آزاد نظم

صابرہ شاہین ڈیروی

مری جان آؤ

چلو خواب بنتے ہیں پھر سے مری جاں

مگر اپنی آنکھیں تو۔۔۔ گدلا چکی ہیں

کوئی خواب بھولے سےاترا بھی ان میں

تو کالا سا میلا یونہی ادھ موا سا

پھٹی آنکھوں کی چھدری چھدری سی پلکوں

میں رویا کرے گا

چلو شرط بد لیں کہ

 ان سبز کھیتوں کے دل میں ہمکتےگھنے جامنوں کی

 ٹھنڈی ٹھار چھائوں تلک بھاگتے ہیں

مگرگٹے گوڈے یہ لاغر سی ٹانگیں

 ہیں انکاری اس سے

تو کیا پھر یونہی راکھ رستے پہ بیٹھے

قضا کی سواری کی ہم راہ دیکھیں

نہیں میرے ہم راہی آؤ چلو نا

تخیل کے رتھ پر

آفق پار کی ہنستی رنگین بستی

کی جانب چلیں ہم

وہ بستی کہ جس کی تراوٹ میں جیون کی

 دھارا بہے جارہی ہے

اسی کے کنارے پہ ہم اپنے خوابوں کی

اک جھگی ڈالیں

وہاں سرمئی شام کی سنگتوں میں

میں بنسی بجاؤں تو تم رقص کرتے ہوئے مسکراؤ مری جان آؤ

1 تبصرہ: