ہم اور قائداعظمؒ



تحریر: صدام ساگر

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح عالم اسلام کے ایک عظیم رہنما، مدبر، سیاست دان اور ہر دل عزیز شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی بے پناہ ذہانت، قابلیت اور اعلیٰ بصیرت سے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے تصور کو حقیقت کا روپ دیا۔قائدعظم محمد علی جناح کا خاندانی نام ”محمد علی“ رکھا گیا،مگر انہیں قائداعظم کا پہلی بار لقب دینے والی شخصیت مولانا مظہر الدین کی ہے اور یہ بات پاکستان کے ایک مستند انسائیکلو پیڈیا ”پاکستانیکا“ از سید قاسم محمود اس کے چھٹے ایڈیشن کے صفحہ نمبر889 پہ لکھتے ہیں کہ”دسمبر1937 ءمیں مولانا نے محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کو دہلی میں استقبالیہ دیا اور اپنے ادارے سے سپاسنامہ پیش کیا۔ اس سپاسنامے میں جناح صاحب کو ”قائداعظم ،صدائے ملک وملت،رہنمائے اور قائد ملت“ جیسے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے بعد مولانا نے جناح کے لقب ”قائداعظم“ کی باقاعدہ تشہیر شروع کر دی۔ “ یوں اس طرح سے 1937 ءمیں مولانا مظہر الدین نے محمد علی جناح کو ”قائداعظم“ کا لقب دیا جو 1888 ءکو شیر کوٹ ضلع بجنور میں پیدا ہوئے ۔اس رعایت سے ”مولانا شیر کوٹی“ کہلاتے تھے،لیکن بعدازاں دسمبر 1938 ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ میں میاں فیروز الدین نے ”قائداعظم زندہ باد“ کا نعرہ لگایا اس کے بعد محمد علی جناح اور مقبول نام ”قائداعظم“ ہی ہو گیا۔ اسی انسائیکلو پیڈیا کے صفحہ نمبر 720 کے مطابق” میاں فیروز الدین ہی وہ شخصیت ہے جنہوں نے سب سے پہلے قائداعظم زندہ باد کا نعرہ لگوایا۔ “اس طرح قائداعظم کے لقب کے سلسلے میں مذکورہ انسائیکلو پیڈیا کے علاوہ تحریک پاکستان ،قیام پاکستان اور قائداعظم کی شخصیت کے متعلق لکھی گئی تمام کتابوں میں مولانا مظہر الدین اور میاں فیروز الدین کا نام ہی نمایاں طور پر پڑھنے کو ملتا ہے۔

 قائد اعظم اپنی علم ودانش اور فہم وفراست سے مالا مال روشن خیال اور عوام الناس میں نہ صرف مقبول تھے بلکہ وہ ایک سچے اور کھرے لیڈر ہونے کیساتھ ساتھ ایک اعلیٰ ظرف اور اصول پسند انسان تھے۔ وہ وکالت کے پیشے سے جب منسلک ہوئے تو انہوں نے اپنی اصول پسندی پر کوئی سمجھوتا نہ کیا بلکہ اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر قائم رہے اور حد سے تجاوز نہ کیا۔ وہ صرف جائز معاوضہ لیتے تھے اور رشوت کو ایک ناسور سمجھتے تھے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے قائداعظم کے متعلق کہا تھاکہ”محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے۔“بقول سرور ارمان:

مرا قائد کمال سرفرازی کی علامت ہے
شکست فکر سے نا آشنا پندار کی صورت

قائداعظم محمد علی جناح جہاں ہندوستان کے ظلم وستم اور غلامی کی زنجیر سے ہمیں آزادی کا حق دلایا جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس طرح پاکستان اسلامی اصول اور قوانین کے تحت وجود میں آیا۔ قائداعظم نے جس وحدت ملی کا خواب دیکھا اُسے مسلم لیگ کے پرچم تلے ایک ساتھ متحد کر کے اسلامی تصورات کے مطابق انہیں تربیت دے کر اپنے خواب کی روشن تعبیر کو زندہ وبیدار کرتے ہوئے حقیقت کے روپ میں پاکستان پیش کر دیا۔ اس دوران انہوں نے اس عہد کو سامنے رکھا کہ ہم مسلمان ہے ہمارا کلمہ ایک ، رسول ایک، قرآن ایک، خدا ایک، تو پھر کیسے ہم مسلمان اپنی ریاست کے استحکام اور مذہب کی اشاعت اور ملت کی خوشحالی وسربلندی کے لیے کیوں نہ کوشاں ہوں۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک مکمل اسلامی نظریاتی مملکت بنانے کے لیے1940 ءمیں آپ نے حکومت برطانیہ کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کو ایک الگ قوم ہیں۔ ان کا رہن سہن اور تہذیب وتمدن سب کچھ ہندوستان سے جدا ہے اس لیے انہیں ایک الگ ریاست چاہیے ۔اس سلسلے میں 23 مارچ 1940 ءکو لاہو رمیں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرار داد لاہور کو منظور کیا گیا، اس اجلاس میں قائداعظم نے اپنے تاریخی خطاب بھی کیا۔ 8 مارچ 1944 ءکو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا”پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے، وطن نہیں اور ہندوستاں کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ اس جداگانہ قوم کا فرد ہو گیا، ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ہم زندہ قوم ہیں

آج یہی قوم جب 25 دسمبر کا دن آتا ہے تو بڑے جوش وجذبے کیساتھ بانی پاکستان قائداعظم کا یومِ ولادت تو منا لیتی ہے مگر کیا کبھی ہم نے اُن کے اصولوں اور اُن کے افکار پہ عمل پیراہ ہونے کی کوشش کی۔ (نہیں) میرے خیال ہمارے پاس موجودہ حالات میں قائداعظم کی شخصیت اور افکار پر عمل کر نے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ جس پر عمل کرنے کے لیے ہمارے سیاستدانوں کو اپنے اپنے مفادات کی دیوار کو گرانا ہو گا ۔ آخر میں قائداعظم کو خراجِ تحسین کے طور پر ابصار عبدالعلی مرحوم کی مشہورِ زمانہ نظم کے چند اشعار پیش کرتا اجازت چاہوں گا۔

جس کو چلیں اُٹھا کے وہ سر دے گیا ہمیں
زنجیر کاٹنے کا ہنر دے گیا ہمیں
ہم دیکھتے نہیں تو ہمارا قصور ہے
وہ دیکھنے کو اپنی نظر دے گیا ہمیں
بابائے قوم، ملت محبوب کی انا
اللہ کا دیا ہوا گھر دے گیا ہمیں
پھر آج ہم کو چاہیے سورج وہی کہ جو
صدیوں طویل شب کی سحر دے گیا ہمیں

کوئی تبصرے نہیں