خواتین کے تخلیقی جوہر کو تسلیم کرنے میں مردوں نے ہمیشہ بخل سے کام لیا ہے، گلنار آفرین



گلنار آفرین کا شمار ان اہل قلم میں ہوتا ہے جو مسلسل لگن اور محنت سے اپنا مقام بناتے ہیں۔ گلنار آفرین کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ آپ کے والد واثق ٹونکی اور بڑے بھائی ادیب واثقی کے نام ادبی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ گلنار آفرین کی کراچی کے سیاسی حالات سے متعلق نظمیں بھی خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ آپ کے دو افسانوی مجموعے ”پلک پلک سمٹی رات“ 1987، ”پھول اور وہ“ 2001 اور چار شعری مجموعے ”جرس گل“ 1990، ”تیشہ غم“ 1995، ”شہرِ آشوب کراچی“ 1996 اور ”وقت کا مسیحا“ 1999 میں شایع ہو کر قبول عام کی سند پا چکے ہیں۔ گلنار آفرین سے ہونے والی ایک ملاقات کا احوال سوال و جواب کی صورت پیش خدمت ہے۔

 

سوال: آپ کے خیال میں شاعری کی کیا تعریف ہے؟

جواب: میرے خیال میں شاعری وہ ہوتی ہے جو روح کی گہرائیوں میں اترتی چلی جائے اور جب شاعر اپنی شاعری پڑھ رہا ہو تو سننے والا یہ سوچے کہ یہی میرے دلی جذبات کی ترجمانی ہے۔ فنکار کو اس کے اندر کا تخلیقی شعور راہ دکھاتا ہے جس کے نتیجے میں نظم، غزل یا افسانہ تخلیق ہوتا ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں سیلف پروجیکشن شاعر یا ادیب کا حق ہے نہیں؟

جواب: میں ذاتی طور پر سیلف پروجیکشن کے حق میں نہیں ہوں۔ میں اپنی بات کرتی ہوں کہ مجھے خود کو نمایاں کرنے کا احساس دل میں کبھی نہیں آیا۔ یہ فن اور فنکار کی توہین کے مترادف ہے۔ بے شک ساری عمر ہمیں کوئی نہ مانے اور نہ ہی ہمارے لیے محفلیں سجائی جائیں تو بھی کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا پہلے زمانے کے شعرا اور ادیبوں کو سیلف پروجیکشن کے بغیر شہرت نہیں ملی؟

جو شاعر و ادیب سیلف پروجیکشن کرتے ہیں، کیا انھیں یقین ہے کہ وہ ادب میں زندہ رہیں گے اور کیا ادب کا ایک عام قاری یہ جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ کون ”شارٹ کٹ“ کے ذریعے آگے بڑھ رہا ہے اور اصل تخلیق کار کون ہے۔

سوال: شاعرات پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ خود شعر نہیں کہتیں بلکہ سینئر شعرا سے لکھوا کر پڑھتی ہیں؟

جواب: اس سلسلے میں، میں چند باتیں کہنا چاہوں گی۔ پچھلے پچاس برسوں سے مرد حضرات کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی نوآموز شاعرہ پہلی مرتبہ مشاعرہ پڑھتی ہے تو اس کے بارے میں کھوج شروع کردی جاتی ہے اور اسے کسی مستند شاعر سے منسوب کرکے حتمی رائے دے دی جاتی ہے لیکن جن جینوئن شاعرات نے مسلسل لگن اور تخلیقی عمل سے اپنا مقام بنایا انھوں نے اس رائے کو غلط ثابت کردیا ہے۔ دوسری جانب سہارے سے چلنے والی شاعرات ایک خاص فاصلے تک چل سکتی ہیں پھر تھک کر بیٹھ جاتی ہیں۔ شاعرات اگر کسی استاد سے لکھوا کر پڑھ رہی ہیں تو میں سمجھتی ہوں کہ وہ اتنی قصور وار نہیں ہیں جتنے وہ استاد شعرا ہیں جو ادب کے ساتھ ایسا تباہ کن مذاق کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آپ لوگ صرف خواتین شاعرات پر ہی کیوں الزام لگاتے ہیں، کیا لاتعداد مرد شعرا، استاد شعرا سے لکھوا کر نہیں پڑھتے؟ لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں مرد کی حاکمیت ہے۔ خواتین کے تخلیقی جوہر کو تسلیم کرنے میں مردوں نے ہمیشہ بخل سے کام لیا ہے۔

سوال: آپ حال ہی میں ہندوستان کے مشاعروں میں شرکت کرکے واپس آئی ہیں۔ وہاں مشاعروں کی کیا صورت حال ہے؟

جواب: میں تقریباً ہر سال ہی ہندوستان بلائی جاتی ہوں۔ ابھی میں جون، جولائی میں وہاں تھی۔ وہاں مشاعرے پاکستان سے زیادہ ہوتے ہیں اور بڑے اچھے پیمانے پر ہوتے ہیں۔ وہاں یہ ریت پڑ چکی ہے کہ وہ شاعروں کو ایک مقررہ اعزازیہ بھی دیتے ہیں۔ آنے جانے کا کرایہ الگ سے ملتا ہے۔ وہاں بہت سے شعرا کا کام ہی مشاعرے پڑھنا ہے۔

سوال: جینوئن اور نان جینوئن شعرا کی شناخت کا پیمانہ کیا ہو سکتا ہے؟

جواب: استاد شعرا بعض لوگوں کو غزلیں لکھ کر دیتے ہیں، وہ یہ کام چھوڑ دیں، تو جہاں یہ جینوئن شعرا پر ان کا احسان عظیم ہوگا، وہاں نان جینوئن شعرا خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ سیدھی سی بات ہے۔

سوال: آپ کے افسانون کے بنیادی موضوعات کیا ہیں؟

جواب: میری تحریروں کا موضوع زیادہ تر سماجی جبر، مرد کی انا پرستی، عورت کی مظلومیت اور معاشرتی قدروں کی ٹوٹ پھوٹ بنتا ہے۔

سوال: علامتی افسانوں کا آپ کی نظر میں کیا مقام ہے؟

جواب: علامتی افسانے اگر ان علامتوں کے ساتھ لکھے جائیں جو انسان کی سمجھ میں آئیں اور کہانی اس میں موجود ہو تو علامتی افسانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔ میں بھی علامت کو بیانیہ افسانے میں لائی ہوں مگر مکمل علامتی کہانی نہیں لکھی۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ افسانے میں کہانی واپس آگئی ہے؟

جواب: یہ سچ ہے کہ ایک زمانہ ایسا آگیا تھا کہ جب ہر کہانی میں سے کہانی پن ختم ہو رہا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے اور اس وقت بھی جو کہانیاں لکھنے والے تھے وہ لکھ ہی رہے تھے۔ بات یہ نہیں ہے کہ افسانہ سرے سے ہی ختم ہو گیا تھا۔ ہر چیز کا ایک زمانہ ہوتا ہے اگر علامتی افسانے میں زندگی ہوتی تو وہ آگے چلتا رہتا اور زندہ رہتا۔

کوئی تبصرے نہیں