مادر علمی یا مقتل
لیکن سندھ میں خواتین کو اب نئے خطرناک مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ بھی دور دراز دیہاتوں گوٹھوں میں نہیں بلکہ شہروں میں قائم اعلیٰ تعلیی اداروں میں۔ ان تعلیمی اداروں میں طالبات کے ساتھ پیش آنے والے نہ خوش گوار واقعات نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں سندھ کے تعلیمی اداروں سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے شہر میں چانڈکا میڈیکل کالج، سندھ یونیورسٹی جامشورو میں نائلہ رند،ڈاکٹر نمرتا چندانی،نوشین کاظمی کی جانب سے خود کشی کے تواتر سے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نمرتا آصفہ ڈینٹل کالج لاڑکانہ کی فائنل ایئر کی طالبہ تھیں جن کی نعش ہاسٹل سے 16 ستمبر 2019ء کو برآمد ہوئی۔ ٹھیک ایک سال بعد اسی کالج میں میڈیکل سیکنڈ ایئر کی طالبہ نوشین کاظمی کی نعش 24ستمبر 2021ء کی صبح پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی۔ اس سے قبل سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ماروی ہاسٹل میں دادو کے علاقے میہڑ سے تعلق رکھنے والی طالبہ نائلہ رند بھی ہاسٹل کے باتھ روم میں مردہ حالت میں پائی گئی جبکہ پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ میں زیر تعلیم سیتا روڈ دادو سے تعلق رکھنے والی طالبہ ڈاکٹر عصمت طور نے گزشتہ ماہ ایک ریٹائرڈ فوجی شمن سولنگی کی جانب سے بلیک میلنگ سے تنگ آکر گھر میں فائرنگ کرکے خود کشی کر لی تھی۔ اب تازہ ترین واقعہ اسی پیپلز میڈیکل یونیورسٹی نواب شاہ میں ڈاکٹر پروین رند کو پروفیسر کی جانب سے جنسی طور پر حراساں کرنے کی شکل میں پیش آیا ہے۔ اس واقعے کے متعلق ڈاکٹر پروین رند نے صحافیوں کو اپنا بیان دیتے ہوئے بتایا کہ انہیں ڈائریکٹر غلام مصطفیٰ راجپوت کی جانب سے ہراساں کیا جارہا تھا کہ وہ کسی بڑے افسر سے تعلقات رکھیں۔ جب انھوں نے انکار کیا تو ان پر تشدد کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بیٹیاں خودکشیاں نہیں کرتیں پہلے ہمیں ماردیا جاتا ہے اور پھر لٹکادیا جاتا ہے۔ نوکوٹ میں تنگڑی برادری کی جانب سے راجپوت برادری کی دو کم عمر لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد اجتماعی زیادتی اور برہنہ حالت میں گشت کروانے کے شرمناک واقعے کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ نوابشاہ میں ڈاکٹر پروین کا شرمناک واقعہ سامنے آگیا ۔
یہ بھی پڑھیں: موجودہ حکومت اور کرپشن کا ناسور
سندھ کے تعلیمی اداروں میں
ایسے شرمناک واقعات سے تعلیمی ادارے نہ صرف اپنا تعلیمی معیار کھو چکے ہیں بلکہ سندھ
کے تشخص کو بھی داغ دار کرچکے ہیں۔ ایک وہ دور تھا جب علامہ آئی۔ آئی قاضی، نبی بخش بلوچ
جیسے اسکالر شیخ ایاز جیسے انقلابی شاعر ہماری یونیورسٹیوں کے سربراہ تھے، لیکن آج سندھ
یونیورسٹی سے لے کر شاہ لطیف یونیورسٹی تک جو افراد ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہ ہیں ان میں سے کئی نیب اور اینٹی کرپشن کے مطلوبہ
ہیں۔ تعلیمی اداروں کے انتظامی اور اخلاقی معیار کے زوال پذیر ہونے کی بڑی وجہ تعلیمی
اداروں میں سیاسی مداخلت و اقربا پروری کی بنیاد پر اعلیٰ سطحی عہدوں پر افسران کی تعیناتیاں
ہیں۔ ایسے زوال پذیر انتظامی اور اخلاقی سسٹم میں قوم کا مستقبل نائلہ رند، ڈاکٹر نمرتا اورنوشین کاظمی کی شکل میں موت کے پھندے پر جھولتا رہے گا۔ سندھ کے دیگر انتظامی اداروں کی طرح
بدقسمتی سے اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی انتظامی اور اخلاقی کرپشن کے جال میں قید پرندے
کی طرح ہیں۔ اخلاقی کرپشن کے انسان نما گد قوم کی بیٹیوں پر اپنی ناپاک نگاہیں گاڑھے موقع ملتے ہی ان کی عزتوں پر جھپٹ کر شکار کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ان بد
کرداروں کی وجہ سے تعلیمی ادارے زوال کی علامت بن رہے ہیں۔ امن و آشتی شاہ بھٹائی سچل سرمست
جیسے صوفیا کرام کی اس دھرتی کا یہ حال کیوں ہے اور کب تک رہے گا؟ یہ سوال مجھ سمیت
ہر فرد حکمرانوں اور ذمہ داروں سے ان کا ضمیر جھنجھوڑ جھنجوڑ کر پوچھ رہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں