غزل
یہ رسم تم نے محبت میں جب ادا نہیں کی
یہ رسم تم نے محبت میں جب ادا نہیں کی |
تو اپنی ہستی سے ہم نے بھی کچھ وفا نہیں کی |
ہمیں تو دار و صَلیب و رسن کا خوف نہ تھا |
جو بات حق کی تھی تم نے ہی برمَلا نہیں کی |
ہم اپنی خواہشِ نفسی پہ سر جھکا دیتے |
یہ بات دل نے ہمارے مگر روا نہیں کی |
یہ دل کا درد اب اتنا بھی لاعلاج نہ تھا |
تھا ایسا خوف مسیحا کہ پھر دوا نہیں کی |
اگر یہی ہے مناجات نیم شب کا صلہ |
تو کیوں نہ مصلحتاً ماں نے بد دُعا نہیں کی |
ہمارے ظرف کو پرکھا گیا کسوٹی پر |
خدا نے یوں ہی ہمیں تشنگی عطا نہیں کی |
جدائی اس کی بنے گی حریفِ جان ظفر |
ہمیں خبر تھی مگر ہم نے التجا نہیں کی |
Good
جواب دیںحذف کریں