ہم زندہ قوم ہیں



تحریر: صدام ساگر

زندہ قومیں اپنے مشاہیر، ہیروز کی یادوں کو اپنے خون میں شامل رکھتی ہیں بلکہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ زندہ قومیں اُن کی یادوں سے ہی زندگی کا امرت کشید کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی 6 ستمبر 1965 یعنی ”یومِ دفاع“ ایک ایسا دن ہے جس میں ہماری بہادر افواج نے بھارتی افواج کو شکست ِ فاش دے کر میدانِ جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ 6 ستمبر 1965 کی رات کو بزدل بھارتی افواج نے یہ سوچ کر لاہوراور چونڈہ کے محاذوں پر حملہ کر دیا اور اُن کا ارادہ تھا کہ ہم رات کو ہی لاہور فتح کرنے کے بعد صبح جم خانہ لاہور میں جشنِ فتح منائیں گیں اور لاہوری سری پائے کھائیں گے۔لیکن بھارتی پھگوڑو کو کیا خبر شیر چاہے سویا ہی ہو وہ شیر ہی ہوتا ہے۔ان پاکستانی شیروں نے دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجاکر سری پائے کھانے کے ارادے سے آنے والوں کے سری پائے توڑ دئیے۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ اُس وقت ہمارے قومی ہیرو میجر عزیز بھٹی اور ان کی یونٹ کے جوانوں نے اپنی ہمت اور بہادری کی بنا پر بھارتی افواج کے اس خواب کو خاک میں ملا دیا اسی دوران 12 ستمبر 1965 کو لاہور سیکٹر میں برکی کے مقام پر بھارتی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیواربنے رہنے والے میجر عزیز بھٹی دشمن کے ٹینک سے نکلنے والے ایک گولے سے شہادت پائی اور” نشانِ حیدر“ ان کے سینے کی زینت بنا۔”نشانِ حیدر“ پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو صرف ان فوجی جوانوں کو دیا جاتا ہے جو مادرِ ملت کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرکے جامِ شہادت نوش کرتے ہیں۔

اس اعزاز کو حیدرِ کرّار حضرت مولا علی کرم اللہ وجہ کے نام سے منسوب ہے۔اس حوالے سے دیگر تحقیق کاروں میں جی آر اعوان اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ” اُس وقت کے فیلڈ مارشل جنرل ایوب سے کسی نے کہا کہ یہ اعزاز اُن لوگوں کے لئے کیوں مخصوص ہے جو بہادری سے پاک وطن پر اپنی ان نثار کرتے ہیں حالانکہ بہادری کی عظیم مثالیں تو وہ لوگ بھی قائم کرتے ہیں جو زخموں سے چور ہو کر قربانیاں دیتے اور غازی کہلاتے ہیں انہیں بھی نشانِ حیدر کے اعزاز سے نوازنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل ایوب کہنے لگے وہ بہادر جو قربانیاں دیتے ہیں،زخم کھا کر غازی بنتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں اُن کے بارے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ باقی زندگی میں کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ وطن پر جان لٹانے والوں کو نشانِ حیدر اس لیے دیا جاتا ہے کہ دنیا سے چلے جانے کے بعد ان سے کبھی بزدلی کا خدشہ نہیں ہوتا، اسی لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب نشان صرف بہادی سے جان دینے والے اُن شہیدوں کو دیا جاتا ہے ن سے بزدلی کو کائی ڈر نہیں ہوتا۔“اسی شہادت کے متعلق شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنی ولولہ انگیز شاعری میں اس با ت کی کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ:


شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کُشائی



اس جنگِ عظیم میں پاکستان افواج کے دیگر درخشندہ ستاروں میں ایک ایسا ستارہ جو اپنی جرات اور بہادری کے دم پر پاکستان کی قوم کا قومی فخر کہلایا ۔میری مراد محمد محمود عالم جنہیں دنیا اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے 1965 کی جنگ میں مختلف محاذوں پر کل گیارہ بھارتی طیاروں کو تباہی سے دوچار کیا جن میں 9 مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے باقی ان کے جہاز کی باڈی پر نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ ایم ایم عالم نے اپنی جرات اور بہادری سے یہ ثابت کیا کہ جنگیں افرادی قوت اور اسلحہ سے نہیں بلکہ ایمانی قوت،صادق جذبوں اور عزم صمیم کیساتھ لڑی جاتی ہیں۔ اسی بنا پرانہوں نے پانچ عدد بھارتی ہنٹر جنگی طیاروں کو ایک منٹ کے اندر مار گرایا۔ اس بہادر جنگجو اور عظیم ہیرو کو تاریخ ساز کارنامے پر ستارہ جرات سے نوازا گیا۔ اسی جنگِ ستمبر کے دوران کہے گئے جلیل عالی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیئے جب انہوں نے اُسی زمانے میں اورینٹل کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا تھا۔


مرے وطن کے شہیدو تمہارے خوں کی قسم
جلائی تم نے حیاتِ دوام کی قندیل
تمہارے عزم نے پندارِ کفر توڑ دیا
بنا کے سامنے ٹینکوں کے چھاتیوں کی فصیل

اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے افواجِ پاکستان کے جوان ہر وقت اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے تیار رہتے ہیں ارضِ پاک کو جب بھی ہمارے بہادر سپوتوں کی ضرورت پڑی تو ہمارے جوانوں نے چھاتی پر گولیاں کھا کر اس بات پر عہد کیا کہ ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“ کیونکہ ارضِ پاک کا دفاع کرنا ہر ایک محبِ وطن پاکستانی سپاہی کا اولین فریضہ ہے۔آج جس طرح سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا قتل عام انتہا پسند بھارتی فوج کا مشغلہ بن چکا ہے جو کشمیری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں جس پر دیگر ممالک کے حکمران بھی خاموشی اور رکھے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے دونوں ایٹمی طاقتیں ایک بار پھر جنگ کے محاذ پر کھڑی ہیں۔ جس میں یقینا پاکستان 1965 کی تاریخ کو ایک بار پھر دُہرا سکتا ہے۔ پاکستان مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ یقیناً قوم کی توقعات پر پورے اترے گیں اور دشمن کو خاک میں ملا کر دم لیے گے ۔ بقول احمد فراز


شکوہِ ظلمتِ شب سے توکہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اور آخر میں جنگِ ستمبر کے حوالے سے جان کاشمیری کے دو اشعار :


صرف خاموش محبت کے نہیں قائل
لمحہ لمحہ تری عظمت کی قسم کھاتے ہیں
خون کا آخری قطرہ بھی بہا دے گے ہم
اے وطن! تری حفاظت کی قسم کھاتے ہیں

٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں