بنیادی غلطی

سندھی کہانی: منظور بلوچ

مترجم: محمد بخش

 وہ کلاس میں زور زور سے کہتا تھا۔ ”بابا جس کو سماجی نفسیات Social  Psychology  پر لیکچر سمجھ میں نہ آیا ہو۔ وہ اٹھ کر سوال کرے!“ لیکن اس کے پورے دس سالوں کا تجربہ تھا۔ سوائے اکا دکا شاگرد کے کسی نے بھی اس سے سوال نہیں کیا تھا۔ اسے شاگردوں کے سامنے لیکچر دیتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ بے جان پتھروں کے آگے جھک مار رہا ہے اور اپنا دماغ کھپاتا ہے اور یہ احساس کہ ”آیندہ نسل کا کیا بنے گا؟“ اسے اکثر ستاتا تھا۔ اس لیے وہ اکثر چڑ کر شاگردوں کو ٹوکا کرتا ”میں مانتا ہوں کہ Child is father of man  پر مجھے آپ جیسوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اگر آپ جیسے لوگ باپ بنے تو قوم کا حشر کیا ہوگا؟ یہ اس قوم کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ اس کی آیندہ نسل عقل اور علم کی دشمن ہے۔

لیکن ان چڑانے اور جوش دلانے والے جملوں کا اثر شاگردوں پر نہیں ہوتا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا جیسے ستونوں اور دیواروں سے مخاطب ہے جن کے ذہنوں میں انسانی شعور کو بڑھانے کے لیے کیوں، کیسے، کہاں، کون سا، کس لیے اور کس کے لیے جیسے بنیادی سوالوں نے جنم ہی نہیں لیا۔ اس لیے وہ ان شاگردوں کے بارے میں یہ رائے دیتا ہوا ہچکچاتا نہیں تھا کہ ”یہ بچگانہ سوچ بھی کم باشعور ہیں۔

ہمیشہ کی طرح آج بھی، وہ کلاس میں سے بکتا ہوا نکلا تھا۔ اس نے مایوسی کے ساتھ سوچا کہ اس کا لیکچر جو سو کتابوں کا نچوڑ اور مشاہدے کی عرق ریزی تھا۔ جس میں اس کے شاگردوں نے ”کچھ پایا بھی ہوگا یا نہیں؟“ آج عام دنوں کی طرح کلاس لینے کے بعد اس کے پاس اتنی فرصت نہ تھی کہ وہ ٹیچرز کامن روم میں دیگر اساتذہ کے ساتھ بیٹھ کر شاگردوں کی حالت زار پہ تجزیہ کرے کہ شاگردوں کے نہ پڑھنے اور سمجھنے کا بڑا سبب خاندان والوں کی عدم توجہی ہے۔ کیونکہ وہ اس نظریے سے متفق تھا کہ بنیادی طور خاندان بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ جہاں اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ملتی ہے اور انسانی فکر اور شعور کو بڑھانے والے بنیادی سوالوں کا جواب ملتا ہے۔ اس لیے وہ شاگردوں کو Delinquent Child کی اصطلاح سے پکارتا تھا۔ اس کے خیال میں ایسے نوجوانوں کو کالج میں ہونے کی بجائے بورسٹیل جیل میں ہونا چاہیے۔ تقریباً سب ہی استاد اس کی ان پیچیدہ مگر پرمغز چھان بین سے اتفاق کرتے اور اس کی حمایت میں اپنی رائے بھی شامل کردیتے۔

اس کی جیب میں بیوی کی سودا سلف کے لیے دی ہوئی لسٹ اور صبح سے ملی ہوئی تازہ تنخواہ پڑی تھی۔ اس لیے اس کا سانس تنگ ہو گیا تھا کہ خریداری کے لیے دوپہر اسے کالج میں ہو گئی تھی۔

وہ وقت اور قوت کو بچانے کی خاطر رکشہ کا سہارا لے کر شاہی بازار پہنچ چکا تھا۔ بازار میں گھر والی کی دی ہوئی لسٹ اور سرکار کی دی ہوئی تنخواہ میں تقابل کیا، تب اسے یہ احساس کھا گیا کہ طلب بہت زیادہ اور رسد انتہائی کم ہے۔ کافی اشیا کم کرنی پڑیں یا کم مقدار اور تعداد میں لینی پڑیں۔ اسی طرح تمام بازار میں شام ہوگئی تھی۔ اور جب وہ سورج ڈھلے گھر پہنچا تو بیوی نے نمک مرچ سے لے کر کپڑے لتے کی ایسی چیکنگ اور پوچھ پرت کی، جیسے کوئی آدمی کسٹم کے عملے یا ایف۔آئی۔اے والوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ صبر و ضبط کے ساتھ ہر سوال کا جواب دینے کے بعد اسے وہی رائے ملی کہ ”تم تو اپنے آپ کو لٹوا کر آئے ہو۔

نہانے کے بعد اس نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ ٹیبل پر رکھی ہوئی دوپہر کی روٹی اطمینان سے کھانے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظریں چھوٹے بیٹے کا تعاقب کر رہی تھیں جوکہ بیوی کے پیچھے پیچھے اس کی قمیض کا کونا کھینچ کر کچھ پوچھ رہا تھا اور وہ بیزاری سے قمیض کا کونا چھڑاتے ہوئے اسے جھڑکیاں دے رہی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بے ضمیری کے سودے

اڑے! کیا ہے؟ کیا پوچھتا ہے؟“ اس نے بیوی کو آواز دیتے ہوئے پوچھا۔

بیوی نے جوکہ رات کے کھانے کی تیاری کے لیے باورچی خانے میں آ جا رہی تھی۔ بیٹے کو بازو سے پکڑ کر اس کے سامنے لاکر کھڑا کردیا۔

یہ ہے تمہارا بیٹا میرے لیے مصیبت بن چکا ہے! ایسے ایسے سوال کرتا ہے۔ جو فارغ ہو وہ اس کو بیٹھ کر جواب دے۔

آخر پوچھتا کیا ہے؟ اس نے روٹی کا آخری لقمہ کھاتے ہوئے کہا۔

کبھی پیٹ کی طرف اشارہ کرکے پوچھتا ہے، اس پیٹ میں کیا ہے؟

جواب دیتی ہوں ”بچہ ہے اندر سو رہا ہے۔“ تو کہتا ہے ”اندر کیوں گیا ہے۔ دکھاؤ؟

کس لیے اتنی ضد کرتا ہے؟ کل تو پاڑے والی عورتوں کے سامنے آ کر اتنا تنگ کیا کہ تھپڑ مار کر بس کرانی پڑی۔ اب اس کو اسکول میں داخل کراؤ تاکہ جان چھوٹے۔“ اس نے شوہر کو بیٹے کے عجیب و غریب سوالوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا۔

اس بات پر بچے کو ڈراتی اور مارتی ہو؟ اس نے بیوی کو ہلکی سی ڈانٹ پلائی۔

تو اب سنبھالو اپنے (لاڈلے بیٹے) کو! دو اس کے سوالوں کا جواب تاکہ تمہیں بھی خبر ہو۔“ بیوی خفا ہوتے ہوئے جان چھڑا کر کچن میں چلی گئی۔ وہ بیوی کے ابھرے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر سوچنے لگا ”اگر یہ ایک بچے کو سنبھال نہیں سکتی تو آنے والے مہمان کا سامنا کیسے کرے گی؟“ اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ کھانے کے بعد وہ جلدی سے ہاتھ دھو کر واپس آیا تاکہ کچھ دیر کے لیے وہ بیٹے کو بہلا سکے۔ اس نے پیار سے بیٹے کو بلاتے ہوئے کہا ”بابا! ہم چھت پر چل کر چاند دیکھتے ہیں، ٹھیک ہے نا بابا؟

ٹھیک ہے!“ بیٹے نے جواب دیا۔ چھت سے چاند سفید نکھرا صاف آسمان میں نظر آ رہا تھا۔ اس کے اندازے کے مطابق یہ چودھویں یا پندرہویں تاریخ کا تھا۔ جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی نے دونوں کی آنکھوں کو فرحت پہنچائی۔ چاندنی کا سحر دونوں پر طاری ہو گیا۔ لیکن چھوٹے بچے کی جستجو اور سوال کرنے والی فطرت نے اس سحر کو توڑ دیا۔

بابا! چاند کیوں چمکتا ہے؟

چاند میں روشنی ہے بابا!“ اس نے بیٹے کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے جواب دیا۔

کیسے؟

جیسے بلب میں!“ اس نے بیٹے کو مثال سے سمجھاتے ہوئے کہا۔

بلب میں تو تار ہوتی ہے؟“ بیٹے نے مشاہدے کے تحت پوچھا۔ ایسی پوچھ گچھ نے اسے احساس دلایا کہ اس کا بیٹا کافی ذہین ہو چکا ہے جو ابھی پورے پانچ سال کا بھی نہیں ہوا ہے۔ اس نے پہلے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے دوسرا جھوٹ بولا ”چاند والی تار چھپی ہوئی ہے نہ بابا!“

کس نے چھپائی ہے؟“ بیٹے نے چھپانے والے کی چوری پکڑنے کے لیے سوال کردیا۔

اللہ سائیں نے!“ اس نے یہ الزام اس پر تھوپ دیا جوکہ ہر بے دلیل آدمی تھوپ دیتا ہے۔

اللہ سائیں، کہاں ہے؟“ بیٹے نے پرانا لیکن مشکل سوال کر ڈالا۔

اللہ سائیں، پرےپرےآسمان میں رہتا ہے۔“ اس نے ہاتھ کو سامنے آسمان کی طرف تین فٹ تک بلند کرتے ہوئے بیٹے کو خدا کا دور ہونا سمجھایا۔

بابا! کس لیے دور ہے اللہ سائیں؟“ بیٹے نے معصومیت سے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ اب اس کے جھوٹے جوابوں کا پیمانہ خالی اور غصہ کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔

کس لیے کے بچے! بس کرو نہیں تو لگاؤں گا ایک تھپڑ۔ کب سے دماغ کھا رہے ہو۔ اس نے بیٹے کو غصے میں تھپڑ مار کر خاموش کردیا جوکہ ہر بڑے کا ہر چھوٹے کو خاموش کرانے کا آخری حربہ ہوتا ہے۔ لیکن سماجی نفسیات کے استاد کو اس وقت یہ احساس نہ رہا کہ اسی سے بنیادی غلطی ہو رہی ہے کہ انسانی شعور کو بڑھانے والے بنیادی سوال اس کے بیٹے کے گالوں پر آنسوؤں کی صورت میں بہتے ہوئے حیرت سے پوچھ رہے ہیں۔

کیوں کس لیے؟ کس کے لیے؟

کوئی تبصرے نہیں