غالب کے فارسی خطوط کا ترجمہ عمر مہاجر نے مہارت سے کیا ہے،پروفیسر سحر انصاری

Bahadur Yar Jang Academy


کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) عمر مہاجر نے غالب کے فارسی خطوط کے مجموعے ”پنج آہنگ“ کا اردو ترجمہ کیا جس پر سبط حسن کہتے ہیں کہ اس قدر مہارت سے یہ ترجمہ ہوا ہے کہ اصل اور ترجمے کی شاخت تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے اسے حال ہی میں انجمن ترقی اردو نے شایع کیا ہے۔ غالب مسلم ضیاءکا اول و آخر عشق تھا۔ مسلم ضیاءکا اصل نام عبدالوہاب تھا مسلم تخلص اور ضیاءاپنے دوست ضیاءالدین کی یاد میں رکھا۔ ان خیالات کا اظہار ماہر تعلیم شاعر نقاد پروفیسر سحر انصاری نے بحیثیت صدر مجلس ”جلسہ بیاد موسین بہادر یار جنگ اکادمی“ میں کیا۔

تقریب کے مہمان خصوصی سابق سربراہ شعبہ اردو جامعہ کراچی محقق، دانشور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے کہا کہ اکابرین کو یاد رکھنا اور ان کی یاد کو قائم رکھنا خوبصورت ترین عمل ہے اور اس حوالے سے بہادر یار جنگ اکادمی حیدر آباد دکن کی علمی و ادبی روایات کو متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اسلاف کی عظیم خدمات کو نئی نسل میں روشناس کروانا چاہیے جس پر اکادمی کے معتمد عمومی سید صبیح حسینی نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمارے دوست اور ایکسپریس کے کالم نگار انجینئر مسعود کمالی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

Bahadur Yar Jang Academy


معروف ادیبہ اور نامور براڈ کاسٹر عمر مہاجر کی دختر محترمہ فریسہ عقیل نے کہا کہ والد محترم اپنی شخصی علمی و ادبی خوبیوں کے سبب دکن میں زمانہ طالب علمی میں ہی شہرت پا چکے تھے اور 1921ءمیں جامعہ عثمانیہ کی انجمن اتحاد کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ آپ کا شمار بہترین مقررین میں ہوتا۔ 1950ءمیں آپ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور اپنی وفات کے ساتھ ہی اس ادارے سے سبکدوش ہوئے۔ بہادر یاد جنگ مولوی عبدالحق بھی آپ کی زبان فہمی اور جوش خطابت کے معترف تھے۔ ڈاکٹر اوج کمال سابق سربراہ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ اردو نے کہا کہ معروف ادیب و شاعر مسلم ضیاءچراغ راہ تھے۔ آپ نے دکن میں اردو محل قائم کیا۔ مسلم بھائی نے تحقیق سے ثابت کیا کہ غالب جوتش بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عہد کے بچوں کی کتاب سے دوری ہمارا قومی المیہ ہے جس کے لیے میڈیا کو اپنی قومی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی نئی نسل کو کتابوں کی افادیت سے متعلق آگاہی دینی ہوگی۔

ملیحہ بتول نے کہا کہ میرے نانا عمر مہاجر ایک عہد ساز شخصیت تھے ہم اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتے ہیں کہ اتنی قد آور شخصیت کے زیر سایہ پرورش پانے کا موقع ملا۔ میرے نانا علم و ادب، تہذیب و شائستگی کا ایک قابل تقلید نمونہ تھے۔ دیگر مقررین میں نثار میمن، اقبال سہوانی، یامین احمد فاروقی و دیگر شامل ہیں جنہوں نے کہا کہ دونوں اسلاف دکن کی زرخیز زمین کی پیداوار اور جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل تھے۔ عمر مہاجر الفاظ کی اکانومی کے قائل تھے ذاتی دوستوں کو اسٹوڈیو میں لے جانے سے منع فرماتے۔ کشمیر کا ترانہ ”دشت تنہائی“ ہم دیکھیں گے آپ کی بہترین تخلیقات میں شامل ہیں۔

عمر مہاجر صاحب کی حیات و خدمات پر لکھی فریسہ عقیل کی تصنیف ”محمد عمر مہاجر: آثار و احوال“ نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ عمر مہاجر اور مسلم ضیائی عظیم آدمی تھے اور عظیم لوگ کبھی مرتے نہیں۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے قاری حسیب خان نے کیا بعد ازاں نعت کے لیے مسلم ضیائی کا کلام پیش کیا گیا۔ تقریب کی نظامت کے فرائض عبد الباسط نے ادا کیے۔ تقریب میں صدر اکادمی ڈاکٹر سید وسیم الدین، خواجہ قطب الدین، مسعود کمالی، حمید الدین بوزئی، شاہدہ رضوی، اقبال فاروقی و دیگر بھی موجود تھے۔

کوئی تبصرے نہیں