حیدرآباد میں ناول نگاری کے فن کے موضوع پر ایک مذاکرہ
کراچی(نمایندہ ٹیلنٹ) ناول نگاری کے فن کے موضوع
پر ایک مذاکرہ انیس اکیڈمی کی جانب سے سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ اس
موقع پر معروف رائٹر اورسندھ ادبی بورڈ کی سیکریٹری محترمہ شبنم گل نے کہا کہ انیس
انصاری اکیڈمی کی کہانی کانفرنس کے ذریعے سندھی کہانی میں ایک بار پھر نئی روح پھونک
دی گئی ہے اور کہانی نے نئے انداز میں دوبارہ لکھنا شروع کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ وقت
آگیا ہے کہ ہم ادبی اصناف کی نئی جہتیں دریافت کریں۔رسول میمن کی دائمی رخصتی سندھی
کہانی اور ناول کا ایک بہت بڑا نقصان ہے،انہوں نے ناول کی صنف میں جدت پیدا کی۔
اسحاق انصاری نے کہا ”ہم نے کہانی کی صنف پر اس وقت سیمینار شروع کیے، جب کہانی کے لئے کہا گیاکہ سندھی کہانی آخری سانس لے رہی ہے۔ انیس انصاری اکیڈمی نے کہانی پر کئی پروگرام کئے۔ اس وقت بھی کہانی لکھی جارہی تھی۔ آج بھی لکھی جارہی ہے، مگر کہانی کے فن کو مزید دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ناول و دیگر اصناف پر بھی پیش رفت جاری رہے گی ۔ نامور ادیب اخلاق انصاری نے کہا کہ سندھی ناول کی عمر کم ہے، اچھے ناول لکھے گئے۔ ہمارے یہاں ایک شاندار ناول ”سانگھڑ “لکھا گیا۔ دوسری بات یہ کہ ہندوستان کے سندھی ناول نگاروں نے اعلی پائے کے ناول لکھے ہیں، جسے ہمیں اپنے سندھی ناول سے الگ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے ہیروز پر ناول لکھنا چاہیے۔
معروف ادیب اور محقق اشتیاق انصاری نے کہا کہ انہیں ناول لکھنے میں انہیں سات سال لگے، یہ ایک انتھروپولاجیکل ناول ہے جو اوڈ قبیلے پر کافی تحقیق کے بعد لکھا گیا ہے۔ تاریخی ہیروز جیسے دولھ درہا خان، روپلو کولھی یا اور بھی کئی تاریخی کردار، دراوڑی نسل کے کردار ہیں جن پر ناول لکھے جاسکتے ہیں۔ناول نگار کلیم بٹ کہتے ہیں کہ وہ پوسٹ ماڈرن اور میٹا فکشن تخلیق کاروں سے متاثر ہیں۔ اس نے بہت سارے نئے تجربات اور نئے فنی پہلوؤں کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر نسیمہ منیر نے کہا کہ میں رسول میمن کے ناول نجومی اور شبنم گل کے ماحولیات پر لکھے ناول مکھی کھاں موکلانی سے متاثر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: محترمہ شبنم گل صاحبہ کی کتاب کی تقریب رونمائی
معروف ناول نگار منیرچانڈیو کا کہنا تھا کہ انھوں نے جس روانی میں ناول لکھے، انھوں نے فنی پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، نہ ہی شعوری کوشش سے ناول لکھا۔ جب ناول لکھے میری ذہنی کیفیات ابتری کا شکار تھیں۔مجھے ناول لکھنے سے ذہنی آسودگی حاصل ہوئی۔ سندھی ناول کے حوالے سے ڈاکٹر رسول میمن کا بڑا نام ہے۔ ناول نگار اکبر سومرو نے کہا کہ ایسے مذاکرے ہونے چاہئیں۔ مجھے ہر ناول لکھنے میں بھی برسوں لگے، ناول کے موضوعات وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔ نوجوان ادیب ہوش بھٹی نے کہا کہ ناول کے موضوع پر کانفرنس ہونی چاہیے، ناول ایک اہم نثری صنف ہے اور ایسے مواقع ےملنے سے ہم ناول کی جدید فنی اجزا سے واقف ہوسکیں گے۔
معروف ناول نگار ظفر جونیجو
نے ناول کے اجزا پر جامع انداز میں روشنی ڈالی۔ ناول نگار کو کن اہم نکات کا خیال رکھنا
چاہیے، جس میں موضوعات، بیانیہ اور ڈکشن وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ناول میں
پیراگراف کی اہمیت ہے۔ ایڈجیکٹو کم استعمال کئے جائیں البتہ ناﺅن اور ورب زیادہ ہوں۔،ناول
میں چیزیں بدلتی رہیں، دلچسپ بیانیہ ہونا چاہیے۔ دقیق فلسفے کی وضاحت ناول کی افادیت
پر اثرانداز ہوتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں