انسان کا شیطانی روپ

Syeda Shireen Shahab

انسان ہمیشہ سے موجود تھا، کائنات کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل وہ اللہ تعالیٰ کے گمان میں تھا، انسان کو ظاہر عطا کرنے کے لیے اللہ کریم نے سب سے پہلے دنیا کو اس کے شایانِ شان تشکیل دیا پھر یہاں ہر اس چیز کا اہتمام کیا جس کی ضرورت اس کے بندے کو اپنے ارتقائی مراحل کے دوران پیش آنے والی تھی۔ ربِ کریم کے پاس گناہ، غلطی اور نافرمانی سے مبرا بہتیرے فرشتے موجود تھے، اس کے باوجود اس پاک ذات نے انسان کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ اشرف المخلوقات کا درجہ دیا اور تمام فرشتوں پر اپنی پسندیدہ تخلیق کو سجدہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ خالق کی نظر میں انسان کا مقام بہت بلند ہے، وہ پسند کرتا ہے اپنے بندے کی خلوص میں رچی بسی عبادت جبکہ کمی نہیں تھی رحمن و رحیم کے پاس ہمہ وقت عبادت میں مشغول فرشتوں کی ایک فوج کی لیکن اس کو طلب تھی ایسی مخلوق کی جو انکار کا اختیار رکھتے ہوئے اقرار کا حوصلہ کرے اور اپنے پروردگار کو آنکھوں سے دیکھے بغیر بھی اس کے ہونے پر کامل یقین رکھے۔

جہاں ایک طرف انسان سے اس کا خالق بے حد محبت کرتا ہے، وہیں ابلیس جو کبھی فرشتوں کا سردار ہوا کرتا تھا لیکن اپنے غرور و تکبر کے باعث شیطان بن بیٹھا ازل سے انسان سے شدید پرخاش پالے ہوئے ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا انسان کو سجدہ کرو تو وہ حکم عدولی کر کے نہ صرف نافرمانوں میں شامل ہوا بلکہ اس نے خود سے عہد کیا کہ جلد رب کے بندے کو برائی کی جانب راغب کر کے اپنا جانشین بناؤں گا۔ رب العالمین نے ابلیس کو روزِ قیامت تک مہلت دی ہے کہ جا جس حد تک جاسکتے ہو انسان کو ورغلانے کے لیے جو فرد بہک گیا میں سمجھوں گا وہ میرا کبھی تھا ہی نہیں اور جو بندہ واقعی میں میرا ہوگا اس کا تمہارے شکنجے میں آنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ نیکی اور بدی کے نظریے کی شروعات اسی لمحے ہوگئی تھی جب ابلیس شیطان کی صورت اختیار کر کے انسان کے مخالف کھڑا ہوگیا تھا ساتھ وہیں سے ہی اشرف المخلوقات کے امتحان کا بھی آغاز ہوا تھا۔

ابلیس کی مخالفت نے بدی کو جنم دیا اور آگے چل کر اسی بدی نے اچھائی برائی، صحیح غلط اور گناہ ثواب کا فرق پیدا کیا، یہ ایک فطری بات ہے کہ جو مقام جتنا اونچا ہوتا ہے اس کو قائم رکھنا اتنا ہی کٹھن ہوتا ہے، انسان کے ساتھ یہی ہوا مقام اعلیٰ ملا تو اس کو سنبھالے رکھنے کے لیے سخت آزمائشوں سے گزرنا بھی ضروری ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ کی ہر بات میں حکمت و دانائی پنہاں ہوتی ہے جسے رب کے محبوب بندے سمجھ جاتے ہیں اور جو نہیں سمجھتے وہ ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہنے والے ہیں، تخلیق کا خالق سے رشتہ مضبوط ہو تو وہ بھٹکتا ہے نہ بہکتا ہے اور بالفرض وہ کچھ دیر کے لیے قدرت کے منافی چلا بھی جائے تو واپس لوٹنے میں دیر نہیں کرتا۔ شیطان کا موجود ہونا انسان کا انسان رہنے کے لیے ضروری تھا، وہ محض امتحان کا ذریعہ تھا مگر یہیں بندے سے چوک ہوگئی جس شر سے ایمان کی جنگ جیت کر اسے غازی بننا تھا اسی کا آلہ کار بن بیٹھا اور دنیا میں شرانگیزی پھیلانے لگا۔

ابتدا سے ہی خدا اور بندے کے تعلق کو کمزور کرنے کے لیے شیطان کمربستہ تھا مگر اصل میں انسان بشمول اپنی تمام حرکات و سکنات کے شرانگیزی میں ہر لحاظ سے شیطان کو پیچھے چھوڑتا ہوا رب سے دوری کی خود سب سے بڑی وجہ بنا ہوا ہے۔ ہر انسان بدی کی جانب مائل نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہا جاسکتا کہ ہر فرد اشرف المخلوقات کہلانے کے لائق ہے۔ انسانی تاریخ شیطان کا لبادہ اوڑھے انسانوں سے بھری پڑی ہے مگر ماضی میں برائی کو برائی ہی تصور کیا جاتا تھا اور بد انسان بدنام تھا۔ اس حوالے سے موجودہ دور انتہائی بدترین ہے کیونکہ اب صحیح غلط اور اچھائی برائی کے درمیان حائل لکیر مکمل طور پر مٹ چکی ہے اور تو اور اب گناہ کو گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ دنیا میں یہ ہولناک تبدیلیاں اچانک رونما نہیں ہوئیں، انسان کی فطرت کا اس میں بڑا دخل ہے، ہوس اور لالچ کی ابتدا دراصل بندے کی بے صبر طبیعت سے ہوئی اور یہی آگے جاکر ہر اس برائی اور گناہ کی وجہ بنی جن میں آج کا انسان پوری طرح سے ملوث ہے۔

 اب درج بالا تمام باتوں کے پیرائے میں موجودہ حالاتِ انسانی کا تفصیلی جائزہ لیں اور مشاہدہ کریں کون کہاں کس طرح اور کتنا اپنی ساخت کی نفی کر رہا ہے، انسان کو کیسا بنایا تھا اور وہ کیا بنتا جا رہا ہے، برائی سے منسوب شیطان کی ذات پہلے سے موجود تھی تو انسان اس کی جگہ لینے پر کیوں بہ ضد ہوچکا ہے۔ آج کے دور میں انسان کو دنیا کے نظام کو مثبت طریقے سے چلانے کے لیے بمعہ اپنی سوچ، روح اور جسم ”اشرف المخلوقات“ کے خطاب کا اہل ہونا ماضی کی نسبت زیادہ اہم ہوچکا ہے۔ ہمارا حالیہ زمانہ جس رفتار سے آگے کی جانب رواں دواں ہے وہ ہمیں اپنے شانہ بہ شانہ چلانے کیلئے بھٹکنے اور بہکنے کے مواقع بھی گزرے وقتوں کے مقابلے میں بڑی تعداد میں مہیا کر رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انسان اور شیطان بننا اب صرف اور صرف ہمارے ہاتھ میں ہے، ہمیں اپنا مقام پہلے سے معلوم ہے، ہم نیکی اور بدی کی سمت سے بھی واقفیت رکھتے ہیں اور خالق نے انسان کو نتائج سے روزِ اول ہی خبردار کردیا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود شیطان کی شاگردی چھوڑنا اگر انسان کو منظور نہیں تو پھر ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اپنی انسانیت پر فاتحہ پڑھ لینا اس پر واجب ہے۔

2 تبصرے: