محبتیں، چاہتیں اور شہرتیں سمیٹنے والا شاعر……اعتبار ساجد
تحریر: صدام ساگر
وصال میں بھی ترے وصل کے رہے طالب |
کہ ہم سے جو بھی ہُوا کام، شاعرانہ ہُوا |
اعتبار ساجد کا امتیاز یہ
ہے کہ انہوں نے بیک وقت متنوع اصنافِ نظم و نثر کے لیے اپنے قلم کو استعمال کیا اور
شاعری، کالم نگاری، ادبی مکالموں اور تحقیق کے علاوہ شعبہ تدریس اور ادبی صحافت میں
بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ لیکن ان کی شاعری کے بارے میں میرا اپنا ایک نقطہ نظر ہے اور وہ یہ ہے کہ ان
کی بعض غزلوں کے اشعار دل سے روح تک اُترنے میں دیر نہیں لگاتے بلکہ اپنا ایک مخصوص
اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
ذرا سی فرمائش بھی پوری کر نہیں سکتے |
محبت کرنے والے لوگ بھی لاچار کیسے ہیں |
اعتبار ساجد اپنے اندازِ
سخن اور اسلوبِ بیان کے لحاظ سے ایسے منفرد شاعر ہیں جن کا مزاج عاشقانہ ہے۔ کیونکہ
انہوں نے اپنی غزل کو تغزل کی پوری رعنائی اور نزاکتوں کے ساتھ سنوارا ہے ان کے ہاں
عشق مجازی بھی ہے اور عشق حقیقی بھی۔ اسی لیے ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات
کا احساس شدت سے ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک نرم و گداز شاعر چھپا بیٹھا ہے جو اپنا
اظہار بڑی سادگی سے کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں چیخ وپکار، مار دھاڑ نہیں بلکہ اس میں
کوئل کی ایسی مدھ بھری آواز ہے جو کان پر کم اور دل پر زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ جس سے سننے
اور محسوس کرنے والے کی روح پر ایسا وجد طاری ہو جاتا ہے جس سے انسان محبوب کی بارگاہ
میں دھمال ڈالنے لگتا ہے۔ ایسا ہی ان کا ایک شعر دیکھے جس میں وہ اپنی روح اور متاعِ
جاں کی سانس تک کو دوسروں کی امانت کر دیتے ہیں۔
ترا قرض ہے مری زندگی مرے پاس اپنا تو کچھ نہیں |
مری روح، میری متاعِ جاں، مرے سانس، تیری امانتیں |
اعتبار ساجد اپنے ابتدائی
دور کے حوالے سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”میں نے جب لکھنے پڑھنے کی دنیا میں قدم
رکھا تھا تو وہ اخلاق اور علمی اقدار کے دور کا عروج تھا۔ ہر شخص نہ ادیب و شاعر بن
سکتا تھا نہ اس زمانے کے مقتدر رسائل و جرائد تک پہنچ سکتا تھا۔ کیونکہ ایڈیٹروں کی
کرسیوں پر وہ لوگ براجمان تھے جو صاحبِ مطالعہ اور بہت زیرک اور دور اندیش ہوتے تھے۔
ان کی چھلنی سے جو تحریریں چھن کر نکلتی تھیں وہ واقعی معیار کے لحاظ سے بہترین نہیں
تو بہتر ضرور ہوتی تھیں۔“ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اور نثری تخلیقات میں پائے جانے
والا رنگ ایسے ہی صاحبِ مطالعہ اور زیرک اندیش لوگوں سے سیکھنے کا ثمر ہے۔ جس کی وجہ
سے آج وہ زندگی کے اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں لوگ ان سے نہ صرف پیار کرتے ہیں بلکہ
ان کا اعتبار کرتے ہوئے ہر محفل میں ان کا انتظار کرتے ہیں۔ بقول شاعر:
لوگ ایسے جو قیمتی بھی ہوں |
اُن میں ترا شمار کرتے ہیں |
محبتیں، چا ہتیں اور شہرتیں
سمیٹنے والا یہ شاعر اپنی محبت میں ناکام رہا اور اپنی زندگی میں کسی کو شریک کرنے
سے محروم رہے یا جھجکتا رہے لیکن انہوںنے دوسروں کو بھرپور محبت کا احساس دیا اورجس
کا جواب ہمیں ان کے شعری مجموعے ”جانم“ کی صورت میں ملا۔ جسے پڑھنے کے بعد بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں ایک جانم نہیں بلکہ کئی جانمیں چھپی ہوئی ہیں۔
آتشِ دل ہے کہ ہوتی ہی نہیں کم، جانم |
اب تو شعلوں کی زباں پر بھی ہے جانم، جانم |
میری آنکھوں میں نہ ڈھونڈا کرو آنسو میرے |
میں نے سینے میں چھپا رکھا ہے ہر غم، جانم |
اعتبار ساجد کے بے شمار شعری
اور نثری مجموعے اب تک شایع ہو چکے ہیں جبکہ عالمی ادبی کانفرنسوں، مشاعروں اور سیمیناروں
میں متعدد بار پاکستان کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ ان کی فن و شخصیت پر بی اے اونرز،
ایم اے، ایم فل کے مقالہ جات بھی لکھے جا چکے ہیں۔ جبکہ دیگر قومی اخبارات کے ایڈیشنز
کے علاوہ بے شمار رسائل و جرائد نے خصوصی نمبرز بھی شایع کیے ہیں۔ ان کی کتابوں نے
مقبولیت کے شاندار ریکارڈ قائم کیے ہیں اور اب ان کی شاعری کے شایقین کی تعداد لاکھوں
سے تجاوز کر کے پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک زمانہ تھا جب پبلشرز
اچھی کتاب چھاپنے پر لکھاری کو منہ مانگا معاوضہ دیتے مگر وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ایسا
ناممکن ہو گیا لکھاری خود ہی پبلشرز بن کر اپنی کتابیں شایع کرتے ہوئے شہرت کی بلندیوں
کے خواب دیکھنے لگے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت
المختصر اعتبار ساجد کو اللہ
رب العزت نے عزت اور شہرت کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ عطا کیا جس کے وہ طلب گار تھے۔ ان
کی شہرت کا باعث بننے والا شعری مجموعہ ”مجھے کوئی شام اُدھار دو“ ہے جس کی اب تک کئی
ایڈیشنز منظر عام پر آ کر داد و تحسین سمیٹ چکے ہیں۔ ان کے اس شعری مجموعے پر پھر کسی
وقت لکھنے پر اکتفا کرتے ہوئے ان کی مشہورِ زمانہ غزل کے چند اشعار پیش کرتے ہوئے اجازت
چاہوں گا۔
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں میرے دل سے بوجھ اُتار دو |
میں بہت سے دنوں سے اُداس ہوں مجھے کوئی شام اُدھار دو |
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد |
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے زنگ اُتار دو |
٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں