ڈاکٹر رسول میمن کی طبی و ادبی خدمات پر دوستوں اور تخلیق کاروں کاخراج تحسین


 

سندھ کے منفرد تخلیق کار ڈاکٹر رسول میمن کی طبی و ادبی خدمات پر انہیں تخلیق کاروں، دوستوں نے خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے 32 کے قریب کتابیں لکھیں، جن میں ناول، افسانے، سائنسی فلسفہ اور نفسیات کی کتابیں شامل ہیں۔ انہیں حال ہی میں ناول اکھ چھنب پر اکادمی ادبیات نے ادبی انعام سے نوازا۔ ان کی اکثر کتابیں انعام یافتہ ہیں۔  اس موقع پر معروف افسانہ نگار، شاعرہ اور ناول نویس شبنم گل نے کہا کہ اس سے پہلے ہم نے ’سرتین ستھ“ کے عنوان سے ادبی مذاکرے کیے اور اب تخلیق کار کے پلیٹ فارم سے خالص ادبی پروگرام، مذاکرے اور تربیتی ورکشاپ منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔



یہ پروگرام اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ ڈاکٹر رسول میمن کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور انہوں نے کہانی اور ناولز میں نئی جہتیں متعارف کروائیں۔ طب کے شعبے میں اعلیٰ خدمات سر انجام دینے کے سا تھ ادبی شہ پارے تخلیق کیے۔ ان کی زندگی محنت، جدوجہد اور اعلیٰ آدرش کے حصول کی بہترین مثال ہے۔ اس موقعے پر ڈاکٹر رسول میمن کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا جس میں ان کے قریبی دوستوں و خاندان کے افراد نے بھی شرکت کی۔ ان کی دو نئی کتابوںسنڈروم اور  ناولکتا کی رونمائی کی گئی، جس کے بعد ان کے فن و فکر پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔



   ڈاکٹر رسول میمن کے کولیگ اور قریبی دوست ڈاکٹر عبدالرحیم سیال نے کہا کہ میں گزشتہ چھ سالوں سے ان کیساتھ کام کرتا رہا ہوں۔ آپ ایک مخلص، ہمدرد اور بہترین انسان تھے۔ اپنے شعبے سے بے حد مخلص تھے۔ مجھے ان میں کہیں کوئی ادیب نظر نہیں آیا۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی اعلیٰ پائے کے ادیب تھے۔ ڈاکٹر رسول میمن کی بیٹی لبنیٰ سومرو نے اپنی یادیں بانٹتے ہوئے کہا کہ میرے والد بہت ہی مشفق اور خیال رکھنے والے انسان تھے،وہ بچپن میں ہمیں کہانیاں سناتے تھے۔ وہ دو اداروں میں ملازمت کرتے تھے۔



ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس وقت لکھتے تھے۔ داماد عبدالنبی سومرو نے کہا کہ میرا ان کا ساتھ پندرہ سالوں پر محیط رہا ہے۔ ان کی اپنائیت اور دوستانہ رویہ بہت یاد آتا ہے۔ نواسی پارسا نے کہا کہ وہ اپنے نانا کی کتابیں انگریزی میں ترجمہ کریں گی۔ ڈاکٹر مبارک لاشاری نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں رسول میمن جیسا فکشن نگار ملا جس نے جدید انداز میں ناول اور افسانے لکھے۔ کووڈ کے دنوں میں ان کی ناول کتا علامت نگاری اور ڈارک ہیومر پر مبنی ہے۔ اس کے گیارہ باب ہیں اور ہر باب میں بات ختم نہیں ہوتی بلکہ جاری رہتی ہے۔ اس ناول کے پانچ باب کتوں کے بارے میں ہیں جو مختلف وقتوں میں پالے گئے یا جن کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد کتوں کے بارے میں جو تصور قائم ہے اسے بیان کیا گیا ہے۔ کتے کی وفاداری و دیگر خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور انہیں انسانوں سے جوڑاکیا گیا ہے۔ وہ میٹا فزیکل پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ سائنسی مکتبہ فکر کے ادیب تھے، انہوں نے جادوئی حقیقت نگاری و جدید ادبی تیکنیک استعمال کیں۔



   ناول نگار، کلیم بٹ نے کہا کہ رسول میمن جدید طرز کا ادب تخلیق کرنے والے ادیب تھے۔ انہوں نے پوسٹ ماڈرن ازم، رئیل ازم، ڈارک ہیومر، علامت نگاری و دیگر جدید تیکنیکس استعمال کیں۔ ان کی کتاب سینڈروم نفسیاتی موضوعات پر لکھے افسانے ہیں۔  پبلشر اور ادیب ہوش بھٹی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی موت سے دو دن پہلے ناول کے بارے میں پوچھا تھا افسوس کہ ناول ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکی۔ کووڈ کے دنوں میں ان سے بات ہوئی تو کہا کہ میں اب لکھنے کے بجائے آسمان، پرندوں اور درختوں کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ بہرحال کووڈ کی تنہائی میں انہوں نے ناول کتا لکھی جو ان کی زندگی کی آخری کتاب ثابت ہوئی۔ ناول نگار منیر چانڈیو نے کہا کہ وہ میرے اچھے دوست تھے۔ وہ ہمدرد اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کی ذات میں دنیاداری نہیں تھی۔ وہ ایک کونے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرتے رہے اور اپنے حصے کا شان دار کام کرگئے۔



ان کی ناولانیس عورتیں انڈس فورم کے روح رواں نیاز ندیم نے اردو میں ترجمہ کی ہے۔ افسانے شاہد حنائی نے،بند کمرے کا راز کے عنوان کے تحت اردو میں ترجمہ کی ہے۔  شاعر علی آکاش نے کہا کہ رسول صاحب دور حاضر کے زیادہ لکھنے والے ادیب تھے۔ انہوں نے دو سو کے قریب افسانے اور پانچ ناول لکھے ان کی سوچ منفرد تھی۔ انہوں نے شاعری و نثر میں نئے موضوعات دیے۔ سینئر ادیب تاج جویو نے کہا کہ رسول سے تیس سال کی دوستی تھی اور وہ سنجیدہ اور کمیٹڈ ادیب تھے۔ گو کہ ان کی زندگی گوشہ نشینی میں گزری مگر سندھی ادب کو شان دار  کتابیں دیں۔ ان کی طب و ادب کے حوالے سے شان دار کاوشیں تاریخ میں یاد رکھی جائیں گی۔



اس موقع پر اشتیاق انصاری، عزیز رانجھانی، نیاز پنھور، زاہدہ ابڑو،  حمیرا نور،ڈاکٹر نسیمہ منیر، نذیر قریشی، روشن سندر چانڈیو، میڈم رشیدہ بھٹی، الطاف میمن، شوکت اجن، ادریس لغاری، ضراب حیدر، احسان لغاری، زاہد اوٹھو،  اختر حفیظ، عاطف علی، رشید سومرو، آفتاب ابڑو، شوکت شاہا نی اور ادب نواز حاضرین شامل تھے۔

کوئی تبصرے نہیں