ایک عہد ساز انقلابی شاعر ....سرور ارمان
تحریر: صدام ساگر
علم وادب کے میدان کے لیے
یہ قابلِ فخر بات ہے کہ اس کی خدمت کے لیے بے شمار بے لوث شخصیات نے اپنا کردار ادا
کیا۔ جنہوں نے لالچ اور شہرت سے بے نیاز اپنا قیمتی وقت صرف کیا۔ بلاشبہ ان کی مخلصانہ
جدوجہد نے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بلند مقام بھی عطا کیا ایسی ہی شخصیات میں سے
ایک شخصیت سرور ارمان کی ہے۔ جو معروف شاعر وتبصرہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زبر
دست نثر نگار بھی ہیں۔ ادب کی دنیا میں ان کا بہت معتبر حوالہ ہے ۔انہوں نے سیاسی،تہذیبی
اور معاشرتی موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے جو یقینا اجتماعی تجربات کی ترجمان
ہے۔ ان کا کلام ان گنت لوگوں کو درپیش تلخیوں اور محرومیوں کی داستان ہے ۔
جذبوں کو چڑھا دینا احساس کی سولی پر |
حالات کی قبروں میں دفنائے ہوئے رہنا |
ارمان صاحب کا تعلق فیض احمد
فیض کے شہر نارووال سے ہیں۔ ان کا پورا نام غلام سرور اور قلمی نام سرور ارمان ہے۔
وہ ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب ہیں اور اس حوالے سے ان کے فن کا اعتراف بہت سے نامور
الشعراءنے کیا ہے۔ عارف عبدالمتین، افتخار عارف، رئیس امروہوی جیسے قد آور لوگوں نے
ان کے فنِ شعر کی داد دی ہے۔ اس حوالے سے ارمان صاحب بتاتے ہیں کہ ”میری خوش بختی ہے
کہ مجھے دنیائے ادب کی عظم ہستیوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوا، جن میں فیض احمد فیض، عارف
عبدالمتین، ظہیر کاشمیری، قمر اجنالوی، حبیب جالب، سبط حسن، شوکت صدیقی، جون ایلیا
شامل ہیں۔“ جہاں تک ان کی ادبی صحافت کا تعلق ہے تو انہوں نے چند قومی اخبارات میں
کالم بھی لکھے۔ اس کے علاوہ کم وبیش پانچ سال خالد پرویز کے مجلہ ”پائلٹ آئینہ“ کے
لیے بطور ڈپٹی ایڈیٹر کام کیا اور چند ماہ روزنامہ دنیا کے ادبی ایڈیشن کے لیے کتابوں
پر تبصرے لکھے اور کم بیش تین سال روزنامہ نئی بات میں ”جہانِ کتب“ کے نام سے نئی شائع
ہونے والی کتب پر تبصرہ نگاری کے جوہر دکھاتے رہے۔ آپ نارووال/لاہور سے شائع ہونے والے
ایک ضخیم ادبی مجلہ ”زربفت“ کے مدیر اعلیٰ اور ادبی تنظیم فیض اکیڈمی نارووال کے صدر
بھی ہیں۔
یہ تحریریں، یہ تصویریں، یہ سب قصے، یہ سب چہرے |
مرے گزرے ہوئے ایام کی پہچان تھے، لیکن |
ارمان صاحب کے کلام میں حقیقت
اور اصلیت بھرپور انداز میں ملتی ہے وہ ایک ایسے شاعر ہیں کہ ان کے تحریر کردہ الفاظ
اپنے اندر اس قدر سچائی لیے ہوئے جب صفحہ قرطاس پر اُترتے ہیں تو ستاروں کی طرح جگمگانے
لگتے ہیں۔ ان کی شاعری میں معتدل قسم کا انبساط،سرور اور ایک خاص قسم کی راحت کا احساس
ہے۔ کیونکہ ان کی شاعری اپنے اندر گہری، فکری، پختگی کا ایک جہان لیے ہوئے ادبی دنیا
میں اپنا منفرد تشخص رکھتی ہے۔ اس حوالے سے افتخار عارف لکھتے ہیں کہ ”سرور ارمان گروہی
ستائش اور وقتی داد وتحسین سے بے نیاز ہمارے ان تخلیق کاروں میں سے ہی ہیں جو ابلاغ
عامہ سے دور صرف اپنے لفظ کی طاقت پر زندہ ہیں اور یہ بڑی بات ہے۔“ ان کا یہ شعر دیکھیے:
رئیسِ شہر سے کہہ دو کہ سیم و زر کے عوض |
غریب بک نہیں سکتا غریب کی ضد ہے |
ارمان صاحب کی شاعری میں مزدور، کسان، معاشرتی واقتصادی استحصال کا شکار ہر طبقے کی نمائندگی کی گئی ہے۔ وہ ایسے نظام کے حامی ہیں جہاں وسائل کی مساوی تقسیم ہو کوئی غریب، مجبور، بے کس،بھوکا اور پسماندہ نہ رہے۔
دورِ حاضر کا
یہ عہد ساز انقلابی شاعر اپنے نزدیک ہوائیں چیختی دیکھی، فضا جلتی ہوئی دیکھی، تو کہیں
بچے ماﺅں کے احساس تلے اس نے دبے
دیکھے، تماشے آرزوؤں کے الاؤ میں چنے دیکھے، کہیں زخموں کی چادر دیکھی تو کہیں جسموں
پر بغاوت خیز آوازوں میں گونجتے درد کے نغمے دیکھے، بے زباں لوگوں کے منہ پر چپ کے
لگے تالے دیکھے، غربت کے ہاتھوں چند نوالوں کی خاطر در بدر بھیک مانگتے بچے دیکھے،
انصاف کے ایوانوں میں پیسوں کے لیے بکتے منصف اور قانون دان دیکھے ان کے کچھ اشعار
دیکھئے:
ملا ہوا ہے تمہارا قانون مجرموں سے |
کرو گے غارت گروں کا تم احتساب کیسے |
٭
جرم اک یہ بھی مرے نامہ اعمال میں لکھ |
حرفِ انکار کی خُو صورتِ احوال میں لکھ |
٭
یہاں ناکامیوں کا بوجھ ڈھویا ہے بہت ہم نے |
ہمیں کرنا پڑی خاموش رہنے کی مشقت بھی |
٭
بہت دعائیں تری بارگاہ میں مانگیں |
پکارا تجھ کو بہت آبرو بچاتے ہوئے |
انقلاب کے حوالے سے جو شور
بلند ہونا چاہیے وہ کسی نہ کسی طرح سے ان کی شاعری مین اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ ہم ان
کی شاعری کو عشق مجازی کے نغموں کی شاعری نہیں کہہ سکتے بلکہ ان کے ہاں تو ایسا جوش
وجذبہ نظر آتا ہے جس سے اک روز مظلوم انسانوں میں حق رسی کے لیے میدان میں کود پڑنے
کی بے پناہ تحریک ملتی ہے۔ ان کی شاعری خوابیدہ دلوں کو بیدار کرتی ہے۔ وہ اپنے انقلابی
نظریات کو کسی نہ کسی طرح قاری کے گوش گزار کر دینا چاہتے ہیں۔
نظامِ زر قتلِ آدمیت کا مرتکب ہے |
جو یہ نہ بدلا تو آئے گا انقلاب کیسے |
ارمان صاحب نے اپنے شعری سفر کا آغاز فکری طور پر ترقی پسند ادبی تحریک کے سائے میں کیا اس دوران انہوں نے اقبالؒ،ساحر سے استفادہ کیا اور جناب عارف عبدالمتین سے رہنمائی حاصل کی۔ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”میں نے ان بلند وبالا ہستیوں سے جو روشنی پائی اس نے میرے قلب وروح اور فکر و نظر کو ہمیشہ اپنے حصار میں رکھا اور آج میری یہ مسافت ”سرابِ مسلسل، زنجیر بولتی ہے اور وہی آبلے میرے پاؤں کے“ کے مراحل سے ہوتی ہوئی مجھے ”ہمارے دکھ کتنے مشترک ہیں“ کے پڑاﺅ تک لے آئی ہے۔“
یہ بھی پڑھیں: محبتیں، چاہتیں اور شہرتیں سمیٹنے والا شاعر……اعتبار ساجد
ان کے تخلیقی
سفر میں اُردو شاعری کا انتخاب ”تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“ کے علاوہ ان پر ڈاکٹر صغیر
صفی نے ”سرور ارمان فکر وفن کے آئینے میں“ کے عنوان سے ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ جبکہ
محمد افضل جنہوں نے لاہور لیڈز یونیورسٹی سے ”سرور ارمان کا فکری وفنی جائزہ“ کے موضوع
پر اپنا ایم فل کا مقالہ بھی لکھا اور حال ہی میں حمد، نعت، سلام،منقبت کا مجموعہ کلام
”متاعِ عمرِ رواں“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ جسے لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے ”زربفت“
پبلیکیشنز نے بے حد اہتمام کے ساتھ شائع کیا ۔ جس پر وہ یقینا ڈھیروں مبارک کے مستحق
بھی ہے۔ آخر پہ ان کا مشہور زمانہ شعر یاد آیا کہ:
اس ملک سے غربت کبھی مٹ ہی نہیں سکتی |
اس ملک کا دستور وڈیروں کی طرف ہے |
کوئی تبصرے نہیں