ناشکری خطرہ ایمان ہے
اللہ رب العزت نے اپنی خاص مخلوق (جسے اُس بنانے والی ذات نے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرمایا) کو بے شمار نعمتوں سے مزین بہترین زندگیوں سے نوازا ہے مگر کامل و مکمل زندگی کا تحفہ اُس ربِ کبریائی نے زمین پر اُتارے اپنے پسندیدہ بندوں کو دینے سے بھی گریز برتا ہے کیونکہ کاملیت کا تاج جچتا ہی صرف خالق کی خدائی پر ہے۔ تخلیق کی رسائی وہاں تک نہ ہو یہی اُس کے حق میں بہتر و مفید ہے، جب کاملیت کا تصور ہی اللہ تعالیٰ نے انسانی ذات سے منسلک نہیں کیا تو ہم انسان کس طرح اپنی ذاتی زندگیوں میں اس کی پرچھائی تلاش کرنے میں ہلکان ہوئے پھرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اُن نعمتوں پر بھی اپنے رب کا شکر ادا کرنے سے اجتناب برتتے ہیں جو اُس مقدس ذات نے ہماری زندگیوں کو آسان اور خوبصورت بنانے کے لیے ہمیں تحفتاً پیش کی ہیں۔
حقیقتاً مخلوق بنی نوح انسان
کا بیشتر حصّہ بےحد ناشکرا معلوم ہوتا ہے، جب تک اُن کی زیست پھولوں کی سیج کی منظر
کشی کرتی ہے وہ دلجمعی سے اپنے رب کی حمد و ثناءمیں جُٹ جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہی
زندگی تصویر کا دوسرا رُخ پیش کرتی ہے جہاں ناہموار راستے اُن کے منتظر ہوتے ہیں تب
ناصرف اُن کی چیخیں نکلتی ہیں۔ بلکہ ماضی میں وہ جن نعمتوں سے مستفید ہوتے آئے ہیں
اُن کو سراسر فراموش کرکے شکوہ کا مجسمہ بن بیٹھتے ہیں۔ کفرانِ نعمت، حِرص اور ناشکری
کمزور ایمان کی علامات ہیں کیونکہ جب تخلیق کا خالق پر اعتقاد مضبوط ہوتو وہ جتنا پاتا
ہے اُس میں خوش و مطمئن ہونا باخوبی جانتا ہے۔ اس کے علاوہ جب اس کی زندگی میں بہار
کے بعد خزاں کا موسم آتا ہے تب بھی اُس کو پُختا یقین ہوتا ہے کہ یہ مشکل وقت وقتی
ہے جس کی آمد زندگی کے نئے رموز سکھانے کے لیے ناگزیر تھی۔
بے اطمینانی انسان کی روح
کو اُتنا ہی نقصان پہنچاتی ہے جتنا یرقان انسانی جسم کو، دونوں میں فرق بس اتنا ہے
کہ ایک انسان کی جان لے کر چھوڑتا ہے تو دوسرا اُس کی روح کو پراگندہ کرکے چین کا دم
بھرتا ہے۔ سکون، اطمینان، احساسِ تشکر اور خدا کی ذات پر توکل روحانی اعتبار سے صحت
مند زندگی کے ضامن ہیں جبکہ دوسری جانب جو انسان حِرص و ہوس کا شکار ہوتا ہے وہ ساری
زندگی کے لیے ذہنی انتشار و اضطراب سے اپنا رشتہ استوار کرلیتا ہے۔ اگر کسی انسان کا
جسم بیمار ہوجائے تو وہ اُس کے لیے اُس قدر اذیت کا باعث نہیں بنتا جتنا ایک آلودہ
روح پورے انسانی وجود کو ہلا کر نہ صرف اپنے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے بلکہ اردگرد
کے افراد کے لیے بھی عبرت کا نشان ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں عقلمند شخص وہی تسلیم کیا
جاتا ہے جسے جتنی چادر میسر آئے اُس میں ہی اپنے پاؤں پھیلانے کا ہنر جانتا ہو۔
میری نظر میں ناشکری ایک
خطرناک بیماری ہے جس میں کوئی انسان ایک مرتبہ مبتلا ہوجائے تو اُس سے پیچھا چھڑانا
بالکل بھی آسان نہیں ہوتا ہے، ہم نے اپنے بزرگوں سے سُن رکھا ہے کہ صبر میں شکر ہے
اور ناشکری میں کڑواہٹ۔ جس کی زندہ جاوید تصویر زمان حال ہے، اگر یقین نہ آئے تو اپنے
اردگرد کا جائزہ لیں آپ کو ہر دوسرا بندہ ناشکری کا پیکر بنا اپنی زندگی کی نامکمل
خواہشات پر ماتم کرتا دکھائی دے گا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ صبر کرنا نیم
چبانے سے کم نہیں ہے مگر اپنی من پسند چیزوں کا زندگی میں ناپید ہونا بھی ناشکری کرنے
کا کوئی معقول جواز پیدا نہیں کرتا ہے۔ یہ گناہ صرف اُنھی لوگوں سے ادا ہوتا ہے جن
کا ایمان پستہ ہو اور جو خدا تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کے متعلق شک و شبہات کا
شکار ہوں کیونکہ جو توکل من اللہ کی ہمہ وقت تسبیح کرتے ہوں اُنھیں ناشکری سے کیا واسطہ۔
تمام مسلمانوں کا اس بات پر پکا ایمان ہے کہ اللہ ربِ ذوالجلال
اپنے بندوں کو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، تو جب ایک ماں اپنے لختِ جگر کو تکلیف
میں نہیں دیکھ سکتی تو ہمارے رب کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنی محبوب مخلوق کو
اُس کی کسی خواہش کے پیچھے تڑپتا اور ایڑیاں رگڑتا چھوڑ دے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بچے
کو کسی طور وہ چیز مہیا کرنا گوارا نہیں کرتی جو آگے جاکر اُس کے لیے نقصان کا باعث
بنے تو ہماری شہ رگ سے بھی قریب معبودِ حقیقی سے ہم یہ امید کس طرح لگا بیٹھے ہیں کہ
وہ ہمیں کسی ایسی شے یا انسان کا قُرب عطا کرے گا جو ہمارے لیے راحتِ جان کے بجائے
وبالِ جان ہو۔ اب اگر انسان اپنے خالق کی اس شدید محبت پر خوش ہونے اور اپنی قسمت پر
رشک کرنے کے بجائے بھی ناشکری کا ارتکاب کرے تو اُس کی عقل پر محض تف کرنا ہی بنتا
ہے۔
کوئی تبصرے نہیں