نثری نظم
مسلم انصاری |
تجھے خبر ہے میں دن سے کہتا
ہوں رات آنے میں جلدی کرے
مگر رات سے پہلے شام مجھے
کھاتی ہے
میں لوٹتے ہوئے پرندے دیکھتا
ہوں تو میرا اندر خالی گھونسلہ بن جاتا ہے
رات مجھے ادھیڑتی ہے جاناں
جیسے لوک کہانیوں کی بوڑھی
عورتیں کروشیا غلط ہو جانے پر دھاگے ادھیڑتی ہیں
جیسے بے ترتیب سلائی لگنے
پر کپڑوں کی پرتائی کی جاتی ہے
اندر اندر بڑا مٹیالا ہے
جاناں: جیسے کیچڑ میں مفلوک
الحال بچہ کھلونے بیچنے والے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے گر جاتا ہے
جیسے بند پڑے گھر کی چھت
ٹوٹتی ہے
ایسے ایسے سوکھی آنکھوں کا
بھرم ٹوٹتا ہے
دیکھ نا: میں تجھے لکھتا
ہوں!
روز، ہر رات کسی ہوم ورک
کی طرح
جیسے بچے تختی لکھتے ہیں
جیسے جنگ میں مارے جانے والے
سپاہی موت سے پہلے خط لکھتے ہیں
میں چَھپتا ہوں جاناں!
روز دیوار پر
اپنے اظہار پر
جیسے گم شدہ لڑکیوں اور پاگلوں
کے اشتہار چسپاں ہوتے ہیں
ایک یہی کام تو سرکتا تھا
تجھے، بھاتا تھا مجھ میں!
اب تو تُو جانے کس حال میں
ہے
میرا چہرہ تجھے یاد ہے جو
تیرے چھونے پر سفید پڑ جاتا تھا
سنتی ہو عید آنے والی ہے
تم مجھے بتانا
کس رنگ کے کپڑے پہنو گی
میں وہی رنگ خریدوں گا!
فغاؤں کی کونجیں غول در غول
مجھے چگنے آ رہی ہیں
تجھے میرا لباس یاد ہے جو
تُو نے میرے لیے منتخب کیا تھا
پگلی یہ تیری غیر موجودگی
میں لکھی گئی سطریں کوئی گلہ تھوڑی ہیں
میں تیری اجازت کے بنا اُف
کروں تو کافرِ محبت ہو سکتا ہوں
جاناں! اگر میں ایک پرندہ
ہوتا تو روز تیرے نئے گھر کی دیواروں پر اڑتا رہتا یہاں تک کہ میرے پَر ٹوٹ کے گرنے
لگ جاتے جیسے میرے بال گر رہے ہیں
کیا تُو مجھے دانہ ڈالا کرتی؟
ہمدم: میں تجھے لکھنا چاہتا
ہوں
شوق سے، بریدہ روح کے ہمراہ،
لرزتے پوروں کے ساتھ
چیخ اور گیت ہر دو کا سہارا
لے کر
میں سوچتا ہوں تجھے ایسے
لکھوں کہ لوگ تجھ سے ملنا چاہیں اور تیرا نام پوچھیں
پر پھر وہ لوگ جنہیں کبھی
نا کبھی محبت ہوئی ہوگی میری طرف سے تجھے پھول بھیجا کریں گے
تُو میری لکھائی سے صفحے
پر ایسے ابھر آئے گی جیسے جوانی کے دانے چہرے پر آتے ہیں
جیسے جوان ہوتے حسین لڑکے
کی ٹھوڈی پر پہلا بال اگتا ہے
میں چاہتا ہوں تیرا جنم دن
کسی بھی ایک بار عالمی سطح پر منایا جائے
میں قدرت رکھتا تو ساری دنیا
کے مصوروں کو تیری عکاسی پر لگا دیتا
سارے لکھاری تیری مدح لکھتے
سارے شعرا تیری نظم بھری
آنکھوں کو پڑھ کر دنیا کی تمام موسیقی ترتیب دیتے
تُو ہر ادبی اور غیر ادبی
فن کا نیا دائرہ ہو جاتی
گایک تجھے گاتے اور تلاش
کرتے
جیسے میلوں میں گم ہو جانے
والے بچے اپنے عزیز تلاش کرتے ہیں
لگن اور طلب کے ساتھ
روتے ہوئے
دوڑتے ہوئے
جیسے میں تجھے تلاش کرتا
ہوں
چیزیں ٹٹولتے ہوئے
میں ہر پھول کو تیرے جسم
کی خوشبو دیتا
مگر جاناں: میں قدرت نہیں
رکھتا نا
اگر یہ قدرت پا بھی لوں تو
بھی نا کر سکوں
کہ میری ذات سے تجھ پر سوال
آئے گا
تیرا نام جان کر لوگ تجھ
سے بھیک مانگےں گے کہ تُو میرے پاس لوٹ آ
مگر جاناں محبت میں بھیک
کب ہوتی ہے!!
کوئی تبصرے نہیں