ممتازکہانی کار نعیم کوثر کا بھوپال میں انتقال

 رپورٹ (ندیم صدیقی) بھوپال سے ملنے والی اطلاع کے مطابق اُردو کے ممتاز سینئر کہانی کار87 سالہ نعیم کوثر انتقال کر گئے۔ نعیم کوثر 15دسمبر 1936 کو مدھیہ پردیش کے بیگم گنج ( ضلع رائے سین) میں اپنے وقت کے مشہور افسانہ نگارکوثر چاند پوری کے ہاں پیدا ہوئے تھے، جن کا نام سید محی الدین اختر رکھا گیا جو بعد میں قلمی نام’ نعیم کوثر ‘سے معروف و مشہور ہوئے۔ نعیم کوثر نے 1957 میں آگرہ یونیورسٹی سے بی کام کیا تھا اور مدھیہ پردیش ہاسنگ بورڈ کے ایڈ منسٹریٹیو افسر کے عہدے سے 1994 میں سبکدوش ( ریٹائر) ہوئے۔ نعیم کوثر نے 1941 میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو اس وقت کے بچوں کے رسائل میں چھپیں، انھوں نے بچوں کے لیے ایک ناولٹ ”ہونہار شہزادہ“ بھی لکھا تھا جو 1949 میں حیدرآباد کے ہاشمی پبلشنگ ہاس نے شائع کیا تھا، مرحوم نے ”بچوں کی تقریریں“ بھی رقم کیں اور بچوں ہی کے لیے بھوپال سے ”جگنو“ نامی 1959 میں ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔ نعیم کوثر کی پہلی کہانی ”تشنگی“ دہلی کے ماہنامہ ”جمالستان“ میں شائع ہوئی تھی۔

نعیم کوثر کے والدِ محترم کوثر چاند پوری اپنے زمانے کے مشہور طبیب اور فکشن نگار تھے ، کہانی کا فن نعیم کوثر کو ورثے میں ملا تھا ، انہوں نے چھ سَو سے زائد کہانیاں لکھیں اور اُردو کے اکثر ممتاز رسائل میں ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں، ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ”خوابوں کا مسیحا “ 1999 میں منظر عام پر آیا۔ ان کی فکشن نگاری نصف صدی پر محیط ہے۔ انہوں نے بھوپال سے ایک پندرہ روزہ اخبار ”صدائے اُردو“ بھی جاری کیا تھا۔ انھیں کر کٹ سے بھی خاصا شغف رہا وہ اِس کھیل کے مستند امپائر ہی نہیں بلکہ بھوپال کر کٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر اور سیکریٹری بھی رہے۔

 وہ اِدھر ایک عرصے سے ضیِق النفس (دمہ) میں مبتلا تھے اور بلا کے سگریٹ نوش واقع ہوئے تھے ،گزشتہ دنوں انھیں فالج جیسے موذی مرض نے آ دبوچا تو بھوپال کے ایک ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں انھیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کی تینوں اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک بیٹی اپنے دادا کی طرح طِب سے وابستہ ہے جو ماہر چشم ڈاکٹر ہے اور بڑی بیٹی ایم ایس سی ہے اور لیکچرار ہے جبکہ بیٹا نوید کوثر بینکنگ کے شعبے میں ایک اچھی ملازمت سے متعلق ہے۔

 نعیم کوثر ایک اچھے کہانی کار تھے ،اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ جدیدیت کے ابہامی سَیل سے ہرگز متاثر نہیں ہوئے، انہوں نے ہمیشہ اپنے فکشن میں ”کہانی“ کے تاثر کو برقرار رکھا، ہم نے اپنے ادبی صفحوں پر اُن کی کئی کہانیاں شائع کی ہیں جس کا تاثر اب تک ذہنِ ندیم پر نقش ہے یہ کسی بھی کہانی کار کی بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ نعیم کوثر کی کہانیوں کا ماخذ معاشرے کے دبے کچلے اور پریشاں حال، غریب نادار افراد اور عصری مسائل ہی تھے جس کے سبب اُن کا قاری متوجہ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ بندھ جاتا تھا۔

 مشہور شاعر و ادیب مظہر امام نے ایک جگہ لکھا تھا ”زبان و بیان کے علاوہ مسائلِ حیات پر آپ کی گرفت مضبوط ہے، (آپ کے ہاں) ایک ایسی درد مندی ہے جو آج کی کہانیوں میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔

 اور افسانے کے ممتاز فنکار جوگندر پال کا یہ جملہ ایک سند جیسا ہے: ”آپ کے ہاں وقوعی تانا بانا بڑا پکّا ہوتا ہے، جس کے باعث کہانی خوب بندھ جاتی ہے اور متاثر کرتی ہے، اکثر مقامات پر بہت زیادہ۔

 نعیم کوثر کی کہانیوں کے کوئی سات مجموعے طبع ہو کر مقبول ہوئے جن کے نام اس طرح ہیں۔ خوابوں کا مسیحا، کال کوٹھڑی، رگِ جاں کا لہو، اقرار نامہ، اگنی پریکشا، آخری بات اور کہرے کا چاند۔ آخری الذکر مجموعہ مدھیہ پردیش اُردو اکادیمی نے شائع کیا تھا۔ نعیم کوثر کو مدھیہ پردیش گورنمنٹ کا موقر ترین ایوارڈ ”شکھرسمان“ بھی دیا گیا۔ وہ ہندی اُردو دونوں زبانوں کے ادب کے شائقین میں عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بھوپال میں ہندی کے معروف ادیب و قلم کار رام پرکاش ترپاٹھی نے ایک تعزیتی مراسلے میں لکھا ہے۔ :

 ”نعیم کوثر اُردو کے ترقی پسند اقدار کے پَیرو کار افسانہ نگار تھے، اُن کا انتقال ہندی اُردو ایکتا کے پُل میں دراڑ جیسا افسوس ناک واقعہ ہے اُردو ادب کے گہوارے بھوپال کے لیے تو یہ سانحہ ایک ایسا خلا ہے جس کا پُر ہونا مشکل جیسا ہے۔

نعیم کوثر کا آبائی وطن تو مغربی یوپی کا چاند پور (بجنور) تھا مگر اُن کی زبان اور لب و لہجے، حرکات و سکنات (باڈی لینگویج) میں بھوپالی رنگ و ڈھنگ رچا بسا نہیں بلکہ ایک طرح سے فطری تھا وہ دوستوں ہی میں نہیں بلکہ عمومی سطح پر کسی رو و رعایت کے قائل نہیں تھے جو اُن کے ذہن میں آیا وہ کہتے ہی نہیں ، کر گزرتے تھے مگر کینہ اور طمع سے ان کا تعلق ہرگز نہیں تھا۔           

 بھوپال کے سیفیہ کالج قبرستان میں اُن کے جسدِ خاکی کو سپردِ لحد کیا گیا۔ اس موقع پر بھوپال کے اکثر اہل علم اور ادب دوستوں کے ساتھ تمام شعبہ حیات کے عام و خاص اشخاص موجود تھے، بقول اقبال مسعود ایک جم ِ غفیر تھا جو اپنے فنکار کو دو مٹھی مٹی دینے آن پہنچا تھا، جلوسِ جنازہ میں افراد کی کثرت کے سبب کئی بار راستہ جام ہوگیا، ایک مدت بعد کسی اُردو والے کی رِحلت پر ایسا مجمع دیکھا گیا جو نعیم کوثر کی مقبولیت پر دال ہے۔

کوئی تبصرے نہیں