کامریڈ زبیر رحمن، جدوجہد کا استعارہ
تحریر:محمدبخش
یہ روح فرسا خبر دہراتے ہوئے قلم کانپ جاتا ہے کہ زبیر رحمن ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، مزدوروں اور نچلے طبقات کو منظم کرنے اور ان کے حقوق کی جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف رہے، خلوص نیت اور پختہ اداروں کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہے، ان کا شمار کمیونسٹ پارٹی کے فعال اور متحرک رہنماﺅں میں ہوتا تھا۔ آمروں کے سامنے ڈٹ جانے والے زبیر رحمن نے اپنی زندگی میں 11 بار جیل کاٹی اور پھانسی گھاٹ میں بھی رہے، جہاں انھیں ٹارچر کیا گیا۔ وہ ضیا الحق کے دور میں سب سے زیادہ جیل میں رہے، ایک سیاسی قیدی کے طور پر۔ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیے آمروں کے سامنے نہ جھکنے والا، ٹی بی اور کینسر کے امراض کا شکار ہوکر اس دار فانی سے کوچ کرگیا لیکن آخر دم تک ہمت و جرات کے ساتھ موذی امراض کا مقابلہ کیا۔ ایکسپریس میں کم وبیش چوبیس برس تک مسلسل کالم لکھتے رہے، لکھنا پڑھنا ان کا اوڑھنا بچھونا تھا، ان کی شریک حیات تارہ نے راقم الحروف کو بتایا کہ وہ SIUT میں اپنی طویل علالت کے دوران بھی بستر پر اٹھ کر بیٹھ جاتے کہ کاغذ قلم لاﺅ مجھے کالم لکھنا ہے۔
زبیر رحمن کا سیاسی سفر کمیونسٹ
نظریے کے تحت مشرقی پاکستان سے شروع ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کے بعد
کامریڈ زبیر رحمن مزدوروں اور نچلے طبقات کو منظم کرنے میں متحرک رہے، انھوں نے ساری
زندگی کمیونسٹ آدرش کے حصول میں لگا دی، وہ کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری سے
لے کر اہم سیاسی اور نظریاتی رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کی سیاسی اور نظریاتی
سچائی کی بنا کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنما سائیں عزیز اللہ نے اپنی بیٹی کامریڈ تارہ
ان سے بیاہی، جن سے زبیر رحمن کی ایک ذہین بیٹی روزا ہے، روزا اپنے والد کے مشن کو
لے کر آگے بڑھ رہی ہیں۔
زبیر رحمن 13 جنوری 1948 کو غازی پور، اترپردیش میں پیدا
ہوئے، والدین نے 1950 میں ایسٹ انڈیا سے پاکستان کے شہر بوگرا ہجرت کی جہاں وہ نوڈاپڑا
کے نام کے گاؤں میں پلے بڑھے۔ انھوں نے وکٹوریہ ہائی اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی
جس کے بعد انھیں ان کے والد نے ایگریکلچر انجینئرنگ پڑھنے کے لیے بھیج دیا، لیکن وہ
کچھ سالوں بعد یہ سبجکیٹ چھوڑ کر ڈھاکہ چلے گئے جہاں انھوں نے بنگالی لٹریچر میں ماسٹر
کیا۔ زبیر رحمن نے سیاست اسکول کے زمانے سے شروع کی، جبکہ ان کے والدین کا سیاست سے
کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ یونیورسٹی تک عملی سیاست میں شامل رہے اور مکتی باہنی کے ساتھ
مل کر بنگالیوں کو بچانے کی جدوجہد کی، جبکہ وہ خود بنگالی نہیں تھے، جب وہ ایسٹ انڈین
لینگویج میں پی۔ایچ۔ڈی کر رہے تھے تو اس دوران ان کے والد نے پاکستان ہجرت کرنے کا
فیصلہ کیا، جب بنگلہ دیش بن چکا تھا۔
زبیر رحمن اپنا گھر چھوڑ
کر پھر کراچی آئے جہاں آ کر انھوں نے اردو سیکھنا شروع کی، کیونکہ انھیں تب تک صرف
بنگالی اور انگلش بولنی آتی تھی۔ اس کے بعد انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے دوبارہ گریجویٹ
کیا اور گھریلو ذمے داریوں میں حصہ ڈالنے کے لیے ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا۔ پاکستان
آ کر زبیر رحمن نے اپنی جدوجہد دوبارہ شروع کی، وہ اس وقت 23 سال کے تھے۔ انھوں نے
نیب، کمیونسٹ پارٹی پاکستان، طلبا سیاست میں حصہ لیا، وہ کمیونسٹ پارٹی کراچی کے سیکریٹری
رہے۔ انھوں نے 1999 میں ڈیلی ایکسپریس میں اپنے نظریے کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے لکھنا
شروع کیا اور آخری وقت تک لکھتے رہے۔ ان کی کتاب ”سیاست کی الف بے“ 2014 میں شائع ہوئی
جس کے بعد انھوں نے اس کا دوسرا حصہ بھی لکھا اور بیماری سے پہلے وہ اپنی آٹو بائیو
گرافی لکھ رہے تھے۔
2007 میں آزادی صحافت کے ایک مظاہرے
میں زبیر رحمن کو پولیس نے زخمی کیا، لیکن وہ پھر بھی نعرے لگاتے رہے، ان کی خون سے
بھری قمیض صحافیوں اور مظاہرین نے سنبھال کر رکھی اور کہا کہ اسے پرچم بنا کر لہرائیں
گے۔
زبیر رحمن پچھلے 10 سال سے
انارکسزم کی اسٹڈی کر رہے تھے جس کا مقصد ایک لیڈر لیس انقلاب تھا، جس میں کسی پارٹی
کی رہنمائی نہیں بلکہ عوام رہنمائی کرے گی۔ پچھلے چند سالوں سے وہ نیشنل ٹریڈ یونین
فیڈریشن کے ساتھ کام کر رہے تھے، جس کے سربراہ ناصر منصور ہیں اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز
فاؤنڈیشن کی خواتین کو اسٹڈی سرکل کرواتے رہے۔
گزشتہ دنوں ان کی تدفین و
سوئم کے موقعے پر تنظیمی دوستوں اور وسیع حلقہ احباب نے شرکت کی، کچھ نام جو یاد رہ
گئے، وہ درج کیے جا رہے ہیں۔ حسن ناصر، رمضان، شاہینہ رمضان، زہرا، فاطمی، نذیر احمد،
فیصل ایدھی، وارث رضا، ماہنامہ ”فیروزاں“ کے ایڈیٹر محمود عالم خالد، حسیب، پارس جان،
ممتاز حیدر، وسیم عزیز اور راقم الحروف۔
کوئی تبصرے نہیں