بے ضمیری کے سودے
ڈاکٹر منصورنورانی |
سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ موجودہ حکومت اپنی تمام ناکامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے دور حکومت کے چوتھے سال کو بھی بڑے آرام و اطمینان کے ساتھ پورا کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ چند نشستوں کی برتری سے قائم یہ حکومت کو اس کی اپوزیشن سوائے یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنائے جانے کے کسی اور اہم معاملے میں آج تک زیر نہیں کر پائی۔ یوسف رضا گیلانی کا انتخاب بھی شاید اس لیے ممکن ہو پایا تھا کہ خود حکمراں جماعت کے بہت سے لوگ بھی حفیظ شیخ کو بحیثیت وزیر خزانہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے الیکشن ہار جانے کے فوراً بعد ہی اُن کے خلاف بیان بازی اور الزام تراشی کی ایک منظم مہم حکومت کے اہل کاروں کے طرف سے چلائی گئی اور پھر حماد اظہر کو عارضی دنوں کیلئے اور بعد ازاں شوکت ترین کو مکمل طور پر مشیر خزانہ بنا دیا گیا۔ یہ بھی موجودہ حکومت کا کمال حسن ہے کہ حفیظ شیخ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے جب کسی نادیدہ اشارے پر انہیں تبدیل کرنے پر راضی اور مجبور ہوجائیں تو اُنہیں اُسی شخص میں بے تحاشہ خرابیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ حالانکہ وقت کے ظالم اور بے رحم لمحوں نے یہ ثابت بھی کر ڈالا ہے کہ حفیظ شیخ موجودہ وزیر خزانہ سے کم ازکم ایک بہتر ماہر معاشیات تھے اُن کے دور میں IMF نے قرض دیتے ہوئے وہ شرائط نہیں رکھی تھیں جو ہمارے اس وزیرخزانہ کے سامنے رکھی گئیں۔ شوکت ترین خزانے کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے حکومت پر کس قسم کے تنقید کیا کرتے تھے وہ بھی کوئی بہت دنوں پرانی بات نہیں ہے ۔ بظاہر حق و صداقت اور سچ و ضمیر کی باتیں کرنے والے کس کس طرح اپنی باتوں سے یک دم مکر جاتے ہیں وہ ہمیں اس دور میں اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے۔ شوکت ترین نے ملکی خزانے پر براجمان ہوتے وقت کیا کچھ کہا تھا وہ ہمارے ذہن میں باربار دہرا رہا ہے۔ IMF کی کڑی شرائط کو نہ ماننے کے بلند بانگ دعوؤں کے علاوہ جون 2021 میں سالانہ بجٹ پیش کرتے ہوئے کوئی نیا منی بجٹ پیش نہ کرنے کا وعدہ کرنے والے نے کس طرح چند مہینوں میں اپنے کہے جملوں اور اقوال زریں سے انحراف کیا وہ بھی اُنہی جیسے شخص کا کمال حسن ہے۔ قومی اسمبلی میں منی بجٹ پاس کرواتے ہوئے حکومت کی تعریفیں کرنے والا یہ شخص ابھی ایک سال قبل تک اُس کے خلاف کیا کچھ کہتا رہا ہے وہ بھی ہمارے الیکٹرانک کی ویڈیوز میں اور پرنٹ میڈیا کے صفحات میں محفوظ ہے۔350 ارب کے اضافی ٹیکس لگا کر وہ پریس کانفرنس میں کس طرح مکمل یقین اور اعتماد کے ساتھ کج روی اور کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اُسے صرف دو ارب روپے کے ٹیکس قرار دے رہا تھا کہ دیکھنے اور سننے والوں کو اس کی اس سادہ لوحی پر جھوٹ اور کذب بیانی کا گمان ہونے لگا تھا۔ ایک ارب ڈالر حاصل کرنے کیلئے دو ارب ڈالر کے نئے ٹیکس لگاکر عوام پر احسان بھی کیا جا رہا تھا اور ساری پارلیمنٹ اس پر مہر تصدیق لگا کر اپنے ضمیر کو زبردستی تھپکیاں دے کر سلا رہی تھی۔ یہ منظر بھی بڑا دل خراش تھا کہ حکومتی ارکان اپنی اس کامیابی پر جشن کے ترانے گا رہے تھے اور نور عالم اور پرویز خٹک جیسے بظاہر باضمیر اور حق و صداقت کے ترجمان لوگ بھی باقاعدہ کھڑے ہوکر حکومت کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رہے تھے۔
ضمیر کو زبردستی سلانے اور قید کرنے والے لوگ ہمیں اپنے
یہاں بہت ملیں گے ۔ ہماری سیاسی تاریخ ایسے سنہرے اور خوب صورت لوگوں سے بھری پڑی ہے۔
حکومت کی صفحوں اور کابینہ میں بیٹھے ایسے بہت سارے لوگ ہمیں واضح طور پر نظر آتے ہیں
جو کل تک کسی اور سیاسی پارٹی کے گن گایا کرتے تھے اور جو آج بھی وقت اور اشارے کے
انتظار میں تیار بیٹھے ہیں کہ کب اشارہ ہو اور وہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کو جوائن کر
لیں۔ ہماری کوتاہیوں اور منافقت کے یہ داستانیں بہت لمبی اور طویل ہیں۔ جیسے جیسے الیکشن
قریب آتے جائیں گے PTI کی
ڈوبتی کشتی سے لوگ اتر کر کسی اور کشتی کے مسافر بننا شروع ہو جائیں گے۔ پھر ان کے
خیالات اور بیانات بھی ویسے ہی تبدیل ہو جائیں گے جیسے اُن کے ضمیر۔
یہ بھی پڑھیں: ملکہ کوہسار کے دل خراش واقعے کا ذمہ دار کون؟
مادر وطن اس وقت انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے۔ یہ کٹھن
اور مشکل وقت کیوں آیا۔ مقامی گماشتوں اور سازشی عناصر کی کا گزاریوں نے ہمیں یہ دن
دکھایا ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت صرف ایک ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کیلئے IMFکی اتنی منت سماجت کررہی ہے کہ مملکت
کے خزانے کی واحد ذمہ دار رکھوالی بینک بھی اس کے حوالے کرنے پر تیار ہو چکی ہے۔ ایسا
کڑا اور سخت وقت تو اس وقت بھی نہیں آیا تھا جب سقوط ڈھاکا سانحہ ظہور پذیر ہوا تھا
اور یہ ملک دولخت ہو کر بے یار و مددگار ہو چکا تھا لیکن ہم نے اس وقت بھی اپنی عزت
نفس اور خوداری کا ایسا سودا نہیں کیا تھا جیسے اب کرنے جا رہے ہیں۔ ہمیں اسی طرح دلاسہ
اور اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے
کہ یہ IMF کے
حوالے کی جارہی ہے جیسے 350ارب کے ٹیکسوں کو صرف 2ارب بتاکر ہمیں بیوقوف بنایا جا رہا
ہے۔ بے ضمیری اور وطن فروشی کے یہ سودے ہمیں کس کھائی اور دلدل میں دھکیل دیں گے ہمیں
اس کا اگر احساس ہوتا تو یہ مرحلہ شاید کبھی آتا ہی نہیں۔ ہمیں غور وفکر کرنا چاہیے
کہ کیا2018 میں ہمارے وطن عزیز کی یہ حالت زار تھی کہ ہم چند ٹکوں کی خاطر اپنے قیمتی
اثاثے گروی رکھ دیں گے۔ اِن تین سالوں میں ایسی کونسی قیامت آگئی کہ ہم اتنے مجبور اور
بے بس کردئیے گئے ہیں کہ جو عالمی طاقتیں چاہتی ہیں ہم بلاچوں وچرا کر جاتے ہیں۔ دنیا
میں اور بھی مجبور قومیں زندگی بسر کررہی ہیں مگر کیا سب کی سب ایسے ہی اپنے وطن کے
اثاثے فروخت کررہی ہیں۔ کیا ہم بھی خودداری اور وقار کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتے۔
پڑوسی ملک ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس پر عالمی طاقتوں کی جانب سے کیا کیا پابندیاں
نہیں لگائی گئیں لیکن کیا وہ قوم ختم ہوگئی ہے۔ کیا وہاں بھوک، افلاس اور فاقوں کا
دور دورہ ہے۔ افغانستان ہی کولے لیجئے وہ چالیس سالوں سے حالت جنگ میں ہے ۔ طالبان
کی حالیہ حکومت بنتے ہی امریکا اور اس کے حواریوں نے اس ملک کے سارے اکاؤنٹس منجمد
بھی کردئیے ، وہاں کوئی تجارت ممکن نہیں تھی ۔لیکن کیا وہ ہماری طرح گڑ گڑایا ہے۔ اس
کی کرنسی آج بھی ہمارے روپیہ سے زیادہ مضبوط ہے۔ ہم کم از کم اس قوم سے ہی سبق کیوں
نہیں سیکھ لیتے۔
پہلے ہمیں پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلا کر غیر
مناسب فیصلوں کے ہتھے چڑھایا گیا اور اب ہمارے ذہنوں میں دیوالیہ ہو جانے کا ڈر بٹھا
کے عزت نفس اور خودداری کے سودے کیے جا رہے ہیں۔ سوچنا ہوگا کہ اسٹیٹ بینک کے بعد ہمارے
پاس ایسی کونسی شہ باقی رہ جائے گی جسے گروی رکھ کر ہم اگلے سال کیلئے کوئی نیا قرضہ
حاصل کر پائیں گے۔ لے دے کے ہمارا جوہری پروگرام ہی واحد شہ باقی رہ گیا ہے جس پر ہمارے
دشمن کی ناپاک نظریں گڑی ہوئی ہیں۔ اللہ ہمیں اس دن سے بچائے جب ہم اتنے بے بس اور
لاچار کر دیے جائیں گے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں