ملکہ کوہسار کے دل خراش واقعے کا ذمہ دار کون؟

آج پوری قوم ایک درد ناک کیفیت میں مبتلا ہے۔ ملک بھر سے آئے سیاحوں کا ایک معروف سیاحتی مقام پر اتنی بڑی تعداد میں جاں بحق ہونا کسی المیے سے کم نہیں۔ اب تک کی مصدقہ اطلاعات کے مطابق برفانی تودے گرنے اور راستے بند ہونے سے 25 افراد اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں جس میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ اس افسوس ناک واقعے کو ایک سانحہ قرار دے کر فراموش نہیں کیا جا سکتا بلکہ درحقیقت اس دل دہلا دینے والے واقعے کی تمام تر ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کیوں کہ دنیا بھر میں سیاحت کے شعبے کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے ذریعے بھاری ذرمبادلہ حاصل کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک اپنی تمام تر توجہ اپنے سیاحتی مقامات کی دیکھ بھال پر مرکوز رکھتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ایسے مقامات کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مکمل آگاہی دی جاتی ہے بلکہ انھیں ہر صورت میں حفاظتی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کے لیے پابند بھی کیا جاتا ہے۔

جب سے موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے پہلے دن سے ملک میں سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے۔ ملکی خزانے سے بھاری بھرکم رقم خرچ کر کے آئے روز سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں مری کے مقام پر وقوع پذیر ہونے والے درد ناک واقعے نے تبدیلی سرکار کے تمام دعوں کی نہ صرف قلعی کھول کر رکھ دی ہے بلکہ اسے مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک کے چاروں کونوں سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ موجودہ حکمرانوں نے باقی اداروں کی طرح عوام کو تفریح کا موقع فراہم کرنے والے اس شعبے میں بھی سوائے زبانی جمع تفریق کے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اگر عملی اقدامات کیے جاتے تو شاید ایسا تکلیف دہ دن دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عام آدمی یہ سوال کرنے میں پوری طرح حق بجانب ہے کہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقم سے بھاری تنخواہ، پروٹوکول، لگژری گاڑیاں اور ایئر کنڈیشنز دفاتر کے مزے لینے والے ارباب اختیار ہی معصوم شہریوں کی ضائع ہونے والی قیمتوں جانوں کے ضیاع کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اگر اس سال ماضی کی بہ نسبت موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہونی تھیں تو تمام تر حفاظتی تدابیر کرنے کے علاوہ لوگوں کو باخبر رکھنے کی ذمہ داری اسی نام و نہاد اشرفیہ پر عائد تھی۔ اگر یہ لوگ دفتروں میں بیٹھ کر دعوتوں کے مزے اڑانے کی بجائے زمینی حقائق اور متوقع موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر کے اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے سر انجام دیتے اور دور دراز سے سفر کرکے آنے والے سیاحوں کو ایسے مقامات کا رخ کرنے سے روکنے کے لیے عملی طور پر اقدامات کر لیتے تو یقینا پوری قوم آج جس اذیت ناک کرب میں مبتلا ہے، اس تکلیف دہ کیفیت کو پیدا ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔

ایک قیامت برپا ہونے کے بعد معصوم شہریوں کی لاشوں کو نکالنے کے لیے جس انداز میں اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں پاک فوج اور پولیس کے جوان ہر قسم کی تکالیف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دن رات کی پرواہ کیے بغیر جاں بحق افرادکی لاشوں اور خوش قسمتی سے زندہ بچ جانے والے شہریوں کو ان علاقوں سے نکالنے کے لیے پوری جانفشانی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر اونچے عہدوں پر براجمان نااہل لوگ ایسے نامساعد موسمی حالات کی پیش گوئی کرنے کی زحمت گوارا کر لیتے تو ا نھی اداروں کی خدمات حاصل کرکے وطن عزیز کے طول و عرض سے سیاحت کی غرض سے آنے والے لوگوں پر قدغن لگائی جاسکتی تھی۔

سر زمین پاک کی بدقسمتی کی انتہا دیکھیں کہ یہاں پر ناخوشگوار واقعہ ہونے کے واضح خدشات کے باوجود اس سے بچاؤ کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی بجائے آنکھیں چرائی جاتی ہیں جب کہ حادثہ ہونے کے بعد اس کے ذمہ داروں کا بخوبی علم ہوتے ہوئے ان کو بچانے کے لیے کمیشن یا انکوائری کمیٹی تشکیل دے کر عوام کو سرخ بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ چند دن یا چند ہفتے بعد عوامی جذبات کو ٹھنڈا ہوتا دیکھ کر اس کو قصہ پارینہ بنا کر تاریخ کی کتابوں کا حصہ بنانے کے لیے داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے موجودہ حکومت (تبدیلی سرکار) نے بھی اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن عوام ان اوچھے ہتھکنڈوں سے پوری طر ح آگاہ ہے کہ ماضی کی طرح اس انسانیت سوز واقعے میں ملوث کالی بھیڑوں کے خلاف نہ توکوئی کاروائی ہونی ہے اور نہ انھیں بے نقاب کرکے قانون کے کٹہرے میں لانے کے دعوے نے حقیقت کا روپ دھارنا ہے۔ ملت پاکستان کی تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

راقم اپنی تحریر کے آخر میں بہ حیثیت قوم حالیہ واقعے کے بعد ملکہ کوہسار کی سرسبز وادیوں میں کاروبار کی آڑ میں معصوم لوگوں کو لوٹنے والے ہوٹلز مالکان اور ناجائز منافع خوروں کے ناروا رویے کی پر زور انداز میں مذمت کرتا ہے۔ جنھوں نے چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہی بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کلیدی کردار ادا کرکے پوری قوم اور بالخصوص سر زمین گلیات کے مہمان نواز لوگوں کا سر شرم سے جھکا دیاہے۔ لہٰذا ایسے انسانیت دشمن لٹیروں کو بے نقاب کرکے قانون کے مطابق کڑی سے کڑی سزا دے کر مستقبل میں ایسی منفی سوچ رکھنے والے افراد کے لیے نشان عبرت بنایا جائے۔ یہاں پر عوام دوست ہونے کے دعویدار نام و نہاد سیاسی لیڈران چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن جماعتوں سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ کا اظہار کرنے کی بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہیں۔

راقم ان کی اس بے حسی اور منفی رویے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے درخواست کرتا ہے کہ خدا را ماضی کے تجربات کوبار بار دہرانے اور اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے یکجا ہو کر ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جو مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کا باعث بن سکیں، ورنہ یاد رکھیں نہ تاریخ ہمیں معاف کرے گی اور نہ ہی رب کائنات کے حضور بخشش کے حقدار ٹھہرائے جائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں