صنم خانہ (افسانہ)

محمد سراج عظیم

 ”یہ لیجئے آنٹی! جامع مسجد آگئی یہاں سے چتلی قبرآپ پیدل چلی جائیں۔“ اس نے کار روک کرکہا۔

ہاں بیٹا مجھے معلوم ہے یہاں بچپن گزرا ہے، پاکستان تو شادی کے بعد گئی ہوں۔“ اس نے اترنے کے لیے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔

بائے فراز بہت شکریہ بیٹے!“ دونوں ماں بیٹی نے اتر کر ایک ساتھ کہا۔

بائے ثمرین بائے آنٹی پرسوں آپ کی فلائٹ کس وقت کی ہے؟“ اس نے ہاتھ ہلاتے ہوئے سر باہر نکال کر پوچھا۔

اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی ثمرین بول پڑی”فراز پی آئی اے کی فلائٹ ہے ڈیڑھ بجے کی ہم لوگ دس بجے نکل جائیں گے۔

"Ok I'll try to reach airport" اس نے کہا اور کار آگے بڑھا دی۔

ادھر ثمرین اور اس کی ماں شاہینہ جو شانو کے نام سے مشہور تھی، اپنی بہن جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں اس کے گھر پہنچ گئیں وہ لوگ پچھلے پندرہ دن سے ہندوستان آئی ہوئی تھیں اور تقریباً روز ہی فراز کے گھر جاتی تھیں۔ اصل میں فراز کے والد شانو کے خالہ زاد بھائی تھے دہلی کی پوش نیو فرینڈس کالونی میں رہتے تھے شانو شادی کے بعد پاکستان چلی گئی تھی، ثمرین اس کی بیٹی پہلی بار اس کے ساتھ ہندوستان آئی تھی وہ جرمنی میں پڑھتی تھی۔

مما آپ کے رشتے داروں میں مجھے تمیم ماموں بہت اچھے لگے بہت cultured بہت sober ان کی پوری فیملی مجھے بہت پسند آئی۔“ ثمرین کی آنکھوں میں چمک تھی۔

ہاں بیٹا تمیم شروع سے ہی بہت سنجیدہ اور اپنے اپ کو لیے دیے رہنے والے شخص ہیں۔“ اس نے جذبات سے مغلوب چہرے کے تاثرات کو چھپانے کے لیے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔

ہاں مما اورآپ نے فرازکو دیکھا اتنا ہائی فائی لونگ لائف اسٹائل ہونے کے بعد بھی کس قدر composed اور سنجیدہ، نظر آتا ہے مما کیا کچھ دن کے لیے اور اسٹے بڑھوا لیں۔“ اس نے ایک عجیب جذبے کے تحت اچانک کہا۔

ہاں بیٹا میرا بھی دل کہاں بھرتا ہے دل چاہتا ہے کچھ دن اور رک جائیں اپنوں کے بیچ“ حسرت بھرے لہجے میں اس نے جواب دیا۔

مما تو صبح ایئر لائن کے آفس میں سیٹ کے لیے بات کرتی ہوں۔“ ثمرین کی آواز میں مسرت تھی۔

نہیں بیٹا بہت دیر ہو جائے گی یہاں سے تو جانے کو کبھی دل ہی نہیں چاہے گا“ اس کے لہجے میں افسردگی کا امتزاج تھا۔

مما مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔“ ثمرین نے اچانک بات کا رخ بدلتے ہوئے کہا۔

بیٹا کیا کوئی خاص ہے؟“ اس نے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔

ہاں مما میں فراز سے شادی کرنا چاہتی ہوں“ اس نے فورا بنا کسی تمہید کے کہا حالانکہ شانو کے گھر کا ماحول اتنا کھلا ہوا نہیں تھا لیکن بدلتے زمانے کا چلن ہی کچھ ایسا تھا کہ تمام قدریں پامال تھیں نسل نو انتہائی فیشن زدہ آزادی کے ماحول میں بے باک بدلحاظ اور منہ زور تھی کہ بسا اوقات بڑوں کو خود ہی اپنی عزت نفس کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی لیکن اس میں قصور صرف نسل نو کا نہیں تھا اصل وجہ تو بڑے ہی تھے جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ ثابت کرنے کے لیے بہت سی غیر اخلاقی عادات سے نظریں بچاتے رہے نتیجہ جو ماحول پیدا ہوا اب اس سے خود شاکی ہوتے ہوئے نسل نو کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔

کیا !! ؟ تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے“شانو کے چہرے پر خفگی کے آثار ابھر آئے تھے۔ ثمرین کے اس جملہ نے اس کے اندرون میں ایک عجیب خوف کی لہر دوڑا دی تھی اور اس کے وجود میں ارتعاش پیدا ہوگیا تھا۔

مما !! اپنی پسند سے شادی کرنا کیا جرم ہے“اس نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے کہا۔

نہیں تمہاری شادی فراز سے نہیں ہوسکتی“اس نے اپنے سینے میں پیدا ہو جانے والے مد وجزر میں نظریں نیچے جھکاتے ہوئے ماتھے پے پڑی تیوریوں کے ساتھ کہا۔

کیوں ! مما؟ کیا کمی ہے فراز میں بتائیں پلیز!“ وہ مصر تھی اور چہرہ شدت جذبات سے متغیر تھا۔

کوئی کمی نہیں ہے مگر تمہاری شادی“ ابھی اس کا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ثمرین اونچی آواز میں بولی۔

مما آخر کیوں! کیوں! کیا اعتراض ہے آپ کو؟

اعتراض کچھ نہیں وہ تمہارا بھائی ہے“ اس نے خالی نگاہوں سے بظاہر خود کو پرسکون ظاہر کرتے ہوئے سرسری سا جواب دیا۔

ارے! مما تو کیا ہمارے یہاں رشتے کے بھائیوں سے شادی نہی ہوتی؟ پھر تمیم ماموں آپ کے سگے بھائی تو ہیں نہیں، سگے رشتوں میں شادیاں ہو جاتی ہیں وہ تو آپ کے خالہ زاد بھائی ہیں۔“ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا اس پر ایک ہیجانی کیفیت طاری تھی ، دونوں ماں بیٹی کے درمیان ایک تلاطم خیز جذبات ابھر آئے تھے اس نے پھر بھی پرسکون لہجہ میں کہا۔

بس زیادہ بحث نہیں یہ شادی نہیں ہو سکتی۔“ اس کا انداز فیصلہ کن سا لگ رہا تھا۔

مگر مما کیوں ؟ پلیز!“ اس نے تقریباً رو دینے والے انداز میں پوچھا۔

وہ.... ! ثمرین.... وہ .... تمو!“ اس کی نظریں فرش کا طواف کر رہی تھیں سینہ کے ابھار تیز ہلچل کہ جیسے وہ پھٹ پڑے گا اور اس میں سے دل نکل کر باہر آ جائے گا وہ ایک غیر مانوس کیفیت میں مبتلا ہوگئی تھی اور بہت خجالت کے ساتھ دل کا دروازہ کھول رہی تھی۔

اوہ.... !“ ثمرین کی آنکھیں پھیل گئیں آن واحد میں وہ سمجھ گئی اس کی نظر ہی نہیں پہنچی تھی وہ سمجھتی تھی کہ ڈیڈی کے دوست تمکین صاحب کو لیکر مما ڈیڈی میں علیحدگی ہوئی تھی وہ سمجھتی تھی کہ مما شاید ان کو تمو بھائی کہتی تھیں اوہ ! ہو! تو یہ معاملہ تھا اسے یاد آیا مما ڈیڈی کی آخری لڑائی ڈیڈی کہہ رہے تھے۔

حرام زادی ہر وقت تمو بھائی۔

ہاں یہ فرق ہے تم میں اور تمو میں تم وہی جامع مسجد کے سڑے ہوئے گھٹیا قسم کے کرخندار ذہنیت والے اور وہ کہاں انتہاءشریف اعلیٰ صفت تمہارے پاس انسانیت ہوکر نہیں گزری“مما نے بہت غصے میں جواب دیا تھا۔

ہاں مجھے معلوم ہے تیرے اور تیرے خاندان کے بارے میں“ ڈیڈی نے بھی غصہ میں جواب دیا تھا ”ارے تم کیا جانو گے میرے خاندان کے بارے میں شہرکا معزز اور نامور خاندانوں میں سے ایک نواب خاندان تھا۔“ اس نے اسی تیزی سے جواب دیا تھا۔

ارے کمینی مجھے معلوم کہاں تھا تیرا خاندان پورے شہر میں تیرے خاندان کے مرد اور عورتوں کے چرچے تھے“ اس کے شوہر نے آگ اگلتی شعلہ بار آنکھوں سے غصہ میں کہا تھا۔

ارے بے شرم چھوڑو کیوں میرا منہ کھلوا گے رہنے دو۔“ اس نے اپنے شوہر کی طرف ہاتھ کے اشارے سے انتہائی غصہ میں کہا۔

ارے تو کیا منہ کھولے گی تیرے خاندان کی باتیں پورا جامع مسجد کا علاقہ جانتا ہے۔“ اس کے شوہر نے تضحیک آمیز لہجہ میں کہا ۔

ارے چھوڑو دوسروں کے عیب گنانا اپنے گریبان مین جھانکو۔“ اس نے بہت حقارت سے طنزیہ کہا۔

تجھ جیسی آوارہ عورت اور کیا کرے گی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے دوسروں پر الزام تراشی کرے گی“ اس کے شوہر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

ارے او بے شرم کچھ شرم کرو تمہاری ماں کی طرح نہیں کہ گھر کی نوکرانی تمہارے باپ کو دام فریب میں لیکر مالکن بن بیٹھیں تمہاری دادی کے آنسو رکتے نہیں تھے“ اس نے غصہ سے گلا پھاڑتے ہوئے کہا۔

ہاں میں جانتا ہوں رنڈی.... جا میں نے تجھے طلاق دی۔“ ڈیڈی نے اپنی غلیظ بھری زبان سے سب کچھ تباہ کر دیا تھا اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ سمجھ نہی سکی کہ یہ ندامت تھی یا احساس جرم تھا اس کے بعد سے اس کی ماں ہر سال دو سال کے بعد انڈیا آتی رہیں اور جب بھی واپس پہنچتیں تمیم ماموں کی ڈھیروں باتیں دلچسپی سے کرتیں۔ ہاں ! یاد آیا پرسوں کی ہی تو بات ہے تمیم ماموں کے گھر پر سب لوگ کھانے کے لیے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے تبھی ماموں نے کہا تو ”بھئی کمال ہے شانو تم تو آج بھی وہ تیس سال پہلے والی شانو لگ رہی ہو، تم نے اپنے آپ کو maintain رکھا ہے تعریف کے قابل ہے تمہاری یہ بات۔“ مما بہت زور سے کھلکھلا کر ہنسی تھیں اور کہا تھا۔”اور آپ بھی تو آج تک ویسے ہی ہیں، اتنے ہی اسمارٹ بلکہ اب تو کچھ زیادہ ہی اسمارٹ لگتے ہیں، کپڑوں کا وہی سلیقہ کوئی آپ سے سیکھے آپ نے تو پورے خاندان کو فیشن سکھا دیا“ ماموں اس بات پر کچھ ردعمل نہ کرتے ہوئے سنجیدہ ہوگئے اس نے دیکھا ممانی کے چہرے پر ایک ترش لہر آئی اور وہ کچن میں چلی گئیں جبھی اس کے ذہن میں پھر مما کی باتیں آنے لگیں ”مما واقعی یہ بہت تعجب کی بات ہے لوگ مجھ سے کہتے ہیں تمہاری مما تمہاری بہن لگتی ہیں“اور مما ہنس دیتیں۔ پھر اچانک وہ یادوں سے باہر آگئی اس کی ماں بیڈ پر بے سدھ بیٹھی سامنے دیوار پر گھور رہی تھی جیسے سامنے ان کے ماضی کی فلم چل رہی ہو۔

اس نے اپنی ماں پر ایک نظر ڈالی اس کی آنکھوں میں اسے ویرانی نظر آئی جو اس کے ہوش و حواس پر کسی ایسی پرانی حویلی کی طرح اپنے ماضی کے سنہرے لمحات کی داستان کہتی نظر آ رہی تھی جس کو تاریخ نے لکھا نہ سنایا ہو صرف اس میں داخل ہوکر ہی اس کے اسرار و حالات سے واقف ہوا جا سکتا تھا۔ تھوڑی سی دیر کے لیے اس کے دل میں اپنی ماں کی بےچارگی اور محرومیوں کے لیے ہمدردی اور افسوس کے جذبات موجزن ہوئے لیکن انسان اپنی خود پرستی اور خود غرضی کا پتلا ہوتا ہے جو پاک رشتوں کے تقدس کو بھی پامال کر دیتا ہے اور انتہاءسفاکی سے اپنے مقصد کی چاہت میں قدم بڑھا دیتا ہے اس نے بھی ماں کے لیے ابھرنے والے جذبات کو آہوں !! کہہ کر جھٹک دیا اور ایک بار پھر اپنی خواہشات کی تکمیل کی غرض اس کے پیش نظر تھی۔

مما میرا بھی یہ آخری فیصلہ ہے میں فراز سے ہی شادی کروں گی“ اس نے اپنی ماں کی ماضی کی یادوں پر اپنے فیصلہ کی برق گراتے ہوئے کہا۔

اس کی ماں نے کسی زخم خوردہ ناگن کی طرح پھنکار مارنے کے لیے غصہ سے تمتمائے سرخ چہرے کو اس کی طرف گھمایا اور پھر پتہ نہیں کیوں ثمرین کی شکل دیکھ کر مضمحل ہوگئی اور بہت آہستہ اور لجاجت سے بولی ”بیٹا کیوں مجھے تکلیف دینے پر اتارو ہو میں تم سے خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ فراز سے شادی کا ارادہ ترک کر دو میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔

 ”مما آخر آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں کوئی وجہ تو بتائیں کیا تمیم مامو سے آپ کے ناجائز؟“ ابھی اس کا جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا اور اس کی ماں نے۔

کیا....؟“ کہتے ہوئے ایک بھرپور تمانچہ اس کے گال پر جڑ دیا ”ارے بے شرم یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے تجھے ذرا سی حیا نہیں آئی تیرے دیدے کا پانی بالکل مر گیا، تو بھی اپنے باپ کی طرح انتہا گندی ذہنیت کی نکلی“ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے سیل رواں جاری ہوگیا اور وہ اسی روندھی آواز میں بول رہی تھی۔ ”تم کیا جانو تمو کو بہت شریف نیک اور کردار کا مضبوط شخص ہے وہ، اس نے تو کبھی بھی محبت کا اظہار تک نہیں کیا میں نے تو صرف اس کی آنکھوں میں چاہت محسوس کی اور بس اس چاہت کو میں نے اپنے دل کے مندر میں بسا لیا میں نے تو اشارے کنائیوں میں اپنی محبت کا اظہار بھی کیا مگر میں واری گئی اس کی شرافت کی اس کو خلوت کے بہت سے مواقع فراہم آنے کے بعد بھی بالکل کسی دیوتا کی طرح اس نے اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھا مجال کہ بہک جاتا جتنا وہ یہ رخ اختیارکرتا گیا اتنا ہی میری رگ وپے میں وہ اترتا گیا جانتی ہو بیٹا اس کی وجہ کیا تھی میں جب بھی اس کے سامنے موجود ہوئی اس نے ہمیشہ میری خوبصورتی میری نرگسی آنکھوں کی گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کی ستواں ناک کی سیب کی طرح سرخ رخساروں کی تعریف کی جب بھی ہوا برابر یہی کہتا شانو پتہ نہیں اللہ نے تمہیں اتنا خوبصورت کس کے لیے بنایا ہے میرے بس میں ہوتا تو تمہاری خوبصورتی کو شیشے میں سجا کر رکھتا، تم کیا سمجھتی ہو ؟کیا میں ان باتوں کو نہیں سمجھتی تھی مجھے یہ سب باتیں سن کر اچھا بھی لگتا تھا غصہ بھی آتا تھا، یہ سب کہتا ہے لیکن کبھی زبان محبت کہنے کے لیے نہیں لڑکھڑائی میں آج تک نہیں سمجھ سکی اس کے رویہ کو شاید اسی طرح کے دیوتا ہوتے ہوں گے جو اپنے چاہنے والوں کی چاہت کو اپنے وردان سے سرفراز کرتے ہوں گے میں نے اس کی زبان سے محبت کا لفظ سننے کی موہوم سی امید پر زندگی کے ہر سردوگرم کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا، مجھے تو ہمیشہ اپنی خالہ پر بھی غصہ اتا رہا کہ انھوں نے بیٹے کی مرضی کا اندازہ نہیں لگایا“ وہ زارو قطار رو رہی تھی آج اس کی پرستش میں آزمائش کا وقت آگیا تھا پھر وہ ایک مصمم ارادے اورکرخت لہجے میں بولی۔

نہیں یہ ممکن نہیں ہے تمو سے میں کوئی دوسرا رشتہ نہی جوڑ سکتی تمو میرا دیوتا ہے میں نے دل کے مندر میں کب سے سجا رکھا ہے ، میں اس کی پوجا کرتی ہوں میں نے اس کی خاطر اپنے اپ کو جوان بنائے رکھا ہے۔ میں اس کی سوچوں کو شرمندہ نہیں کروں گی ، میں نے اس کی یادوں کے ساتھ بڑے خوش رنگ دن گزارے ہیں میں نے کبھی اپنے آپ کو کسی غم میں مبتلا نہیں کیا ، صرف اس کی خاطر اس کو میری خوبصورتی پسند ہے میں نے اپنے آپ کو اس پھول کی طرح رکھا جو گلدان میں سجے ہونے کے باوجود تروتازہ رہتا ہے۔ بیٹا میرے دیوتا کو مجھ سے الگ مت کرو میں اپنے صنم خانہ میں اپنے دیوتا کے لئے کوئی دوسرا رشتہ قبول نہیں کرسکتی میں اپنے صنم خانہ کے آنگن میں کسی دوسرے دیوتا کو مندر بنانے نہیں دوں گی میں تمہارے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ بیٹا میں اپنے دیوتا کے تصور کے بغیر کل کی مرتی آج مر جاں گی“ اس کی ماں اس کے سامنے ہاتھ جوڑے بلک بلک کر رو رہی تھی آج ایک طوفان بپا ہوگیا تھا آج سارے بندھ ٹوٹ گئے تھے ایسا لگتا تھا خاموش جھیل میں کسی نے بڑا سا پتھر پھینک کر پانی کو دور دور تک اچھال دیا تھا اچانک اس کی ماں اسے بوڑھی لگنے لگی تھی ماں کے تھپڑ کی شدت سے اپنے گال پر ہاتھ رکھے ہوئے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس نے ماں کی طرف دیکھا اور سوچا....تو.... تو.... کیا ! اس کی محبت کا بھی یہی....اس کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں سکی اور بے ہوش ہوگئی۔

کوئی تبصرے نہیں