سوال:۔ مجمع کے ساتھ منعقد ہونے والا مشاعرہ شاعری کے اعتبار سے لوگوں کی ذہنی تربیت میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟

جواب:۔ مشاعرے کے لیے جو سامع آتا ہے، وہ یقینا شعری ذوق کا حامل ہوتا ہے اور وہ ذہنی طور پر تیار ہو کر آتا ہے کہ رات 10 بجے مشاعرہ شروع ہو کر صبح چار بجے ختم ہوگا تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور اس کی سخن فہمی کی داد دینی چاہیے۔ مشاعرے کی روایت سوائے کراچی کے دم توڑتی جا رہی ہے جبکہ ہندوستان میں تو اس کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں۔ وہاں پر سامعین کی تعداد 50 ہزار سے کم نہیں ہوئی۔ بہرحال مشاعروں کے حوالے سے میری ایک تجویز ہے کہ مشاعرہ گاہ کے سامنے کتابوں کے اسٹال لگائے جائیں تو اس طرح ایک عام شخص اپنے پسندیدہ شاعر کی کتاب خرید سکتا ہے۔

سوال:۔ نوجوان شعرا کو سینئر شعرا سے سب سے بڑا شکوہ حوصلہ افزائی نہ کرنا ہے۔ آخر کیوں؟

جواب:۔ اس صورتحال کا اصل سبب تو یہ ہے کہ دونوں نسلوں کے درمیان رابطے کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے۔ کوئی بھی ایسا پلیٹ فارم میسر نہیں ہے جس میں دونوں نسلوں کے لوگ باہمی رابطہ کرکے خیالات کا تبادلہ کرسکیں۔ جب میں نوجوان تھا تو میں نے اپنے بزرگوں سے بہت کچھ سیکھا اور میں اس حوالے سے بھی ان کی عزت کرتا تھا اور ہوں کہ جتنی میری عمر ہے، اس سے زیادہ تو ان کی شاعری کی عمر ہے لیکن اب نئی اور پرانی نسل کے درمیان ناطے ٹوٹ رہے ہیں۔ اگر کوئی بزرگ شاعر کہتے ہیں کہ میاں! ذرا اس شعر کو یوں درست کرلو تو نوجوان شاعر کہتا ہے کہ میں اسے درست سمجھتا ہوں۔ اگر آپ اپنا معیار خود ہیں تو گنجائش کس طرح پیدا ہوگی؟ جبکہ بعض سینئر شعرا بھی اچھے شعر کی داد نہیں دیتے جوکہ مصلحت پسندی ہے۔

میں سمجھتا ہوں، جو شخص اچھا شاعر ہے، اسے اچھے شعر کی داد دینی چاہیے کیونکہ نوجوان ہی تو سلسلہ شاعری کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہیں لہٰذا پرانی نسل کے شعرا کو نوجوان شعرا کی کھل کر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سندر جذبوں کو حساس روپ دینے والی شاعرہ ذکیہ غزل

سوال:۔ موجودہ مقام تک پہنچنے کے لیے آپ نے جو جدوجہد کی، اس کا احوال بتائیں؟

جواب:۔ میں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز سیکنڈر اسکول جیکب لائن سے حاصل کی جوکہ کسمپرسی کی حالت میں تھا۔ ٹوٹا پھوٹا اسکول تھا لیکن تعلیم کا معیار بلند تھا۔ اساتذہ محنت کرتے تھے۔ اسی اسکول سے نامور شخصیات نکلیں۔ بنگلہ دیش کے صدر ارشاد حسین، سردار عبدالرب نشتر کے دونوں بیٹے بھی اسی اسکول میں زیر تعلیم رہے۔

اساتذہ ازحد محنت کرتے ہیں۔ وہ اس کو نوکری نہیں بلکہ ایک مشن کا درجہ دیتے تھے۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کہ ایک استاد محترم نے محسوس کیا کہ اسمبلی میں تو طلبا موجود ہوتے ہیں لیکن بعد میں ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ جب انھوں نے کھوج لگایا تو پتا چلا کہ اسکول کے قریب بیرکوں میں ایک صاحب نے ”کیرم بورڈ کلب“ کھول لیا ہے جس کی وجہ سے طلبا اسکول سے غائب ہوتے ہیں تو استاد محترم اسکول کے چوکیداروں کے ہمراہ اس شخص کے پاس گئے اور باقاعدہ اس شخص سے بحث و مباحثہ کیا اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اس موقع پر اہل محلہ بھی جمع ہوگئے اور انھوں نے بھی استاد محترم کی حمایت کی اور یوں فیصلہ ہوا کہ اسکول کے اوقات میں ”کیرم بورڈ کلب“ بند رہے گا۔ یہ ان کی علم اور طالب علموں سے محبت کا عملی ثبوت تھا جبکہ آج کا استاد کہتا ہے کہ اگر کوئی میری کلاس میں آتا ہے تو ٹھیک، ورنہ میری بلا سے۔پھر میں نے D.J کالج میں پڑھا۔ کراچی یونیورسٹی کا طالب علم رہا اور برطانیہ سے Ph.D کیا۔ یہ سب اساتذہ کی تربیت کا نتیجہ تھا۔

سوال:۔ کیا استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ ٹوٹ رہا ہے؟

جواب:۔ جی ہاں! یہ بات درست ہے۔ استاد اور شاگرد کا رشتہ ٹوٹ رہا ہے۔ اب اساتذہ بھی اس بات کی پروا نہیں کرتے بلکہ 45 منٹ کلاس میں لیکچر دیا، اگر طالب علم استاد سے کچھ پوچھنا بھی چاہے تو اس کے پاس روکھا سا جواب ہوتا ہے۔ یہ جو رابطہ منقطع ہو رہا ہے، یہ ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایک طالب علم کی تربیت میں والدین کے بعد استاد کا بڑا کردار ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کو کھل کر مکمل کرتا ہے۔ کلاس روم کے باہر بھی استاد اور طالب علم میں رابطہ ازحد ضروری ہے۔ میں نے ہمیشہ طالب علموں سے رابطہ برقرار رکھا ہے۔ چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں۔ ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، یہی فلاح کا راستہ ہے۔

سوال:۔ بہ حیثیت استاد، آپ طالب علموں کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ یا کیا کیا ہے؟

جواب: اس وقت میرے پاس جو عہدہ ہے، اس کے حوالے سے میری یہی کوشش رہی ہے کہ موجودہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے تو 30 فیصد مزید تعلیمی نتائج بہتر ہو سکتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کو جو گرانٹ ملتی ہے، وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے، محدود وسائل کے اندر رہ کر کرنا ہے۔

سوال:۔ 50 برسوں میں ہم نے تعلیمی میدان میں کیا ترقی کی ہے؟

جواب:۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 50 برسوں میں جتنی بھی حکومتیں آئیں، انھوں نے تعلیم کے لیے کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ کسی بھی حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کو اولین حیثیت حاصل نہیں رہی بلکہ انتہائی ثانوی درجہ حاصل رہا ہے لہٰذا ناخواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ کمی ہرگز واقع نہیں ہوئی ہے۔ اب اکیسویں صدی ہمارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے تو ہم خود کہاں کھڑے ہیں؟ وقت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اب نئی اصطلاح آگئی ہے۔ ”کمپیوٹر لٹریسی“ یعنی آج کے دور میں ایم۔ اے پاس بھی ناخواندہ ہے۔

مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ فوری طور پر ایکشن پلان ترتیب دیں اور تعلیم کو عام کریں ورنہ ہم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔

اس وقت بزنس مینجمنٹ کا شہرہ ہے۔ ہر طالب علم اسی طرف جا رہا ہے یعنی ”بزنس منیجرز“ پیدا کر رہے ہیں یا مینجمنٹ کے لوگ۔ لیکن آنے والی صدی میں تو ہمیں مینوفیکچرز کی ضرورت ہے جو را میٹریل کو اپنے درست مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں۔ جو ٹیکنالوجی کو حقیقی روپ دے سکیں۔ اگر ہمارے پاس اربوں روپیہ ہے اور ہم دنیا سے کہیں گے کہ وہ ہمیں ٹیکنالوجی دے دیں۔ اگر وہ نہ دیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ تو ہمیں تو سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ پنج سالہ منصوبے بناتے ہیں جبکہ دنیا تو 100 سال تک پلان کرتی ہے۔ اب ترجیحات بدل رہی ہیں۔ گلوبل سطح پر تو اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہوئی تو وہ ”پانی“ کے مسئلے پر ہوگی لہٰذا وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق سوچنا چاہیے۔

سوال:۔ نوجوانوں کے لیے پیغام؟

جواب:۔ نوجوانوں کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ اب انھیں جاگ جانا چاہیے۔ اس سے میرا مقصد یہ ہے کہ آج کے نوجوان کو اپنی انفارمیشن اتنی بڑھانی چاہیے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ دنیا ”گلوبل ولیج“ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ اب الگ تھلگ رہ کر کچھ نہیں کر سکتے۔ انھیں شعور ہونا چاہیے کہ ہمارے آس پاس سیاسی، سماجی، معاشی سطح پر کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں تاکہ ان کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر اپنا بچا اور ترقی کی راہیں تلاش کرسکیں۔

٭....٭....٭

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے کلام سے انتخاب

غزل

اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
تشہیر کے بازار میں اے تازہ خریدار!
زیبائشیں مل جائیں گی قامت نہ ملے گی
لمحوں کے تعاقب میں گزر جائیں گی صدیاں
یوں وقت تو مل جائے گا مہلت نہ ملے گی
سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اسے یاد رکھیں گے
جب اس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی
اب منزل تعبیر میں ہے عشق بلاخیز
یعنی اسے پا لینے سے راحت نہ ملے گی
تاعمر وہی کارِ زیاں عشق رہا یاد
حالانکہ یہ معلوم تھا اجرت نہ ملے گی
تعبیر نظر آنے لگی خواب کی صورت
اب خواب ہی دیکھو گے بشارت نہ ملے گی
آئینہ صفت وقت ترا حسن ہیں ہم لوگ
کل آئینے ترسیں گے تو صورت نہ ملے گی
٭....٭....٭

غزل

ایک سے سلسلے ہیں سب ہجر کی رت بتا گئی
پھر وہی صبح آئے گی پھر وہی شام آگئی
میرے لہو میں جل اٹھے اتنے ہی تازہ دم چراغ
وقت کی سازشی ہوا جتنے دیے بجھا گئی
میں بھی بہ پاس دوستاں اپنے خلاف ہو گیا
اب یہی رسمِ دوستی مجھ کو بھی راس آگئی
تند ہوا کے جشن میں لوگ گئے تو تھے مگر
تن سے کوئی قبا چھنی سر سے کوئی ردا گئی
تازہ بریدہ شاخِ گل تجھ کو تو ہوش ہی نہیں
دیکھ ترے قریب سے رقص کناں صبا گئی
دلِ زدگاں کے قافلے دور نکل چکے تمام
ان کی تلاش میں نگاہ اب جو گئی تو کیا گئی
آخر شب کی داستاں اور کریں بھی کیا بیاں
ایک ہی آہ سرد تھی سارے دیے بجھا گئی
رنگ نہیں لہو سہی رونق فصلِ جاں تو ہے
گل نہ سہی مگر بہار زخم تو کچھ کھلا گئی
٭....٭....٭

نظم

گھر کے کمپیوٹر پینل پر
ایک چالان وصول ہوا ہے
میرے لیے روبوٹ نے مجھے لاکر دیا ہے
جس میں لکھا ہے
جرمانہ دو! جرمانہ دو!
جلد ادا ہو ورنہ سزا ہو
میں چالان کی جانی پہچانی تحریر کو دیکھ رہا ہوں
جو کہتی ہے
کل دن ڈھلنے سے کچھ پہلے
تم نے اپنے حق سے بڑھ کر
دو گہری سانسیں لے لی تھیں
جرمانہ دو!

٭....٭....٭

4 تبصرے: