حضرت پیر سید برکات احمد شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ

تحریر: محمد بخش

حضرت سید پیر برکات احمد شاہ صاحبؒ کی ہمہ گیر شخصیت کا احاطہ کرنے کے لیے تو دفتر کے دفتر چاہئیں مگر اس مختصر ترین تعارفی مضمون میں خراج تحسین پیش کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے سے زیادہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔آپ ایک ولی کامل، عاشق رسول صلی اللہ علیہ سلم، عالم، شریف النفس، نفیس مزاج اور سادگی کا پیکر تھے۔ایسی روحانی علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر ہونے کے علاوہ، اعلیٰ پائے کے سینیٹر اور دھیمے مزاج کے بزرگ اور مدبر سیاست دان بھی تھے۔

آپ کے والد ماجد حضرت پیر سید محمد فضل شاہؒ نے تحریک پاکستان میں تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا۔ حضرت پیر سید برکات احمد شاہؒ نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے تکمیل پاکستان میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ملکی یکجہتی، بقاءاور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا۔ آپ امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی تھے۔

خاندانی پس منظر

جلال پور شریف ضلع جہلم میں مشہور عالم درگاہ آستانہ عالیہ جلال پور شریف کے بانی آپ کے جد امجد حضرت پیر سید غلام حیدر علی شاہؒ ایک جلیل القدر ولی اللہ تھے۔ جنھوں نے اس علاقے میں اسلام کی شمع کو فیروزواں کیا تھا۔ پھر آپؒ کے پوتے حضرت سید محمد فضل شاہ صاحبؒ نے تحریک حزب اللہ شروع کی اور اس کے پلیٹ فارم پر مسلمانوں میں معاشرتی، تمدنی، اقتصادی اور علمی انقلاب برپا کیا اور جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کو واحد نمایندہ جماعت کہا تو اس موقع پر آپ نے مسلمانوں کے عظیم تر مفاد میں مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا اور 1946 میں حضرت امیر حزب اللہ نے مسلم لیگ کے امیدواروں کو کامیاب کرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ جس کے نتیجے میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ پھر جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرنا چاہا تو جہاد کشمیر میں حزب اللہ کے کئی ہزار رضا کاروں نے حصہ لیا اور جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر جرأت مندانہ کارنامے سرانجام دیے۔

حالات زندگی

آپ 4 فروری1918 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی اور اس کے بعد لاہور تشریف لے گئے۔ جہاں انھوں نے بی۔اے کیا۔ اس کے بعد آپ نے فقہ، تفسیر، حدیث، منطق، صرف و نحو اور عربی ادب میں نصاب نظامیہ کی تکمیل کی۔ آپ کا ارادہ الازہر یونیورسٹی قاہرہ میں داخلہ لینے کا تھا لیکن 1939 میں دوسری عالم گیر جنگ کے باعث یہ ارادہ عملی صورت اختیار نہ کرسکا۔

سید برکات احمد شاہ صاحب 1942 میں گورنمنٹ آف انڈیا میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر فوڈ مقرر ہوئے 1947 کو آپ ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے پاکستان آئے۔

آپ 1950 سے 1960 تک جائنٹ ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر فوڈ و وزارت زراعت حکومت پاکستان مقرر ہوئے۔

جناب سید برکات احمد شاہ صاحب 1960 سے 1962 تک ڈائریکٹر اور ڈپٹی سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے۔ 1962 سے 1967 تک آپ روم میں پاکستان کے ریزیڈنٹ سیکریٹری زراعت اور بعد میں آپ زراعت قونصلر (اٹلی) سفارت خانہ پاکستان کے عہدوں پر فائز رہے۔



آپ کا شمار ممتاز ترین ماہرین زراعت میں ہوتا تھا۔ آپ کی گراں قدر خدمات پر ”تمغہ پاکستان“ بھی دیا گیا۔

آپ کی دیانت و امانت، راست بازی اور شرافت ذاتی کا بڑا شہرہ تھا۔

عظیم والد کی فرقت

18 شعبان 1386 (یکم دسمبر 1966) کو آپ کے والد ماجد امیر حزب اللہ ابوالبرکات حضرت سید محمد فضل شاہ رحمة اللہ علیہ وصال فرما گئے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)

عظیم والد کی فرقت، آپ کی ذمہ داریوں میں اضافہ کر گئی۔ جہاں آپ نے اہل خاندان کی دلجوئی فرمائی وہاں لاکھوں عقیدت مندوں کی روحانی راہنمائی اور پیاس بجھانے کی ذمہ داری بھی قبول فرمائی۔ جس کی وجہ سے آپ نے وطن واپس تشریف لانے کو ترجیح دی 1967 سے پانچ سال تک آپ محکمہ زراعت و خوراک اسلام آباد میں آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی رہے۔ 1974 سے 1976 تک بحیثیت ممبر فیڈرل سروسز ٹریبونل، کیبنٹ ڈویژن سے منسلک رہے۔ جس کے بعد 1978 تک آپ جائنٹ سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن کے عہدے پر فائز رہے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ 1978 سے 1980 تک درس نظامی (پرائیویٹ) سے منسلک رہے۔ اس کے بعد آپ جمعیت علمائے پاکستان کے نائب صدر اور بعد میں سینئر نائب صدر منتخب ہوئے۔

اس کے ساتھ ساتھ آپ جمعیت علمائے پاکستان پنجاب کے صدر بھی رہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد نگراں حکومت نے آپ کی قومی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کو حکومت پنجاب میں وزیر محکمہ کو آپریشن اور زکوٰة کا قلم دان سونپا گیا۔ آپ اس عہدے پر اگست سے اکتوبر 1990 تک فائز رہے۔ دنیاوی مصروفیات اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی سلسلہ بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رکھا۔ آپ آستانہ عالیہ چشتیہ حیدریہ المعروف جلال پور شریف کے سجادہ نشین بھی تھے۔ آپ کے مریدین آپ کی عطا کردہ برکتوں اور تبرکات سے اپنے دامن بھرتے رہے۔ جناب سید برکات احمد شاہ صاحب کی سرپرستی میں عبادت و ریاضت کی محفلیں سجائی جاتی تھیں جس میں آپ خوش نصیب لوگوں کے قلبوں کو منور فرماتے۔ جناب سید برکات احمد شاہ صاحبؒ کو دنیاوی چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ آپ اپنی راتیں یاد الٰہی میں گزارتے تھے اور دن میں نیکی، صبر، خدا کی شکر گزاری، محبت رواداری، امن و سخات اور شریعت و سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ آپ ہمیشہ دکھی اور مصیب زدہ لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔

آپ نے اپنے لیے اور اپنے نیاز مندوں کے لیے ہمیشہ رزق حلال کے حصول کو پسند فرمایا۔ ایک دفعہ عرس محبوبین کے موقع پر (جو حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمة اللہ علیہ کی یاد میں ہر سال منایا جاتا ہے۔) قوالی جاری تھی ایک پیر بھائی صوفی محمد اکبر رندھاوا جو فیصل آباد میں ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں ملازم تھے، وجد میں آگئے اور جو کچھ رقم پاس تھی قوالوں کو دے دی یہاں تک کہ واپسی کا کرایہ بھی پاس نہ رہا۔ مجلس ختم ہوئی تو صوفی اکبر صاحب حضرت صاحب کی خدمات میں اجازت کی خاطر حاضر ہوئے۔تو آپ نے فرمایا ”لگتا ہے آپ کے پاس تو کرایہ بھی نہیں۔

عرض کی ”جی حضور

آپ نے فرمایا۔ ”پیسہ سوچ سمجھ کر استعمال کیا کریں۔

جواباً عرض کیا ”جناب سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ تھوڑی سی تنخواہ ہے عیال داری اور مہمان داری میں کچھ نہیں بچتا۔ جس جگہ پر ملازم ہوں وہاں لوگ لاکھوں کما سکتے ہیں آپ اجازت فرمائیں تو ہم بھی لوگوں جیسا ہی کریں۔

آپ ہنس پڑے۔ چہرہ مبارک اکثر متبسم ہوتا تھا۔ مگر کھل کر ہنستے کم ہی کسی نے دیکھا ہوگا۔ دیر تک مسکراتے رہے اور فرمایا۔

نہیں، آپ کو جب ضرورت ہو ہماری طرف توجہ کرکے اللہ سے مانگ لیں اللہ تعالیٰ مہربانی فرمائے گا۔

پھر آپ نے کرایہ کے لیے رقم عنایت فرمائی۔ نگاہ ولی نے صوفی اکبر صاحب کی تقدیر بدل ڈالی۔ بقول صوفی اکبر صاحب اس روز سے تنگ دستی پیچھا چھوڑ گئی ہے اور جب بھی کوئی خواہش اور ضرورت پیدا ہوئی تو بفضل تعالیٰ حضور کی نظر کرم سے پوری ہوئی۔

آپ کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی آپ سے بغیر اپنی حاجت پوری کیے نہ جائے۔

جناب سید برکات احمد شاہ صاحب کو آئی۔ جے آئی گورنمنٹ نے سینٹ کے ٹکٹ کے لیے پیش کش کی جوکہ آپ نے قومی اور ملکی مفاد کی خاطر قبول فرمائی تھی۔

جناب سید برکات احمد شاہ صاحبؒ نے کئی مرتبہ روضہ رسول پر ہدیہ سلام و عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضری دی۔ اپنی زندگی میں آپ نے آٹھ حج کیے۔ ایک دفعہ مولانا عبدالستار خان نیازی بھی ہمراہ تھے۔ آپ نے قریباً 35 مرتبہ عمرہ ادا فرمایا۔

تبلیغ اسلام کی غرض سے بھی آپ نے کئی غیر ممالک کے دورے کیے۔ 1981 میں عالمی کانفرنس اہلسنت والجماعت برطانیہ کی دعوت پر آپ انگلینڈ تشریف لے گئے اور برمنگھم میں ایک بڑے جلسے کی صدارت فرمائی۔ آپ دیگر ایشیائی، افریقی اور یورپی ممالک میں بھی تشریف لے گئے۔ حکومت پاکستان کے ایما پر آپ نے بابری مسجد کے سانحہ پر عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کی غرض سے مختلف ممالک کے دورے کیے۔

وصال مبارک

مجموعی طور پر آپ نے صحت مندانہ زندگی گزاری، البتہ عمر عزیز کے آخری چند سالوں میں الرجی کی شکایت ہو جاتی جس سے بعض اوقات سانس لینے میں قدرے دشواری ہوتی۔ 1993 عارضہ خون دریافت ہوا۔ علاج، تیمار داری میں آپ کے سارے خاندان نے جن میں آپ کے بھائی جناب ڈاکٹر کرنل سید لمعات احمد صاحب، آپ کے فرزند صاحبان، پوتے صاحبان اور باقی خاندان کے افراد نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ خدمت گاروں میں کمانڈر نذیر احمد صاحب، سید امتیاز حیدر صاحب، صوفی محمد بشیر صاحب، صوفی عبدالحمید صاحب، ملک محمد اعظم صاحب اور دیگر پیر بھائیوں کو خدمت کا شرف حاصل ہوا۔

آپ کا وصال مبارک پیر 16 مئی 1994 بہ مطابق 4 ذوالحہ 1414 ہجری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد میں ہوا۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔

اگلے روز جلال پور شریف میں آستانہ عالیہ سیال شریف کے سجادہ نشین جناب حضرت خواجہ محمد حمید الدین سیالوی مد ظلہ العالی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کی نماز جنازہ میں ہزاروں مریدین کے علاوہ سینٹ کے چیئرمین (جو اس وقت قائم مقام صدر پاکستان تھے) کے علاوہ وفاقی وزرا، علما و مشائخ و عظام نے شرکت کی۔ آپ کو اپنے جدامجد حضرت پیر حیدر علی شاہ کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

آپ کی رحلت سے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حلقوں میں غم و الم کی لہر دوڑ گئی۔



تعزیتی پیغامات

صدر مملکت سردار فاروق احمد لغاری، وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو، وفاقی وزیر اطلاعات خالد احمد خان نے سینیٹر پیر برکات احمد شاہ صاحب کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ اپنے علیحدہ علیحدہ تعزیتی پیغامات میں انھوں نے کہا کہ ملک و قوم اور اسلام کی ترویج کے حوالے سے پیر برکات احمد شاہ کی خدمات کو ناقابل فراموش قرار دیا۔ آپ نے گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر جو خدمات انجام دی ہیں انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان رہنماؤں نے کہا پیر سید برکات احمد شاہ کی موت سے جو خلا پیدا ہو گیا ہے اسے مدتوں پر نہیں کیا جاسکے گا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ نے اپنے تعزیتی پیغام میں آپ کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ مذہبی رہنما ہی نہیں، مسلمانوں کے روحانی قائد بھی تھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر سابق وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ پیر سید برکات احمد شاہؒ صاحب کی اسلامی، سیاسی اور پارلیمانی خدمات کو طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔

سوگ میں سینیٹ کا اجلاس ملتوی

اسی دن سینیٹ کا اجلاس تھا۔ جس میں ملکی بقاءیکجہتی اور اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ کی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان کی وفات کو ملت اسلامیہ کا نقصان قرار دیا گیا۔ وفاقی وزرائ، وزیر قانون سید اقبال حیدر، جے سالک (وزیر بہبود آبادی)، سینیٹر اشتیاق اظہر، ڈپٹی چیئرمین عبدالجبار، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے علاوہ متعدد سینیٹر حضرات نے اظہار خیال کیا اور آپ کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ نیز آپ کے سوگ میں سینیٹ کا اجلاس ملتوی کردیا۔ ملک کے تمام سیاستدانوں نے آپ کی رحلت کو عظیم قومی نقصان قرار دیا۔

ذرائع ابلاغ کا خراج تحسین

آپ کی رحلت کی خبر کو ملکی ذرائع ابلاغ نے نمایاں طور جگہ دی۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن نے انتہائی نمایاں طور پر اس خبر کو نشر کیا اور آپ کی ملکی، ملی، سیاسی اور دینی خدمات کا ذکر کیا۔ تمام ملکی اخبارات نے صفحہ اول پر اس خبر کو شایع کیا اور آپ کی خدمات ملی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔

آپ کے دو صاحبزادگان ذی شان ہیں۔ جناب سید انیس حیدر مدظلہ العالی اور حضرت سید تنویر حیدر مدظلہ العالی۔ دونوں صاحبزادگان کو آستانہ عالیہ سیال شریف سے خرقہ خلاف عطا ہوا۔ حضرت سید انیس حیدر مدظلہ العالی بیرون ممالک، تنظیم اقوام متحدہ (UNO) میں تعینات تھے۔ حضرت صاحب کے وصال کے بعد آستانہ عالیہ جلالپور شریف کے سجادہ پر مسند آراءہوئے۔

افغانستان کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم میں بحیثیت سینیٹر ایڈوائزر، اسلام آباد میں تعینات رہے۔ والد بزرگوار کے نیک خصائل میں سے آپ کو وافر حصہ ملا ہے۔ آپ معاملہ فہم اور نہایت زیرک ہیں۔ حضرت صاحب کے دوسرے صاحبزادے جناب سید تنویر حیدر مدظلہ العالی G.H.Q کے شعبہ کمپیوٹر میں تعینات رہے۔ بعدازاں زیارات حرمین شریفین کے لیے تشریف لے گئے اور کوئی ساڑھے تین سال کے لگ بھگ آپ مدینہ منورہ میں قیام پذیر رہے۔ مقصد وحیداللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری اور بارش انوار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فیضیاب ہونا تھا۔ 1992 میں آپ دہلی اور اجمیر شریف خواجہ نظام الدین اولیاہ رحمة اللہ علیہ، خواجہ معین الدین چشتی رحمة اللہ علیہ اور دیگر بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے۔ 6 اپریل 1995 کو آپ بغداد شریف حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کے مزار مبارک پر حاضری اور دیگر زیارات کے لیے عازم سفر ہوئے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مست، ولی کامل اور اپنے جداعلیٰ حضرت پیر سید غلام حیدر علی شاہؒ کی تصویر ہیں۔

تمام نیاز مندگان جلالپور شریف اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے عجز گزار اور دعا گو ہیں کہ وحدہ لاشریک اپنے نیک بندوں کو قائم رکھے۔ خاندان عالیہ جلالپور شریف کو دینی و دنیاوی عروج و افتخار حاصل ہو۔ ان کے روحانی تصرفات و اعجازت میں اضافہ ہو اور چشمہ محبت و رشد و ہدایت خلق خدا کے لیے ابد الآباد تک جاری و ساری رہے اور ہم سب مسلمانان عالم کو نور ایمان و یقین، نور محبت و عقیدت، نور علم و ہنر اور نور فتح و ظفر سے مالا مال فرمائے۔ (آمین)

1 تبصرہ: