شہرت بڑی ظالم شے ہے یہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی، رخسانہ صبا
رخسانہ صبا |
انٹرویو: محمد بخش
سوال۔ آپ حال ہی میں بحرین کا دورہ کرکے واپس آئی ہیں یہ تجربہ کیسا رہا؟
جواب۔ بحرین میں پاکستانی
کمیونٹی نے مشاعرہ کروایا تھا خصوصاً عبدالحق عارف صاحب اس سلسلے میں بہت سرگرم عمل
تھے پاکستان سے میں نے اور انور مسعود صاحب نے شرکت کی اور ہمیں اس بات کی خاص طور
پر خوشی ہوئی کہ بحرین کے سامعین بہت اچھا جمالیاتی ذوق رکھتے ہیں اور شاعری کی تفہیم
کا سلیقہ بھی انھیں ہے ہمیں وہاں بہت پذیرائی ملی اور مجموعی طور پر بھی مشاعرہ بے
حد کامیاب رہا۔
سوال۔ آپ اپنی ابتدائی
زندگی اور تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں نیز ادب کی جانب کیسے راغب ہوئیں؟
جواب۔ میں نے ایم اے
(اردو لٹریچر) اور ایم ایڈ (ایڈمنسٹریشن) فرسٹ کلاس میں کیا اور میں تدریس کے شعبے
سے وابستہ ہوں۔ میں نے ابتدا ہی سے گھر میں لکھنے پڑھنے کا ماحول دیکھا والدہ کو بھی
کتابیں پڑھنے سے دلچسپی تھی اور بہن مضمون نگار اور افسانہ نگار تھیں۔ میں نے اپنے
نانا کو نہیں دیکھا لیکن سنا ہے کہ وہ انڈیا میں بہت اچھے صحافی اور شاعر تھے۔ میں
اپنے اسکول کے زمانے سے ہی لکھنے پڑھنے کی طرف راغب تھی اور اپنے اسکول میگزین ”عزم
نو“ کی ایڈیٹر تھی۔ میں نے بچپن اور زمانہ طالب علمی میں نامساعد حالات کا سامنا کیا
شاید اسی لیے زندگی اور اس کے رویوں کے بارے میں میرے احساسات شدید تھے اور اسی حساسیت
نے مجھے ادب کی جانب راغب کیا کیونکہ ادب زندگی اور اس کے تمام رویوں کے اظہار کا نام
ہے۔ ابھی میں اسکول لائف ہی میں تھی کہ میری بہن کی شادی معروف ادیب، شاعر اور صحافی
جناب امداد نظامی سے ہوئی۔ ان کی حوصلہ افزائی اور تربیت نے بھی میرے دل میں شعر و
ادب سے محبت پیدا کی۔
سوال۔ کیا کسی شاعر
یا ادیب کی ادبی حیثیت کا تعین کتابوں کی تعداد اشاعت سے کیا جاسکتا ہے؟
جواب۔ کسی شاعر یا
ادیب کی ادبی حیثیت کا تعین درحقیقت اس کی شاعری یا نثر کے معیار سے ہوتا ہے مقدار
سے نہیں۔ پطرس بخاری کے مزاحیہ مضامین کا صرف ایک مختصر سا مجموعہ ان کو بقائے دوام
عطا کرگیا۔ غالب کے مختصر سے اردو دیوان نے ان کے سر پر شاعرانہ عظمت کا جو تاج رکھا
اس سے تمام اہل نظر بخوبی واقف ہیں۔ فی زمانہ کتابیں تو بہت بڑی تعداد میں چھپ رہی
ہیں مگر بمشکل چند کتابیں ایسی ہوتی ہیں جن میں معیاری ادب نظر آتا ہے۔ چالیس پینتالیس
مجموعے شایع کروا لینے سے کوئی بڑا شاعر نہیں بن سکتا۔
سوال۔ آپ کن شعرا کے
کلام سے متاثر ہیں؟
جواب۔ میں نے زیادہ
تر کلاسیک اور جدید شعرا کے کلام کا مطالعہ کیا ہے اور میں یہ سمجھتی ہوں کہ کسی بھی
غیر معروف شاعر کا کوئی بھی اچھا شعر آپ کو متاثر کرسکتا ہے اور کسی بھی بڑے شاعر کے
ہاں ایسے اشعار مل سکتے ہیں جو آپ کو متاثر نہ کریں۔ بہرحال میں نے فیض احمد فیض، اختر
الایمان اور محشر بدایونی کے کلام کا زیادہ مطالعہ کیا ہے۔
سوال۔ کیا آپ شہرت
کی جستجو رکھتی ہیں؟
جواب۔ شہرت کی طلب
انسانی مزاج کا لازمی حصہ اور اپنی شناخت اور اپنی انفرادیت کا احساس اور اپنے آپ کو
منوانا انسانی نفسیات کا جزو لازم ہے۔ اس حوالے سے یہ ناممکن ہے کہ میرے اندر یہ جستجو
نہ ہو لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ شہرت بڑی ظالم شے ہے یہ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
اس لیے میں اس شہرت کی تمنا نہیں رکھتی جس کے بدلے میں مجھے حرف کا اعتبار، لفظوں کی
توقیر اور اپنی شخصیت کا وقار کھونا پڑے میں لفظ اس لیے تخلیق نہیں کرتی کہ مجھے شہرت
ملے اور میڈیا میں میری تصاویر اور انٹرویوز شایع ہوں۔ میں شعر اس لیے کہتی ہوں کہ
شاعری انسان کی انفرادیت اور اجتماعیت کے اس سفر کے درمیان ہر عہد کا صداقت نامہ ہے۔
شعر کہنے کی صلاحیت چونکہ خدا کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے۔ اس لیے اپنے عہد کی سچائی اور
انسانی تمدن کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو لفظوں کی زبان عطا کرنا میری ذمہ داری ہے۔
سوال۔ آج کے عہد میں
نظم پر کم توجہ دی جا رہی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب۔ پاکستان میں
اردو شاعری کا تجزیہ کیا جائے تو نظمیں تو لکھی جا رہی ہیں اور نصف صدی میں اردو نظم
نے قابل قدر ترقی کی ہے لیکن اگر آپ عمومی سطح پر اور مشاعروں کی سطح پر دیکھتے ہیں
تو اب تک ہم نظم کے قارئین اور سامعین سے محروم ہیں۔ خصوصاً مشاعروں میں اب تک ہم نظمیں
سننے، سمجھنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی تربیت لوگوں کو نہیں دے سکے اور پبلک
مشاعروں میں تو غزل کے حوالے سے بھی ہم سامعین و حاضرین کی تربیت نہیں کرسکے۔ شاید
یہی وجہ ہے کہ ہماعرے زیادہ تر شاعر مشاعروں اور ادبی نشستوں میں داد اور پذیرائی کے
خیال سے غزل سنانا ہی پسند کرتے ہیں اور نتیجتاً نظم لکھنے پر شعرا کی توجہ کم ہے کیونکہ
نظم لکھنا ویسے بھی مشکل کام ہے۔ نظم میں شروع سے آخر تک ایک تسلسل برقرار رکھنا اور
موضوع کو اپنی گرفت میں لینا آسان نہیں لیکن نظم عہد حاضر کے موضوعات کی وسعت کو اپنے
اندر سمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے ہمارے شعرا کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
سوال۔ کیا شاعری کوئی
الہامی فن ہے؟
جواب۔ عزیز حامد مدنی
نے کہا تھا کہ ”شاعری انسانی نفسیات کی فتح و شکست کے درمیان پوری تہذیب و تاریخ کی
علامت ہوتی ہے اور اس کے جذب دروں میں انکشافات کی ایسی دنیا ہوتی ہے جس کی ایک سے
زیادہ تفسیریں ہو سکتی ہیں۔“ ان جملوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو سچی اور بڑی شاعری
کو ہم بڑی حد تک الہامی فن قرار دے سکتے ہیں کیونکہ جذب دروں کے انکشافات کا تعلق وجدان
و آگہی سے ہوتا ہے اور وجدان اور الہام کو ہم غیر متعلق قرار نہیں دے سکتے تاہم یہ
سوال ایسا ہے کہ اس پر دوسرے پہلو سے بھی گفتگو ہو سکتی ہے کیونکہ ہر قسم اور ہر سطح
کی شاعری کو الہامی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سوال۔ کیا شاعری شخصیت
کا آئینہ ہوتی ہے اور کیا اعلیٰ شاعری کی تخلیق کے لیے اعلیٰ کردار ضروری ہے؟
جواب۔ دراصل اعلیٰ
کردار کا صحیح تعین کرنا بہت مشکل امر ہے دنیا کی ہر زبان کے بہت بڑے اور عظیم شعرا
کے کلام اور شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ان کے ہاں بھی انسانی کمزوریاں نظر آتی
ہیں مگر بعض انسانی اوصاف کے حوالے سے ان کی شخصیت نمایاں شناخت بھی رکھتی ہے تاہم
بعض اوقات یہ بات متنازعہ بھی ہو جاتی ہے۔ اس لیے اس پر گفتگو کے لیے ایک طویل وقت
درکار ہے۔
سوال۔ ادب میں
PR کی
کتنی اہمیت ہے اور کیا شہرت کا حصول ادب میں بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے؟
جواب۔ ادب میں
PR کی
بہت اہمیت ہے سچے اور اچھے لکھنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور تخلیقی سطح پر
کمزور اور غیر اہم لوگ ادبی تنظیموں اور ادبی مراکز میں سرگرم عمل ہیں۔ افسوس کی بات
یہ ہے کہ اب ایسے لوگ بھی PR کی روش پر چلنا شروع
ہوگئے ہیں جن سے یہ توقع نہیں تھی۔ میں تو جب اپنے اردگرد نظر ڈالتی ہوں تو یہ یقین
مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے کہ ادب میں شہرت کا حصول بنیادی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ بڑا اور عظیم ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے۔
سوال۔ مشاعروں میں
ترنم کی روایت شاعر کے کلام یا شہرت پر کیا اثر ڈالتی ہے؟
جواب۔ مشاعروں میں
ترنم سے پڑھنے والے شعرا بعض اوقات زیادہ شہرت حاصل کرلیتے ہیں۔ کیونکہ عمومی سطح کے
سامعین اس سے متاثر ہو جاتے ہیں تاہم اس سے خود شاعر کی توجہ اپنے کلام سے ہٹ جاتی
ہے اور سامعین کی توجہ شعر کے اصل مفہوم سے۔ لہٰذا تحت اللفظ میں پڑھی جانے والی شاعری
اگر وہ اعلیٰ معیار کی ہے تو اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں عام طور پر ترنم اور معیار
ساتھ ساتھ ذرا کم ہی نظر آتے ہیں۔
سوال۔ کیا مشاعروں
کی افادیت کم ہوتی جا رہی ہے؟
جواب۔ ستر بلکہ اس
کی دہائی تک تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مشاعرے لوگوں کی ادبی، ذہنی و سماجی تربیت کا
بڑی حد تک وسیلہ تھے تاہم اس کے بعد سے مسلسل مشاعروں کی افادیت میں کمی ہوتی جا رہی
ہے۔ تعلیمی تنزل اور الیکٹرانک میڈیا کے منفی اثرات کی بدولت لوگوں کا جمالیاتی ذوق
ختم ہو چکا ہے لہٰذا سامعین کی کثیر تعداد محض تفریح کے لیے آتی ہے اور اکثر مشاعروں
میں شعرا کی شرکت سفارش اور گروہ بندیوں کی بنیاد پر ہوتی ہے اس لیے زیادہ مشاعرے اب
وقت کے زیاں کا سبب بن رہے ہیں۔
سوال۔ کیا شاعرات میں
نمبر ون بننے کی دوڑ شروع ہوچکی ہے؟
جواب۔ مجھے اس قسم
کی کسی سرگرمی کا علم نہیں ہے لیکن اگر علم ہوتابھی تو مجھے اس دوڑ میں حصہ لینے کی
کوئی خواہش نہ ہوتی کیونکہ شاعری میرے نزدیک شوبز یا گلیمر کا کوئی حصہ نہیں اس کا
تعلق خالصتاً میرے ذاتی اور عصری کرب کے اظہار سے ہے۔
سوال۔ شاعری اور تنقید
میں آپ کے نمایاں کام کے باوجود کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کو وہ مقام ملا؟
جواب۔ پہلی بات تو
یہ ہے کہ میں نے شاعری اور تنقید میں کوئی نمایاں کام نہیں کیا دوسری بات یہ کہ اگر
آپ ایسا سمجھتے ہیں تو اس کا جواب ہاں میں بھی ہو سکتا ہے اور نہیں میں بھی۔ لیکن اس
کے لیے آپ کو مقام کی صحیح تعریف کی وضاحت کرنی پڑے گی۔ کوئی شہرت، نام و نمود اور
بیرونی ممالک کے دوروں کو مقام سمجھتا ہے اور کوئی گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر تخلیقی
عمل کو فروغ دینے کو ہی اصل مقام گردانتا ہے۔
سوال۔ ٹیلنٹ کے قارئین
کے لیے تازہ کلام۔
جواب۔ اپنی ایک پسندیدہ
غزل پیش خدمت ہے۔
ترے خوابوں کے آئینے میں
ڈھلنا چاہتے ہیں
نئے انداز سے پتھر پگھلنا
چاہتے ہیں
جہاں ہر ہر قدم تازہ سفر
پیش نظر ہو
ہم ایسے راستے پر اب بھی
چلنا چاہتے ہیں
گزارش صرف اتنی ہے وہ
پہلے خود کو بدلیں
جو اپنے عہد کا چہرہ
بدلنا چاہتے ہیں
انھیں جب شام ڈھلتے ہی
گھروں کو لوٹنا ہے
تو سائے جسم سے پھر کیوں
نکلنا چاہتے ہیں
ہوا کی دشمنی تو شور
طوفاں سے عیاں ہے
شکستہ بادباں کس سمت چلنا
چاہتے ہیں
وہ عہد ناشناسی ہے کہ اب
اہل ہنر بھی
خود اپنی ہی ستائش سے
بہلنا چاہتے ہیں
ترے برفاب موسم بھی بہت
پیارے ہیں مجھ کو
محبت ہم تری ٹھنڈک میں جلنا چاہتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں