تھری ڈی پرنٹنگ سے تخلیق گردے کی پیوند کاری ممکن ہوگئی ہے، ڈاکٹر عطا الرحمن
کراچی ( نمایندہ ٹیلنٹ) ملک کے معروف سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمان نے کہا ہے کہ دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے انسانی گردے بنائے جارہے ہیں، جن کی انسانوں میں پیوند کاری ممکن ہوگئی ہے، اس کے علاوہ اسٹیم سیل ٹیکنالوجی سے جگر، گردے، دل یا دیگر اعضا جن میں نقص پیدا ہو گیا ہو، انہیں ٹھیک کیا جا سکتا ہے، جو خلیہ غیر فعال ہو گئے ہیں، ان کی جگہ نئے خلیے تخلیق کیے جا سکتے ہیں، اس لیے ہماری حکومتوں کو سوچنا چاہیے کہ صرف زراعتی معیشت پر انحصار کر کے ملکی معیشت کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا بلکہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) اور بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف وائرس کے خلاف ویکسین بناکر معیشت کو بہتر انداز میں مستحکم کیا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیرِ اہتمام پہلی دو روزہ بین الاقوامی بائیو میڈیکل سائنسز کانفرنس بہ عنوان ”بریجنگ بیسک اینڈ ٹرانزیشنل ریسرچ“ سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے ان کے علاوہ ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر سارہ قاضی، ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر زیبا حق، امریکا سے آئے پروفیسر راجہ ابو ناڈر، ملائیشیا سے ڈاکٹر مائیکل کے ایچ لنگ، ڈاکٹر چیک پک سی، پروفیسر درخشاں جبین حلیم، ڈاکٹر شیخ قیصر وحید، ڈاکٹر کلثوم غیاث، ڈاکٹر ذکی الدین احمد، ڈاکٹر فرینہ حنیف نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ اس موقع پر ڈاکٹر شبانہ عثمان سیم جی، ڈاکٹر سونیا صدیقی سمیت اساتذہ وطلبا کی بڑی تعداد میں موجود تھی۔
کانفرنس سے خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمان نے کہا کہ دنیا میں حیرت انگیز ترقیاں ان ممالک میں ہو رہی ہیں جنہوں نے سمجھ لیا ہے کہ ان کی افرادی قوت میں ہی ان کی طاقت پوشیدہ ہے، سائنسی علوم، ٹیکنالوجی اور حدت طرازی کو ترجیح قرار دیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت طب کے میدان میں بھی بڑے پیمانے پر استعمال کی جا رہی ہے، اس کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ انسانی جسم کے کون سے اعضا میں خامی ہے اور ان کو ٹھیک کیسے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پاکستان میں گزشتہ دو عشروں کے دوران حیرت انگیز تبدیلیاں ہوئیں۔ بیس برس پہلے ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت سے ریسرچ پبلیکیشنز کی فیلڈ میں 400 فیصد پیچھے تھے، جب ہم نے اس جانب توجہ دی تو پاکستان نے 2018 میں بھارت کو کراس کیا اور آج ہم بھارت کے مقابلے ریسرچ پبلیکیشنز کے شعبے میں فی کس آبادی کی بنیاد پر اس سے دس تا پندرہ فیصد آگے ہیں۔
بین الاقوامی کانفرنس سے ڈاکٹر ذکی الدین احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیس سال پہلے ہم بھاری بھاری کتابیں اٹھا کر میڈیکل کالج جاتے اور آتے تھے آج لیپ ٹاپ اور موبائل ہمیں ڈیجیٹل ہیلتھ پر لے آئے ہیں، اب ڈیجیٹل ہیلتھ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ٹیلی سرجریز ہو رہی ہیں۔ اب دنیا میں نفسیاتی بیماریوں کے علاج کے لیے ڈیجیٹل پِل استعمال ہو رہی ہیں جو ایف ڈی اے سے منظور شدہ ہیں، کیونکہ ٹرانسپلانٹ کے بعد 25 فیصد مریض کوئی بھی دوا لینے کے قابل نہیں ہوتے، ان کے لیے یہ ڈیجیٹل دوائیں بہت موثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کیئر ٹیکنالوجی اب اتنی اہمیت کی حامل نہیں جتنی مریض کی اس سے آگہی کی ہے، مریض کو اپنے مرض اور اس کے علاج کے بارے میں آگہی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ باوجود اس کے اسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہوتا ہے مگر اسپتال سے مختلف اقسام کے انفیکشنز پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے، عالمی ادارہ ِ صحت کی رپورٹ کے مطابق ہر دس میں سے ایک مریض کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے جس سے بچنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے مریض کا ورچوئل معائنہ بھی کر سکتے ہیں۔ اب دنیا میں ”ہاسپٹل ایٹ ہوم“ کا تصور بھی فروغ پا رہا ہے۔
کوریا اور تائیوان میں اسمارٹ ہاسپٹل کام کر رہے ہیں، ہمارے
یہاں آن لائن کلینک اور آن لائن ڈاکٹرز سے مریض مشورے کرتے ہیں۔ کانفرنس سے ڈاکٹر درخشاں
جبین نے موٹاپے کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مرد و خواتین میں پچیس فیصد افراد
غذائی عادات کے ساتھ ڈپریشن کے نتیجے میں موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر وحید
نے فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں بائیو میڈیکل سائنس کی اہمیت اجاگر کی۔ کانفرنس کے موقع
پر ڈاکٹر سارہ قاضی اور ڈاکٹر زیبا حق نے مقررین کو یادگاری شیلڈز پیش کیں۔
کوئی تبصرے نہیں