شادی بیاہ پر بے جا اسراف

ریحانہ علی

 ہمارا ملک ایک غریب ملک ہے۔“ ہم نے نقرئی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ خاتون دبکے کام والی بھاری ساڑھی پر سونے کا جڑا سیٹ پہنے کھڑی تھیں ان کے دونوں ہاتھ سونے کی چوڑیوں سے بھرے الغرض وہ سونے کی کان بنی ہوئی تھیں۔ میک اپ کی تہیں چڑھائے شادی ہی میں شریک ایک اور خاتون سے مخاطب تھیں۔ (واقعی کوئی بھی ان کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ ہمارا ملک غریب ہے اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ شادیوں کی تقریبات میں جس بے پروائی سے پیسہ خرچ کیا جاتا ہے اور خواتین کی کثیر تعداد بھاری بھاری زیورات پہنے ہوتی ہیں اسے دیکھ کر تو یقین آنے لگتا ہے کہ ہم ایک پسماندہ ملک کے باشندے ہیں۔ جہاں ملک کی 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے) صرف وہی خاتون کیا اس شادی کی تقریب میں شامل ہر خاتون یہ بتلانے پر تلی ہوئی تھیں کہ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں۔ شادی کی تقریبات میں خرچ کیا جانے والا پیسہ، خرچ کرنے والے کی امارت کو ظاہر کرتا ہے۔

کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ شادی کی تقریبات گھروں کے آگے شامیانہ لگا کر کی جاتی تھیں مگر زمانے کی تبدیلی کے ساتھ شادی ہال قائم ہوگئے ہیں چنانچہ اب لوگوں کی ترجیحات میں تبدیلی بھی آگئی جو ہال خوبصورتی کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے زیادہ پیسے وصول کرتا ہے نام نہاد امراءکی اکثریت وہاں شادی کرنا پسند کرتی ہے۔ آخر اس بناوٹ یا دکھاوے کا سبب کیا ہے؟ اگر تجزیاتی انداز میں دیکھا جائے تو صرف ایک ہی طبقہ ساری تعیشات کو افورڈ کر سکتا ہے مگر ہمارے یہاں تو یہ رواج ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے جو طبقہ اس طرح کی شادی نہیں کرسکتا وہ کہیں نہ کہیں سے قرض لے کر یہ سب کچھ کرنے پر مجبور ہوتا ہے ظاہر ہے معاشرے میں اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے۔ کیونکہ چار الفاظ انھیں عفریت کی طرح ڈراتے رہتے ہیں اور وہ چار الفاظ یہ ہیں ”لوگ کیا کہیں گے“ یہ وہ جملہ ہے جس خوف کے زیر اثر ہو کر ہم اپنی چادر سے پاؤں باہر نکالتے ہیں سادہ طرز زندگی چھوڑ کر بناوٹ کے پیچھے بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ صرف طعام ہی نہیں دلہن دولہا کے ملبوس دلہن کا میک اپ دلہن کو چڑھایا گیا زیور جسے ہاتھ لگا کر اس کی قیمت کا اندازہ کرنے کے ساتھ ساتھ دلہن و دولہا کے گھر والوں کی حیثیت کا اندازہ کرتے ہیں (اس کے ساتھ ہی وہ اپنی چھوٹی ذہنیت کے بارے میں اظہار کرتے ہیں) دلہن کے میک اپ کے بارے میں معلوم کیا جاتا ہے کہ وہ کس بیوٹی پارلر سے کرایا گیا ہے کتنے کا دلہن کا سوٹ ہے جتنا مہنگا سے مہنگا سوٹ خریدا جاسکتا ہو خریدا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بری میں دیے گئے جوڑوں کی نمائش اس طرح کی جاتی ہے کہ جیسے فیشن شوز میں ماڈلز مختلف چیزوں کی نمائش کرتی ہیں۔

جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے پیسہ کی قیمت میں کمی ہوتی جا رہی ہے ویسے ہی ان تقریبات میں شرکت کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے اور ہم امیر سے امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں شادی کی تقریبات میں صرف نکاح اور ولیمہ کا فنکشن نہیں ہوتا بلکہ مہندی مایوں کے فنکشن بھی ہوتے ہیں جن پر بے دریغ پیسہ لٹایا جاتا ہے اب تو یہ فنکشن بھی ہالز میں منعقد کیے جاتے ہیں (حالانکہ مہندی محض ایک رسم ہے) لیکن معاشرے میں رسموں کو اپنی اپنی خواہشات کے مطابق اس کو مختلف انداز سے ڈھالتے رہتے ہیں ڈانڈیا کا کلچر جو ہندی فلموں سے اخذ کیا گیا ہے مہندی و مایوں کی رسموں میں عام ہوتا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی مہندی کی تقریب میں رات گئے موسیقی کا فنکشن ہوتا ہے جس میں شوبزنس سے تعلق رکھنے والے مختلف آرٹسٹوں کو بلا کر رات بھر موسیقی کا پروگرام جاری رکھا جاتا ہے ظاہر ہے آرٹسٹ بغیر معاوضہ کے تو نہیں گائیں گے اس کام کا اثر بھی جیب پر پڑتا ہے مگر انا کو تسکین اس بات سے ہو جاتی ہے اور چار لوگوں کے اندر یہ بات مشہور ہوگی کہ فلاں کی شادی میں ٹی وی آرٹسٹ آئے تھے۔

کس قدر عجیب بات ہے ہم جو اشرف المخلوقات ہیں خود کو انسان کہلاتے اور سمجھتے ہیں انسانیت کی منزل سے گرتے جا رہے ہیں جھوٹی شان و شوکت اور نمود و نمائش کے پیچھے اندھا دھند بھاگ رہے ہیں اور اس بات کا اندازہ بھی نہیں کہ آگے کھائی ہے۔ قرآن شریف میں بھی بے جا اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ ہمارے آخری رسول حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بارہا فضول خرچی سے منع کیا ہے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں ہمارے رسول پاک نے اپنی پیاری بیٹی بی بی فاطمہ کی شادی کس سادگی سے کی تھی کیا دونوں جہانوں کے والی جن کے اختیار میں سب کچھ تھا کیا کچھ نہیں دے سکتے تھے مگر انھیں دنیا کو دکھانا مقصود تھا کہ ایک تو بے جا اسراف سے پرہیز دوسرے سادگی کی تلقین ہم نام تو حضور کا لیتے ہیں خود کو ان کی امت کہتے ہیں مگر ان کے احکام پر عمل نہیں کرتے۔

ہمارے معاشرے سے سادگی کی رسم بالکل ختم ہوتی جا رہی ہے کتنے لوگ یا خاندان ایسے ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادی سادگی سے کرنا چاہتے ہیں ہر شخص شادی اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں لڑکی یا لڑکے والوں کے سامنے ان کی ناک نیچے نہ ہو جائے۔ کتنے لوگ ہیں جو بی بی فاطمہؓ کی طرح اپنی بیٹیوں کی شادی کرسکیں اور فخر سے کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے نبی کی سنت پر عمل کیا ہے۔ مسئلہ صرف بیٹیوں کی شادی ہی کا نہیں لڑکے والے خود چاہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ دھوم دھام سے اپنے بیٹوں کی شادی کریں اور ہر ہر انداز سے اپنی امارات اور حیثیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جن خاندانوں میں لڑکیوں کے والدین زیادہ دھوم دھام سے شادی نہیں کرسکتے وہاں اچھے خاصے رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ظاہر ہے رشتوں کے ایسے قحط زدہ دور میں کون سے والدین ہوں گے جو اچھے رشتوں کو ہاتھ سے جانے دیں گے یقینا کوئی نہیں یہی بات ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے کاش تباہی کی طرف جاتے ہوئے ہمیں اتنی عقل آجائے کہ ہم سوچ سکیں کہ کس منزل کس راہ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دوسروں کو تلقین کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ہمیں خود کو آئینے میں دیکھنا اور سوچنا چاہیے نہ کہ دوسروں کو اس کی تلقین کرنی چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں