مرگی کے علاج میں حائل رکاوٹیں

ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

مرگی کے مرض کے بارے میں جو خدشات، غلط فہمیاں اور توہمات پائے جاتے ہیں جیسا کہ یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ یہ آسیب یا جادو کا اثر ہے ان سارے مفروضوں سے دنیا کو آگاہی ملے کہ یہ ایک ذہنی اور قابل علاج مرض ہے۔ اعصابی عوارض (Neurological disorders) کی شرح ٹی بی، ایڈز، ہاضمہ، سرطان، دل اور دمہ کی بیماریوں سے زیادہ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت مرگی کے مریضوں کی تعداد 65 ملین سے زائد ہے جن میں 2.4 ملین مریض پاکستان میں ہیں یعنی ہر ایک ہزار افراد میں سے ایک فرد مرگی کا مریض ہے۔ اس بیماری کی شرح بچوں میں زیادہ ہے یعنی ہر ایک ہزار میں 14.6 بچے مرگی سے متاثر ہیں۔ ہر سال مرگی کے مرض سے پچاس ہزار اموات واقع ہوجاتی ہیں۔ اس مرض سے 30 سال سے کم عمر افراد زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ دیہاتوں میں مرگی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ وہاں اسے بیماری کی بجائے آسیب یا جادو ٹونہ تصور کیا جاتا ہے۔



مرگی کے علاج کے لیے 25 سے زائد اقسام کی ادویات موجود ہیں جس پر مرض کی نوعیت کے مطابق 50 روپے سے 10 ہزار روپے ماہانہ خرچ آ جاتا ہے۔ مرگی کا علاج سرجری کے ذریعے بھی ممکن ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مرگی کے مریضوں کے لیے ایمرجنسی کی سہولیات موجود نہیں ہے۔

اس بیماری کے بارے میں ہمارے یہاں چند افسوسناک مفروضے گھڑ لئے گئے ہیں۔ مرگی کو ایک بیماری کی بجائے جنات یا آسیب، نفسیاتی یا جنون اور ناقابل علاج تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرگی کا مریض تعلیم، ملازمت یا شادی شدہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتا ہے اسلئے اس کا علاج کرنے کی بجائے اسے شرمناک سمجھ کر اسے چھپایا جاتا ہے۔

مرگی کی بیماری 70 فیصد افراد میں نامعلوم وجوہات، 30 فیصد میں دماغی چوٹ، انفیکشن، فالج، ٹیومر وغیرہ سے جبکہ 5 فیصد میں موروثی ہوتی ہے۔

ہمارے ملک میں 70 فیصد مریض مرگی کے علاج سے محروم ہیں۔ صرف 35 فیصد شہری اور 8 فیصد دیہی علاقوں میں مریض معالج سے علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں۔50 فیصد مریضوں کا صحیح طریقے سے علاج ہی نہیں کیا جاتا ہے جبکہ یہ قابل علاج مرض ہے اور 70 فیصد مرگی کو ادویات کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

مرگی کے بارے میں پائی جا نے والی غلط فہمیاں اس کے علاج میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس مرض کے بارے میں معالجین بھی مکمل آگاہی سے محروم ہیں۔ غربت کی وجہ سے بالخصوص دیہات میں مریض علاج کرانے اور ادویات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں 10 ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک نیورولوجسٹ معالج دستیاب ہے۔

مرگی کا مریض ایک صحتمند شخص کی طرح تعلیم کے حصول، ملازمت کرنا، شادی کرنا، کھیلوں میں حصہ لینا، سوشل ورک، سیاست وغیرہ میں حصہ لینے جیسا ہر کام کر سکتا ہے۔

مرگی کے مرض میں خواتین کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرض کو ایک بدنما داغ سمجھ کر 90 فیصد مریضوں کا علاج کرانے کی بجائے بیماری کو چھپایا جاتا ہے اس خوف سے کہ بچی کی شادی نہیں ہو سکے گی۔ لوگوں میں ایسی خواتین کے حاملہ ہونے، بچوں کو دودھ پلانے سے بچوں کے متاثر ہونے کا خوف پایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بچوں کی مرگی کے ماہر معالجین کی تعداد 10 سے بھی کم ہے۔ اس مرض کی آگاہی کے لیے ٹیلی وژن، اخبارات اور عوامی مقامات پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ورلڈ پرپل ڈے اور ورلڈ ایپی لیپسی ڈے کے موقعوں پر الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر خصوصی پروگرامات کے انعقاد اور ضمیموں کی اشاعت کے ذریعے آگاہی فراہم کی جا سکتی ہے۔

میں، پاکستان میں مرگی کے مرض پر قابو پانے کے لیے معالجین کی تربیت کے لیے Epilepsy Mini Fellowship پروگرام پر عمل پیرا ہوں جس کے تحت 20 شہروں میں 1000 معالجین کی تربیت کا ہدف حاصل کی کوششیں جاری ہیں۔

مرگی کی صورتحال کو سنگین بننے سے روکنے کے لیے حکومت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ سب سے پہلے میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ضلع سطح پر سول اور دیگر سرکاری اسپتالوں میں مرگی کے مریضوں کے لئے ایمرجنسی وارڈ قائم کرے، ریسرچ و تربیتی پروگرامات شروع کرے اور مرگی کی ادویات کو سستی کرنے اور ان کی عدم دستیابی کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کرے۔

کوئی تبصرے نہیں