پیمرا، قوم کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے

Syeda Shireen Shahab

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا قیام سال 2002 میں جنرل پرویز مشرف کے دورِ صدارت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے پچپن برسوں بعد عمل میں لایا گیا۔ اس سے پہلے ہمارے وطنِ عزیز میں پیمرا جیسے ادارے کو قائم کرنے کی کوئی خاص ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ ملک میں چلنے والا واحد ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنام ”پاکستان ٹیلیویژن کارپوریشن“ یعنی پی ٹی وی حکومتِ پاکستان کی زیرِ نگرانی اپنا کام باخوبی سرانجام دے رہا تھا۔ حصولِ آزادی کے اوائل میں چونکہ ٹیلی ویژن عام تام نہیں ہوا تھا اور ریڈیو ہی دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر رکھنے اور عوام کی انٹرٹینمنٹ کا واحد ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک علیحدہ ملک حاصل کرتے ہی ریڈیو کے قواعد و ضوابط کا تعین کرنے کے لیے ”پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن“ کے نام سے ایک ادارہ وجود میں آگیا تھا۔

اس مملکتِ خداداد میں پہلا غیر سرکاری ٹی وی چینل ”انڈس ویژن“ کے نام سے سال2000 میں متعارف کروایا گیا پھر یکے بعد دیگرے کئی دوسرے پرائیویٹ چینلز پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اُتر آئے۔ جب تک عوام کی ٹیلیویژن کے حوالے سے تفریح حکومتِ پاکستان کی ذمہ داری تھی تب تک معاملات پر نظر رکھنا سہل تھا۔ جیسے ہی فن و مزاح اور حالتِ حاضرہ عوام تک پہنچانے کا بیڑا پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کے مالکان نے اُٹھایا۔ ملک میں ایک ایسے ادارے کو فعال کرنے کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگی جو ان چینلوں پر چلنے والے مواد پر کڑی نظر رکھے، تاکہ معاشرے سے تہذیب و تمدن کم ہونے نہ پائے۔ پیمرا کا وقوع پذیر ہونا اس سلسلے کی انتہائی اہم کڑی ہے ۔

میری ذاتی رائے ہے جو شاید غلط بھی ہو کہ پیمرا اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ یہ ملک جہاں کے ہم باسی ہیں ہمارے بزرگوں کی انگنت قربانیوں کے بعد دین اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، لیکن جب ہمیں پیمرا کے دائرہ کار میں آنے والے ٹی وی چینلوں کے بینر تلے منعقد ہونے والے ایوارڈ پروگراموں کو ملاحظہ فرمانے کا موقع میسر آتا ہے ہمارے سر چکرانے لگتے ہیں اور پوری قوم یک زبان سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ کیا یہ واقعی ایک اسلامی ملک ہے۔ مبالغہ آرائی کیے بغیر اُن ایوارڈ کی تقریبات میں شرکت کرنے والے مہمانوں کے زیب تن کیے ملبوسات سے لیکر وہاں سامعین کی تفریح کے لیے پیش کی جانے والی پرفارمنز تک ہر چیز مشرقی تہذیب کی نفی کرتی اور محض مغربی دنیا کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔

ایوارڈ کی بے باک محفلوں سے نظر ہٹائیں تو پرائیویٹ ٹیلیویژن چینلوں پر نشر ہونے والے آج کل کے روزمرہ کے ڈرامے طبیعت پر گراں گزرتے معلوم ہوتے ہیں۔ اول تو دورِ حاضر کا ہر دوسرا ڈرامہ عشق و محبت کی بے سروپا کہانیوں کے گرد گھومتا پایا جاتا ہے، جس سے ہمارا معاشرہ لطف اندوز ہونے سے زیادہ، تیزی سے بگڑتا محسوس ہو رہا ہے۔ دوئم یہ ڈرامے رشتوں کا تقدس پامال کرنے میں بھی اپنی مثال آپ ہیں، یقین نہ آئے تو خود تجزیہ کرلیجیے، ان ڈراموں میں دکھائے جانے والے تمام رشتے منفی سوچ لیے اپنے اردگرد کے لوگوں کی زندگی میں طوفان برپا کر رہے ہوتے ہیں۔ ساس سازشی، سسر برے، نند زہریلی، دیور / جیٹھ نکھٹو، دیورانی/ جیٹھانی حاسد اور کہانی کے ہیرو، ہیروئن دنیا کے دو سب سے مظلوم افراد کے طور پر صبح، شام ہماری ٹی وی اسکرینوں پر براجمان ہوتے ہیں۔

 اب یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ٹی وی پر آنے والا ہر ڈرامہ معاشرے میں خرابی پیدا کر رہا ہے، اُن میں کئی ایک اچھی ترقی پسند کہانیاں لیے حقیقت کے نزدیک تر اور اطراف کے ماحول کی درست تصویر اپنے قارئین تک پہنچا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جو ڈرامے ہماری زندگی کے اہم رشتوں کو غلط کاموں میں ملوث کہانی کے دوسرے کرداروں کا سکون تباہ کرتے دکھاتے ہیں، وہاں آخر میں ایسے لوگوں کا انجام عبرت ناک اور بھیانک پیش کیا جاتا ہے، مگر مکافاتِ عمل کی ساری کارروائی کہانی کے اختتام پر رونما ہوتی ہے جبکہ آغاز سے ڈرامے کی تیس، پینتیس قسطوں تک گھریلو سیاست، خاندانی چپقلشوں اور منافقت کی جیتی جاگتی مثالیں ہی عوام کو دیکھنے کو ملتی ہیں۔ انسانی ذہن پر گہرا اور دیرپا اثر وہی مناظر ڈالتے ہیں جن کو وہ طویل عرصے تک بلاناغہ دیکھتا آیا ہو۔

 یہ ڈرامے جو پاکستانی قوم تفریحاً اور وقت گزاری کے طور پر دیکھ رہی ہے، وہ ہمارے مزاجوں، رویوں اور سوچ پر بری طرح اثرانداز ہو رہے ہیں اور ہمیں اس بات کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ ہمارا پورا معاشرہ ان ڈراموں کو صرف دیکھ نہیں رہا بلکہ من وعن اپنے وجود میں اُتار رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد ہونے والی اچھی باتوں پر بھی شک کی نگاہ رکھتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے والی ہر آفت کا ذمہ دار اپنے رشتے داروں کی حسد بھری نظروں کو ٹھہراتے ہیں۔ عشق و عاشقی کو اچھا سمجھ کر اپنے خونی رشتوں پر افضل گردانتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی فلمی محبت کی مخالفت کرنے والے افراد کو چاہے وہ خود کے والدین ہی کیوں نہ ہوں، اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے سے اخلاقیات رخصت ہورہی ہے اور درپردہ اس کی وجہ پیمرا کی نااہلی ہے۔

کچھ عرصہ قبل ایک ڈرامہ دیکھنے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اُس میں ہیرو کی پٹائی کے بعد سر سے نکلنے والا خون سرخ نہیں کالا تھا، مجھے بڑا تعجب ہوا کہ خون کالا کب سے ہونے لگا۔ تھوڑی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ پیمرا کی نئی پالیسی ہے کہ لہوکو اُس کے حقیقی رنگ میں نہیں دکھایا جائے تاکہ اس ملک کے باشندوں کا لہو جوش نہ مارے۔ ایسی مضحکہ خیز بات جان کر مجھے خوب ہنسی آئی اور ترس آیا پیمرا کی معصومیت پر، وہ بیچارے سمجھتے ہیں پاکستان کے تمام مسئلے خون کا اصل رنگ چھپا کر حل کیے جاسکتے ہیں۔ اس ملک کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس زندگی کے لاتعداد جھمیلوں سے چند لمحات کی آزادی پانے کے لیے معیاری اور صحت مندانہ تفریحی مواد نہیں ہے، اگر پیمرا ایسے ہی اپنے فرض کی ادائیگی سے منہ پھیرتا رہا تو پاکستانی قوم کبھی نہیں جاگے گی۔

 دنیا ٹیلی ویژن کے پلیٹ فارم کو اپنی قوم کی ازسرِنو تربیت کے لیے استعمال کررہی ہے اور دوسری جانب ہم فضول قسم کی کہانیوں اور بے ڈھنگے گیم شوز سے باہر نہیں آ پارہے ہیں۔ ہر سال ماہِ رمضان کے مقدس مہینے میں پوری قوم بےکار کھیلوں کے مقابلے والے بے مقصد اور بے ہنگم پروگراموں سے مزا لیتی پائی جاتی ہے۔ جب تفریح کے نام پر پاکستانیوں کے پاس ایسے شور وغوغا کے سوا کچھ نہیں ہوگا تو وہ بیچارے بھی کیا کریں گے۔ ہمارے ٹی وی پر آنے والے بےشمار چینلوں میں خالصتاً بچوں کا ایک چینل نہیں ہے، کہیں کسی چینل پر معلوماتی پروگرام نہیں آتا، پاکستانی تاریخ اور اس خطے کو آزاد کروانے کی جدوجہد پر روشنی ڈالنے کے حوالے سے کوئی چینل مختص نہیں کیا گیا ہے۔ میری پیمرا سے مودبانہ درخواست ہے کہ خدارا اس ملک کی تہذیب و ثقافت کو قصہ پارینہ بننے سے بچالیں، قوم کا مستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

1 تبصرہ:

  1. ملک کے ٹی وی چینلز پر چلنے والے پروگرامز خاص طور پر ڈراموں کا درست تجزیہ کیا ھے ۔ ان ڈراموں
    میں دکھاٸے جانے والے ایشوز یقینی طور پر ھمارے معاشرے پر برے اثرات ڈال رھے ھیں۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان ڈراموں میں دکھاٸی جانے والی براٸیاں ھمارے معاشرے میں نہیں ھیں۔ لیکن یہ اکثریت کا مسلہ نہیں ھیں۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ھے کہ ٹی وی چینلز وہ فعال کردار ادا نہیں کر رھے جس کی ھمارے معاشرے کو ضرورت ھے

    جواب دیںحذف کریں